... loading ...
مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
نبی کریم ۖنے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عید الفطر کا دن، دوسرا عیدالاضحی کا”۔عید الفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں فرض روزوں کی تکمیل کر کے اس مقدس مہینے کے ایک تربیتی دور سے گزر کر اپنی روحانیت کو جلا بخشتے ہیں اور عید الاضحی اس وقت منائی جاتی ہے جب ایک دوسری عبادت یعنی حج کی تکمیل ہوتی ہے، اور لاکھوں مسلمان عرفات کے میدان میں اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعائیں کر کے ایک نئی زندگی کا آغاز کر چکے ہوتے ہیں۔عید الاضحی کے موقع پر اسلام میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت ہے اور یہ قربانی ہر صاحبِ نصاب پر واجب ہے اور اس کے بارے میں حضور اکرمۖنے یہاں تک فرمایا کہ ”جو شخص استطاعت رکھنے (صاحبِ نصاب ہونے) کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عید گاہ نہ آئے” (ترمذی، ابن ماجہ)قربانی ایسی فضیلت والی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہو جاتا ہے اور قربانی کرنے والے کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے،قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر بال کے بدلے میں قربانی کرنے والے کو نیکی ملتی ہے یہ قربانی کے جانور پل صراط پر سواریاں ہوں گے ہر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے کہ رمضان کے مہینے میں روزے، حج کے ایام میں حج، نماز کے وقت میں نماز اسی طرح قربانی کے دنوں میں قربانی ایک بڑا مقبول عمل ہے۔
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرمۖ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے دن) دس ذوالحجہ کو کوئی بھی نیک عمل (قربانی کا) خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قیامت کے دن بندہ اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ (اور یہ چیزیں ثواب عظیم کا ذریعہ بنیں گی) نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ قبولیت پالیتا ہے۔ لہٰذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔(ترمذی، ابن ماجہ)قربانی کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہوں۔ نبیوں کا خواب سچا ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تھا اور ایسی بات اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم دیئے جانے کے مترادف مانی جاتی تھی۔ اس لئے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ مَیں نے ایسا خواب دیکھا ہے، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا!ابا جان! آپ کو جو حکم ہوا ہے اس پر عمل کر یں آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے(سورة صٰفٰت رکوع:3)
حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولۖ یہ قربانی کیا ہے؟ حضور اکرم ۖنے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ۖ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا کہ (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملے گی، انہوں نے پھر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولۖ (جن جانوروں کے بدن پر اون ہے اس) اون کا کیا حکم ہے؟ آپۖ نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلہ میں بھی ایک نیکی ملے گی۔ (مشکوٰة) حضور اقدس ۖ نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فر ما ئی (مشکوٰ ة) حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا کہ عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے رقم خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی)قربانی کے جانور شرعاً مقرر ہیں گائے، بھینس، بیل، اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ مذکر و مؤنث، دنبہ، دنبی ان کے علاوہ کسی جانور کی قربانی درست نہیں اگرچہ وہ کتنا ہی زیادہ قیمتی ہو اور کھانے میں بھی جس قدر مرغوب ہو لہٰذا ہرن کی قربانی نہیں ہوسکتی،اسی طرح دوسرے حلال جانور قربانی میں ذبح نہیں کئے جاسکتے۔گائے، بیل، بھینس، بھیسنے کی عمر کم از کم دو سال اور اونٹ، اونٹنی کی عمر کم از کم پانچ سال اور باقی جانوروں کی عمر کم از کم ایک سال ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر بھیڑ یا دنبہ سال بھر سے کم کا ہو،لیکن موٹا تازہ اتنا ہو کہ سال بھر والے جانوروں میں چھوڑ دیا جائے تو فرق محسوس نہ ہو تو اس کی بھی قربانی ہوسکتی ہے, بشرطیکہ چھ مہینے سے کم کا نہ ہوا۔چونکہ قربانی کا جانور بارگاہِ خداوندی میں پیش کیا جاتا ہے اس لئے جانور خوب عمدہ موٹا تازہ، صحیح سالم، عیبوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ”اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے” (پارہ17، سورة الحج آیت 37)قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد گار ہے یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا جوئی کے لئے تھااور قربانی کی اصل روح اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی جذبے اوراپنی رضا کے لئے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)