... loading ...
ریاض احمدچودھری
1980ء کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو بیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ 1984ء میں اْس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے حکم پر امرتسر میں واقع گولڈن ٹیمپل پر بھارتی پولیس سکھوں پر پل پڑی۔ 3 سے 8 جون تک ہونے والے” آپریشن بلیو سٹار” میں بھارتی فوج کے دس ہزار سورما، سیکڑوں سیکیورٹی گارڈز، پیراشوٹ رجمنٹ، توپ خانہ یونٹس کے اہلکاروں سمیت پولیس ریزرو پولیس 175 سے 200 سکھوں پر ٹوٹ پڑی۔ بھارتی فوج نے اس آپریشن میں بے رحمی اور سفاکی سے آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو کچل ڈالا۔ اس دوران ہزاروں شہری بھی بھارتی ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
سکھوں کے مقدس مقام دربار صاحب پر بھارتی حملے کے چالیس برس مکمل ہونے پر لندن کے ٹریفالگر سکوائر پر بھارت کے خلاف فریڈم ریلی نکالی گئی۔ جلوس میں ہزاروں سکھوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر ٹریفالگر سکوائر کی فضا، راج کرے گا خالصہ کے نعرے گونج اٹھی۔ ریلی کے شرکاء نے ہائیڈ پارک کے قریب ویلنگٹن آرچ سے آغاز کیا اور بکنگھم پیلس کے سامنے سے ہوتے ہوئے ٹریفالگر سکوائر پہنچے۔ریلی کے شرکاء سے سکھ رہنماؤں نے خطاب کیا اور برطانیہ سے سکھوں کو انصاف دلانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سکھ دربار صاحب پر حملے کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ بھارت میں 1984ء میں سکھوں کا بیدردی سے قتل عام ہوا۔ آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔ سکھ بھارت سے آزادی حاصل کر کے امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
سکھ لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے۔ بھارت نے تقسیم کے وقت سکھوں کو سبزباغ دکھا کر اورجھوٹے وعدے کرکے اپنے ساتھ ملایا تاہم سکھوں کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیاہے۔چنانچہ سکھ رہنما ماسٹرتاراسنگھ نے 28مارچ1953ء کو کہا:” انگریزچلاگیالیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب کالے آگئے ہیں۔جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔” دنیا جانتی ہے کہ اندراگاندھی نے اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی ، اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیاتھا۔ جبکہ31اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت ‘انڈین نیشنل کانگریس’ نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی گئی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے۔ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس مہم میں 30ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔
سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے بارے میں یہ خیا ل عام ہے کہ وہ خالصتان ریاست بنانا چاہتے تھے لیکن وہ خالصتان کے حمایتی نہیں تو مخالف بھی نہیں تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سکھوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھنڈرانوالہ کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ اگر سکھوں کو بھارت میں ان کے حقوق نہیں دیئے جانے تو پھر خالصتان کے نام سے الگ ریاست تشکیل دے دی جائے جہاں سکھ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں۔آپریشن بلیو سٹار کے بعد سکھوں کی اکثریت آپریشن بلیو سٹار کا ذمہ دار اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی کو سمجھتی تھی کیونکہ اس کے براہ راست احکامات انہوں نے ہی دیئے تھے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ردعمل کے طور پر آپریشن کے چار ماہ بعد 31 اکتوبر 1984 کو اندراگاندھی کو اس کے دو سکھ باڈی گارڈز (ستونت سنگھ اور بنت سنگھ ) نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کئی ہندو سکھ فسادات ہوئے جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے اور یہ خلیج اب تک حائل ہے ۔
مغربی ذرائع ابلاغ بھی سکھوں پر ہونے والے ظلم وستم پرخاموش نہ رہ سکے۔شواہدموجود ہیں کہ سکھوں کے خلاف ڈیتھ سکواڈز کی قیادت اس وقت کے وفاقی وزیر کمل ناتھ، ارکان پارلیمان سجن کمار، جگدیش ٹیٹلر، للت میکن، دھرم داس شاستری، ایچ کے ایل بھگت، ارون نہرو، ارجن سنگھ، حتیٰ کہ بالی ووڈ سٹار امیتابھ بچن کررہے تھے۔ اپنی ماں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی نے سکھوں کی نسل کشی کی ان الفاظ کے ساتھ حمایت کی تھی کہ جب ایک بڑا درخت گرتاہے تو ساری زمین پر لرزہ ضرورطاری ہوتاہے۔ بھارت میں سکھوں کو لگائے گئے زخموں پر مرہم نہیں رکھاگیا۔ آپریشن بلیوسٹار کو غلطی قرار دیاگیا لیکن اس غلطی کا مداوا نہیں کیاگیا۔ اس کے بعد ہونے والے ”فسادات” کے لئے بھی تحقیقاتی کمیشن قائم کئے گئے لیکن انھیں اختیارات حاصل نہیں تھے۔ اب بھارت کو زخم لگانے اور پھر ان پر نمک چھڑکنے کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔