... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
جنگل کا بشیر جب بوڑھا اور لاغر ہوجائے تب بھی بادشاہ ہی رہتا ہے مگر کتے بلی سب اس کو آنکھ دکھانے لگتے ہیں۔ سنگھ پریوار میں اس کی ابتداء خود سر سنگھ چالک کے پروچن سے ہوئی پھر آرگنائزر میں مضمون آیا اور اب تو اندریش کمار نے بھی طنزو تشنیع کے تیر چھوڑ دئیے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی بی جے نے اپنے بل بوتے پر420 نہ سہی تو 240نشستیں جیت کر پہلے نمبر پر ہے جبکہ کانگریس بڑی مشکل سے سو کے ہندسے پر پہنچ سکی ہے ۔ اس کے باوجود میڈیا میں بی جے پی کی کامیابی موضوعِ بحث نہیں بن پارہی ہے ۔ ایودھیا میں بی جے پی کی ناکامی پر ایک گفتگو کا لامتناہی سلسلہ چھڑا ہواہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ان مختلف النوع مضامین کو یکجا کردیا جائے تو ایک کتاب نہیں بلکہ انسائیکلو پیڈیا بن جائے گا ۔ اس موضوع پر سب سے زیادہ سنجیدہ اور مزاحیہ ویڈیو ز بنی ہیں ۔ان میں سے ہر ویڈیو نے مودی جی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ۔ یہ معاملہ صرف ایودھیا کے قرب وجوار تک محدود نہیں بلکہ بنارس کا بھی یہی حال ہے ۔ وارانسی کے اندر مودی کسی طرح مرتے پڑتے جیت تو گئے مگر ان بڑھت میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی اور آس پاس کی ساری نشستیں بی جے پی ہار گئی۔ اس کے باوجود چونکہ پھر سے مودی وزیر اعظم بن گئے اس لیے جاوید اختر کی زبانی کہنا پڑے گا
ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر
نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
بہت سے زرد چہروں پر غبار غم ہے کم بے شک
پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
وزیر اعظم نے اپنے حلقۂ انتخاب کے رائے دہندگان کی بابت اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ ‘ہر ہر مودی گھر گھر مودی’ کا جو نعرہ ہر گھر میں پہنچا ہے وہ تاقیامت ان کا بیڑہ پار کرتا رہے گا۔ اس لیے وہ عام لوگوں کی فلاح وبہبود پر توجہ دینے کے بجائے دکھاوے کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ۔ انہوں نے کاشی کو کیوٹو کی مانند عالمی سیاحت کا مرکز بنانے کے چکر میں زبردست تباہی مچائی یعنی بے شمار لوگوں کے گھروں اور دوکانوں کو بلڈوزر سے روند دیا گیا ۔ اس قدیم تاریخی شہر کو سیاحتی مرکز بنانے کی خاطر مندروں تک کو نہیں بخشا گیا۔ ایک تحقیق کے مطابق جملہ 286 شیولنگ اپنی جگہ سے ہٹا دیے گئے ۔ ان میں سے 146 تو وارانسی کے لنکا تھانے میں موجود ہیں اور وہاں روزآنہ ان کی پوجا بھی کی جاتی ہے مگر140 کہاں گئے کوئی نہیں جانتا ۔ ان کی تلاش کرنے کے بجائے گیان واپی محلے کی جامع مسجد کے تہہ خانے میں نام نہاد شیولنگ کی پوجا پر سیاست کی جاتی رہی ۔وارانسی میں وشوناتھ کوریڈور کے آس پاس چار سو کے قریب مکانات اور مندر توڑے دیے گیے ۔وشوناتھ مندر کے آس پاس ہر گھر میں ایک نہ ایک مندر ضرور تھا لیکن ترقیاتی پراجیکٹ کے نام پر سیکڑوں مندروں کو منہدم کیا گیا جن میں مشہور گنیش مندر بھی شامل تھا۔ بنارس کی گلی محلوں اور آباو اجداد کے مکانوں سے عوام کا ایک قلبی تعلق تھا ۔ ان پر بلڈوزر کو چلتا دیکھ کر عوام کے دل کی وہی کیفیت ہوئی جو افتخار عارف کی یہ نظم بیان ہوئی ہے
دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو و صنوبر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
تھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر
کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر
بنتے بنتے رہ گیا ہے
وہ اک گھر بھولنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے
وارانسی کے تشخص کو مٹی میں ملانے کا ردعمل یہ ہوا کہ تقریباً 800 کروڑ روپے لاگت سے بنائے گئے مندر کے باوجود مودی کے ووٹ گھٹ گئے اور متصل ساری سیٹیں بی جے پی ہار گئی ۔ ایودھیا اور کاشی میں جاری استحصال کو زعفرانی چادر سے ڈھانپ دیا گیا تاکہ وہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اسے پانچ سو سالہ غلامی سے آزادی کا نام دے کر مسلمانوں کے خلاف بلا واسطہ نفرت انگیزی کی گئی۔ ملک بھر کے ہندووں پر رام مندر اور کاشی وشوناتھ کاریڈور کی تعمیر کا احسان جتا کر ان سے ووٹ مانگے گئے ۔ رام مندر کے معاملے میں بی جے پی کی منافقانہ پالیسی اس وقت بے نقاب ہوگئی جب عوام جاکر ملائم سنگھ یادو کو کارسیوکوں کا قاتل ٹھہرانے والوں نے آگے بڑھ کر اکھلیش یادو کے والد کو بعد ازموت پدم بھوشن کا اعزاز دے دیایعنی دونوں ہاتھ سے لڈو کھانے کی کوشش کی گئی۔ غیر یادو سے ووٹ لینے کے لیے ملائم سنگھ یادو کارسیوکوں کے قاتل اور یادو ووٹ کی خاطر وہی مسیحا۔ ایسا لگتا ہے بی جے پی عوام الناس کو اپنی طرح نرا بیوقوف سمجھ لیا تھا ۔
ماضی میں ذرائع ابلاغ بی جے پی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرکے حزب اختلاف کی کمزوریوں کا ابھارتا تھا مگر اب بی جے پی پر بحث و مباحثے کا نیا رجحان پروان چڑھ رہا ہے ۔ بی جے پی کی بخیہ ادھیڑنے کی دوڑ میں باغی میڈیا اور گودی میڈیا کے بعد اب سنگھی میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے ۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی مکمل اکثریت حاصل کرپانے میں نا کامی پر آر ایس ایس کھلے عام اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے بی جے پی پر تنقید کر رہا ہے ۔آر ایس ایس سر براہ موہن بھاگوت نے تو خیر بلا واسطہ گول مول انداز میں اپنا نزلہ اتارا مگر راشٹریہ سویم سنگھ کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے تو کھل کر انتخابات میں شکست پر بی جے پی کو ہدفِ تنقید بنایا۔ آرگنائزر میں شائع ہونے والے ایک مضمون
میں رتن شاردا نے بی جے پی کی ناکامی کے لیے رہنماوں اور کارکنوں کی بیجا خود اعتمادی کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ ان کے مطابق وہ لوگ عوام کی آواز سننے کے بجائے وزیر اعظم نریندر مودی کی مدح سرائی میں مصروف رہے اور ان کی چمک دمک سے محظوظ ہوتے رہے ۔
دس سال کی گھٹن کا آر ایس ایس کے ترجمان آر گنائر میں اس طرح اظہار ہوا کہ رتن شاردا لکھتے ہیں بھلے ہی مرکز میں تیسری بار مودی حکومت بنی ہے لیکن اس بار بی جے پی اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میں پارٹی کی کارکردگی انتہائی خراب اور مایوس کن رہی۔ ان انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کو زمینی حقیقت سمجھنے اور غور و خوض کرنے کی تلقین کی گئی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت ایک چوتھائی سے زیادہ ارکان پارلیمان دیگر جماعتوں سے آئے ہیں۔ اس صورتحال پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے رتن شاردا نے لکھا کہ ایسے کئی سابق کانگریسی لیڈروں کو بی جے پی میں شامل کر لیا گیا، جنہوں نے بھگوا دہشت گردی کا نعرہ لگایا تھا۔ وزیر اعظم مودی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ باہر سے آنے والے چونکہ ان کے زیادہ وفادار اور چاپلوس ہوتے ہیں اس لیے وزیر اعظم کو اطمینان ہوتا ہے ۔
رتن شاردا’400 پار’کا نعرہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اہداف سیلفی لینے اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے نہیں بلکہ محنت کرنے سے حاصل ہوتے ہیں ۔ انہوں نے مزید لکھا کہ بی جے پی کارکن ‘آئے گا تو مودی ہی’ اور’اب کی بار 400 پار’کے نعروں میں الجھے رہے۔ سچ تو یہ ہے بیجا خود اعتمادی کے علاوہ اس نعرے نے پسماندہ طبقات کو آئین کی تبدیلی اور ریزرویشن سے محرومی کے اندیشے میں مبتلا کردیا اور کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ کی کیفیت پیدا کردی ۔شاردا کے خیال میں پرانے اور پر جوش کارکنوں کو نظر انداز کر کے نئے امیدواروں کو ٹکٹ دینا بھی نقصاندہ ثابت ہوا لیکن جو رہنما یہ سمجھتا ہے جملہ 543 سیٹوں پر الیکشن جیتنے کے لیے مودی کا نام کافی ہے ۔
سارے لوگ ان کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں تو ایسے میں پارٹی کے اندر مقامی اور پرانے کارکنان کی اہمیت ازخود ختم ہوجاتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی کی پسپائی کی وجہ مودی کی بیجا خود اعتمادی ، ان پر پارٹی کا غیر معمولی انحصارہے ۔ اس کے علاوہ ایودھیا اور کاشی کی سازش کا عوام کی نظروں میں بے نقاب ہوجانا بھی اہم پہلو ہے ۔ ایودھیا کے بعد بی جے پی کا نعرہ تھا’یہ تو بس ایک جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے ‘۔ ان میں سے ایودھیا اور کاشی نے وسطی و مشرقی اترپردیش میں بی جے پی کا بیڑہ غرق کردیا۔ مغربی یوپی نے عزت بچائی کیونکہ وہاں متھرا میں یہ کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی تھی ورنہ وہاں سے ان کا بھٹاّبیٹھ جاتا۔ میڈیا کے رویہ میں تبدیلی تو آرہی ہے مگر اس کے باوجود ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے لوگوں پر جاوید اختر کی غزل کا مقطع صادق آتا ہے
اندھیرے ڈھل گئے روشن ہوئے منظر زمیں
جاگی فلک جاگا تو جیسے جاگ اٹھی زندگانی
مگر کچھ یاد ماضی اوڑھ کے سوئے ہوئے لوگوں کو
لگتا ہے جگانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے