... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ویسے تو پاکستان سے چین جانے والے تمام صاحبانِ اختیارکا واپسی پرمعاشی بہتری کی خوشخبریاںسنانا معمول بن چکا ہے لیکن جب سے سی پیک پر کام شروع ہوا ہے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے حالانکہ سی پیک منصوبہ معاشی کم اور دفاعی زیادہ ہے نیزیہ چین کی اپنی ضرورت ہے مگر پاکستان میں چاہے جو بھی جماعت برسرِ اقتدار آئے وہ سی پیک کے تحت جاری منصوبوں کو ترجیح دیتی اور تکمیل میں زیادہ سے زیادہ دلچسپی لینے کی کوشش کرتی ہے پاکستان سے آنے والے مہمانوں کی میزبانی میں چینی بھی گرمجوشی کامظاہرہ کرتے ہیں۔ شہباز شریف کے حالیہ دورہ چین کے دوران پاکستان اسپیڈ کا نام دیا گیا ہے جس پر وہ پھولے نہیں سما رہے اور پاکستانیوں کو باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے چینی تعاون ناگزیر ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ امریکہ کی طرح کچھ عرصہ سے چین بھی ڈومور کامطالبہ کرنے لگاہے۔ چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے خصوصی اہتمام کے باوجود ڈومور کے مطالبے میںشدت میں کمی نہیں ہوئی اور اب تو حالات اِس نہج پر آگئے ہیں کہ پاکستان کو چین ہدایات بھی دینے لگا ہے جن کی عدم تعمیل پر سرزنش بھی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کی نگرانی میںپہلے ہی سالانہ میزانیہ بنانے کی نوبت آچکی، ساتھ ہی چینی دبائو کا بھی سامنا ہے۔ شائبہ نہیں کہ ماضی میں کچھ معاملات میں پاکستان کے ساتھ چین فیاضی سے پیش آیا اولیں فیاضی 1971کی پاک بھارت جنگ کے اختتام پر کی جب پاک فوج نے ہتھیارڈال کر شکست تسلیم کی اور بنگلہ دیش الگ ملک بن گیا جسے تسلیم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ میں ایک قرارداد پیش ہوئی جو اگر من و عن تسلیم کرلی جاتی تو پاکستان کے بھارت میں نوے ہزارقیدی فوجی بنگلہ دیش کی تحویل میں چلے جاتے اِس صورت میں ڈھاکہ حکومت کومقدمات بنانے اور سزائیں دینے کا حق مل جاتا ایساہونے کی صورت میں خدشہ تھاکہ قتلِ عام اور آبروریزی کے من گھڑت الزمات لگاکر پاک فوج کے اہم عہدوں پر فائزشخصیات کو سزائے موت دے دی جاتی ایسے نازک لمحات میں چین مددکو آیا اور پہلی بار ویٹوکا حق استعمال کرتے ہوئے قرارداد کونامنظورکردیاجس کی وجہ سے پاک بھارت مزاکرات کی بساط بچھانا آسان اور قیدیوں فوجیوں کی باعزت رہائی ممکن ہوئی اِس کے بعد بھی کئی ایسے مرحلے آئے جب چین نے پاکستان کی مدد میں فیاضی دکھائی مگرفیاضی کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ ملک ہی پلیٹ میں رکھ کر پیش کردیا جائے ۔
چینی ایک کاروباری قوم ہیں کہاں سے کتنا مال اکٹھا ہو سکتا ہے۔ اُسے خوب معلوم ہے کیونکہ پاکستان میں اجتماعی سے زیادہ انفرادی فوائد پر توجہ دی جاتی ہے ،اسی بناپرآج کل بہت مہربان ہے مگراسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان کے تباہ ہوچکے ہیں جن کے سربراہ امیر سے امیر تر جبکہ اِدارے زبوں حالی کا شکار ہوئے۔ پی آئی اے ،ریلوے،اسٹیل ملز،پی سی بی سمیت دیگر اِداروں کو ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں یہی سوچ کارفرماہے حالانکہ سربراہ رہنے والے افراد چند برسوں میں ارب پتی ہوگئے چینی بھی پاکستانیوں کی اِس خو کو جانتے ہیں یہ اِس حد تک کاروباری ہیں کہ ایک ہی چیز کی مختلف کوالٹی اور قیمت رکھتے ہیں اور جس کی جتنی استطاعت ہواسی کے مطابق سامان مہیا کر دیتے ہیں نیزاچھی ڈیل کرانے کے عوض بخوشی درپردہ خدمت کردیتے ہیں ۔عام خیال یہ ہے کہ چین کی فیاضی دوستی کے علاوہ کاروباری سوچ کی مرہونِ منت ہے اُن کے ریسٹورنٹ ،مارکیٹ ،یاہوٹل سے کوئی چیز خریدے بغیر حوائج ضروریہ پوری کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی مگرپاکستان میں کیونکہ حکومت سے لیکر عام عہدیدار بھی ذاتی نفع کے عوض خدمات پیش کرنے میں عار تصور نہیں کرتے جس سے چند خاندان تو امیر ہوتے جا رہے ہیں مگر ملک میں ناقص اور گھٹیا مال کی بھرمارہورہی ہے جس پر قیمتی زرِ مبادلہ برباد کیاجا رہا ہے اب تو ایسی اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں کہ چینیوں کی نظریں پاکستان اور افغانستان کی معدنیات پر ہیں اسی لیے دونوں ممالک کی حکومتوں پرمہربان ہے ضرورت اِس امرکی ہے کہ دوستی اپنی جگہ مگر کاروباری اور تعاون کے معاہدوں میں نہ صرف شفافیت لائی جائے بلکہ پاکستان کے مفاد کو بھی مقدم رکھاجائے قیمتی معدنیات کو کوڑیوں کے بھائو دینا دوستی نہیں حماقت ہوگی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس کی صدارت کے دوران چینی صدر شی جن پنگ اوروزیرِ اعظم لی چیانگ سے اپنی ہونے والی ملاقاتوں کی روداد سنائی اور دونوں ممالک کے باہمی تعلقات ،اقتصادی اور سٹریٹجک شراکت داری کے حوالے سے ہونے والی مثبت پیش رفت سے آگاہ کیا ۔روایت مطابق وزیرِ اعظم نے چینی دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیا مگر جتنا سی پیک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا اور دوسرے مرحلے پر عملدرآمد کی نوید سنائی جارہی ہے یہ غلط طرزِ عمل ہے اور مسائل حل کرنے کی بجائے نظرانداز کی حکمت عملی لگتی ہے کیونکہ جب تک ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے تب تک سی پیک کے حوالے سے جتنی مرضی خوشنما ،دلفریب اور جاذبِ نظرتصویر کشی کرلی جائے کوئی یقین نہیں کرے گا سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکاتو سوال یہ ہے کہ اِس سے پاکستان کو یا عوام کو کیا فائدہ ہواہے؟ظاہر ہے کچھ بھی نہیں البتہ چند مخصوص خاندانوں کے اثاثوں میں اضافہ ضرورہو گیا جہاں تک چینی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو یہ زیادہ ترذرائع آمدورفت بہتر بنانے پر خرچ ہو رہی ہے اور یہ سب چین کی اپنی ضرورت ہے مگر چین کی طرف سے اپنی ضرورت کے منصوبوں پر سرمایہ کاری سے پاکستان کو مقروض کرنابہت ہی غلط ہے لہٰذا معاہدوں میں شفافیت لانے کے ساتھ جس دورے میں پاکستانی مفاد کا تحفظ ہواُسے ہی کامیاب تصور کرنا درست ہے۔ حالیہ دورے میں چینی حکام اور ذرائع ابلاغ نے میاں شہباز شریف کو پاکستان اسپیڈ کا لقب دیا ہے جس کی میڈیا میں تشہیر کی جارہی ہے جیسے یہ بھی کوئی کارنامہ ہو ،یادرہے کہ اکثر کاروباری مہمان کی ستائش وتحسین کرتے ہیں مقصدمہمان کا دل جیتناہوتاہے اور خوشامد کی آڑ میں مال بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وزیراعظم کو بھی چاہیے کہ تعریف کو محض تعریف سمجھیں حقیقت سمجھ کر ملکی مفاد کے منافی کسی کو رعایت نہ دیں ،دوستی اپنی جگہ مگر یہ مت بھولا جائے کہ وہ پاکستان کے حکمران ہیں اور پاکستانیوں کی بہتری اُن کے فرائض میں شامل ہے۔
چین نے گزشتہ چند دہائیوںمیں بہت ترقی کی اور معیشت مستحکم بنائی لیکن یہ ترقی قابلِ تقلید ہر گز نہیں کیونکہ وہاں زیادہ ترخریدار کے مفاد کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے معیار کو نہیں دورے کے دوران چین کے صنعتی اور کاروباری شہرشینزن میں ایک بڑی بزنس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان سے120جبکہ چین کی پانچ سو کمپنیاں اور کاروباری لوگ شریک ہوئے۔ اِس دوران 32مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے لیکن عملدرآمد کی بابت وقت کانہیں تعین کیا گیا جبکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی سے اغماض کی بھی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی خود انحصاری کا تقاضاہے کہ مال خریدنے سے زیادہ ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ دی جائے ۔آج کی دنیا میں معیشت کوسب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ معاشی معاملات کومدِ نظر رکھ کر ہی نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔ دورے کی کامیابی کا تذکرہ کرنے کی بجائے جب تک پاکستان کو ترقی دینے کے لیے جدیدٹیکنالوجی کے حصول اورخود کفالت پر توجہ نہیںدی جاتی، تب تک کسی بھی ملک کی ترقی کو قابل ِتقلید کہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔علاوہ ازیں دورہ چین کو تب ہی کامیاب کہہ سکتے ہیں جب پاکستان اپنے قدرتی اثاثے اپنی ترقی کے لیے استعمال کرے ۔صنعت وزراعت کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دے وگرنہ غیر ملکی دورے کامیاب کہنے کے باوجود محض وقت اور پیسے کا زیاں تصور ہوں گے ۔