... loading ...
زرّیں اختر
(١١ جون ؛ضمیر نیازی کی٢٠ ویں برسی)
”زمین کا نوحہ ( ایٹمی جنگ کے خطرے اور تباہ کاری کے حوالے سے ادبی انتخاب ) ،مرتّبہ ضمیر نیازی ”، ا شاعتِ اوّل ٢٨ ِ مئی ٢٠٠٠ء ، اشاعتِ دوم ستمبر ٢٠٠١ء ،ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن
۔۔۔۔
ضمیرنیازی کا مضمون ”اگر ذرّے کا دل چیریں” پچاس ماخذات رکھتا ہے۔اس مضمون کی ابتدائی پارہ طرفہ سرخی کے ساتھ دیا گیاہے :
”کولہو اور جوہری توانائی : راجھستان اور صحرائے تھر کے ایک نیم کچے گھر میں ایک کولہو ہے،جہاں تل ، رائی ،بنولے اور سرسوں کا تیل ضرورت کے مطابق پیلا جاتاہے۔ چند ہزار نفوس پر مشتمل آبادی والے اس علاقے میں تیل کا غالباََ یہ واحد”کارخانہ” ہے ، جسے ایک بیل سینکڑوں میلوں کی مسافت طے کرکے آس پاس کی آبادی کے لیے مہیا کرتاہے۔ ”
(پوکھرن اور چاغی میں دھماکوں کے فوراََ بعد دنیا بھر کے صحافیوں نے برصغیر کی جانب رخ کیااور خاص کر دونوں ملکوں کے ایٹمی دھماکوں میں کیے گئے علاقے اور آس پاس کے دیہات کے لوگوں کے تاثرات حاصل کرکے اپنے اپنے اخبارات میں شائع کیے ۔ نامہ نگار کینتھ جے کوپر کاسلسلہ وار مضمون پشاور کے فرنٹیئر پوسٹ ٣ جنوری ١٩٩٩ء میں شائع ہوا ۔ اس مضمون کا ابتدائی حصہ انہی مضامین پر مشتمل ہے)۔
پچاس صدیوں سے بھی زائد عرصہ گزر گیا کہ کولہوکے یہ بیل لاکھوں بلکہ کروڑوں میل کا سفر طے کرچکے ہیں اور اختتام سفر پر وہیں پائے جاتے ہیں جہاں سے سفر کا آغاز کیاتھا۔اس دیہات کے آس پاس میلوں تک چلے جائیے ،آپ کو پختہ سڑک کی ایک پٹی بھی نظر نہیں آئے گی اور نہ بجلی کا ایک کھمبا۔ آدم برداری اور مال برداری کے صرف دو وسائل ہیں : اونٹ اور رتھ ۔ اس خاموش اور پرسکون بلکہ یوں کہا جائے کہ ١٦ ویں ، ١٧ویں صدی میں منجمد ان طویل و عریض علاقوں کو ١١ اور ١٣ مئی ١٩٩٨ء کو چھ ہولناک دھماکوں نے دور دور تک ہلادیا۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیںتو کچے اور نیم پختہ گھروندوں کاکیا حال ہوا ہوگا۔ دھماکوں کے ساتھ ہی آن واحد میں گھنے دھوئیں کے طوفانی بادل چاروں اور پھیل گئے ۔ اور یوں محسوس ہوا کہ نہ صرف مکانات کی دیواروں میں شگاف پڑگئے ، بلکہ وہ زمین جس پر وہ مکانات کھڑے تھے ، اس کی چولیں تک ہل گئیں ہیں۔
اس کے چند چھنڈوں بعد بھارت ورش کے پردھان منتری ،اٹل بہاری واجپائی ،۔۔۔۔۔ریڈیو اور ٹی وی سے اپنے بھاشن میں قوم کو یہ ”خوش خبری ” سنائی کہ اب ان کا ملک چھٹی عالمی جوہری طاقت کے طور پر ابھرا ہے ۔ ابھی واجپائی کی تقریر ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ ملک کے طول وعرض میں لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے ۔ ہر محلے اور گلی کوچے میں مٹھائی کی دکانیں خالی ہوگئیں، پٹاخوں کے دھماکے کانوں کے پردے پھاڑ رہے تھے ، پورا ملک موت کا کنواں بن چکا تھاجہاں چند لاکھ نفوس کو چھوڑ کر پوری قوم مستقبل کے مرگ ِ انبوہ پر جشن منارہی تھی ۔ اس کے برعکس ہندوستانی سائنس دان ، ڈاکٹر ونود موبائی نے خدا لگتی بات کہی ۔ انہوں نے کہا: ” آر ایس ایس نے گاندھی جی کا قتل دوبار کیا۔ جسمانی طور پر ١٩٤٧ء میں ،اور پچاس سال بعد اُن کی میراث کو ۔ ”
جین مت کے بانی مہاویر اور اہنسا، گوتم بدھ اور اہنسا اور آخر کار گاندھی جی اور اہنسا۔تینوں کے فلسفہء حیات میں اہنسا(عدم تشدّد) قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے شعوری طور پر اس کی دھجیاں ملک کے طول و عرض میں بکھیری جارہی ہیں۔ پوکھرن کی سرزمین کو گوتم بدھ کی تذلیل کے لیے بطورِ خاص استعمال کیا جارہا ہے۔ وہیں پہلا جوہری دھماکا ١٩٧٤ء میں شری متی اندرا گاندھی کے دورِ حکومت میں کیاگیا۔ وقت ِ مقررہ پر وزیر اعظم صاحبہ اپنے دفتر میں بڑی بے چینی سے ٹہل رہی تھیں ۔ ان کی نگائیں اور کان اپنے خصوصی ٹیلی فون پر لگے ہوئے تھے ۔ جونہی گھنٹی بجی ، لپک کر انہوں نے فون اٹھایا۔ دوسری جانب کامیاب تجربے کی اطلاع ان الفاظ میں دی گئی : “Lord Buddah Was Smiling”، ”بھگوان بدھ مسکرا رہے تھے ۔”
ان دھماکوں کے بعد پاکستان کے تمام اُردو اخبارات یک زبان ہوکر میدان میں اتر آئے ۔صرف دو کالم نگاروں زاہدہ حنا اور مجیب الرحمن شامی نے ایٹمی تجربات کی مخالفت میں متعدد کالم لکھے ۔ انگریزی اخبارات میں ”دی نیشن” نے اردو پریس کی پیروی کی جب کہ ”ڈان ” اور ”دی نیوز” نے مخالفین و موافقین دونو ںکی آرا شائع کیں۔ مئی کے آخری ہفتے میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو ، جو وقتاًفوقتاً اپنے سیاسی نظریوں میں تبدیلی کو جزو ایمان سمجھتی ہیں ، جوش میں آکر اس قدر بے قابو ہوگئیں کہ اپنے دونوں ہاتھوں کی چوڑیاں اتاریں اور نواز شریف کو للکارتے ہوئے کہا کہ ”وہ یہ چوڑیاں پہن کر لاہور اپنے گھر چلے جائیں۔” یہ اور بات ہے کہ اب وہ امریکی صدر بل کلنٹن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سی ٹی بی ٹی (Comprehensive Test Ban Treaty) کانغمہ الاپ رہی ہیں اور اپنے حیدر آباد کے منعقدہ ناٹک سے انکار کر رہی ہیں۔اس ہیجان انگیز دور میں راقم الحروف نے ایک بااثر صحافی سے ،جو شاہ اور شاہ کے کاسہ لیسوں سے قرب کاشرف رکھتے تھے ، اس سلسلے میں اسلام آباد کی سوچ کے بارے میں دریافت کیا تو بقول ان کے سوائے نواز شریف کے ، ان کے تمام وزیر ، مشیر ،سفیر ،دفتری ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنما ،مختلف مکاتیب فکر کے علمائے کرام اور دانشور اِ ن محترم کی مختلف ٹولیاں جن میں اخبار نویس بھی شامل تھے ،فوری دھماکے کے حق میں تھے ۔اُنہیں مختلف ٹولیوں میں طلب کیا جاتا۔ ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سہ لفظی جملہ تھا :Tif for tat۔ اینٹ کا جواب پتھر سے ۔ ان محترم کرم فرما کے بموجب ایوان ِ وزیرِ اعظم میں ایک انتہائی مختصر اجتماع میں ایک نامور بزرگ صحافی کے غصّے اور جوش و خروش کا یہ عالم تھاکہ ”اگر ان کا بس چلتا تو وہ ایوان ِ وزیر اعظم سے کہوٹہ جاتے ، گولا حاصل کرتے اور اسے جیب میں رکھ کر دہلی کا رُخ کرتے ۔”
ادھر ہندوستان کے تمام فرقہ پرست و احیا پرست نام نہاد سیاسی رہنما اور دانشور روزانہ بیانات پر بیانات داغے چلے جارہے تھے ۔ لال کرشن اڈوانی ،جنہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے لیے ہندوستان بھر میں فضاہموار کرنے کے لیے نام نہاد ”رتھ یاترا” کے نام سے فرقہ پرستی ، تنگ نظری اورتعصب کے شعلو ں کو ہوادی تھی ، دھماکوں کے فوراََ بعد ہمسایہ ملک کو للکار کر کہنے لگے کہ ” پاکستان کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اب جنوبی ایشیا کی ماحولیاتی حکمت عملی میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور ان تبدیلیوں کو اسے محسوس کرنا چاہیے۔ ” اس جنگ جویانہ وطن پرستی اور مجنونانہ حکمت عملی کی فضا میں واجپائی نے اپنے چہرے پر سے میانہ روی کی نقاب نوچ کر اتار پھینکی اور کھل کر آزاد کشمیر پر بزورِ طاقت قبضہ کر لینے کی دھمکی نے اسلام آبادمیں مٹھی بھر امن پسندوں کے حوصلے بھی پست کردیئے ۔ اُدھر مغربی ممالک کا ردِ عمل بھی پاکستان کے ساتھ کچھ زیادہ ہمدردانہ نہیں تھا۔ بس یہ اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ صدر کلنٹن نواز شریف سے برابر رابطہ کیے ہوئے ہیں اور دھماکے نہ کرنے کی ہدایت جاری کرتے رہتے ہیں۔ یہی روّیہ بقیہ بڑی طاقتوں کاتھا۔ ان تمام حالات کا جو قدرتی نتیجہ نکلنا چاہیے تھا، وہ نکلا۔ ١١ ِ اور ١٣ ِ مئی کو پوکھرن میں چھ اور ٢٧ ِ اور ٢٩ ِ مئی کو چاغی (بلوچستان ) میں پاکستان نے سات جوہری دھماکے کیے ۔ جوہری حب الوطنی کے ان مظاہروں کے بعد دہلی او راسلام آباد اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ اب پانچ کی بجائے سات عالمی قوتیں وجود میں آگئی ہیں۔
چاغی صنعت و حرفت تو رہی ایک طرف ، معاشی و معاشرتی اعتبار سے پوکھرن سے کچھ زیادہ ہی پسماندہ علاقہ ہے ۔ آبادی کابیشتر حصہ چرواہوں پر مشتمل ہے یا اسمگلروں پر ۔ یہا ںدور و نزدیک جو کنویں نظر آرہے ہیں ،وہ دولت مندوں عربوں کی دین ہیں ،جو اکثر شکار و سیر و تفریح کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ آج (٢٤ اپریل) جب کہ یہ سطور لکھی جارہی ہیں، انگریزی روزنامہ دی نیو ز ”چاغی میں تباہی ” The Chagi disasterکے عنوان سے ادایے میں کہا گیا ہے کہ ” چاغی اور اس کے آس پاس کے دیہاتوں میں بسنے والے پانی کی شدید قلت کے پیش نظر نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں، چاغی جو پاکستان میں تکنیکی ترقی کے میدان میں نشان امتیاز اور تفاخر کا درجہ حاصل کرچکا ہے ، وہاں کے پندرہ ہزار باسی پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں۔ یہ خبر ہماری قومی غیرت و حمیت کا تمسخر اڑارہی ہے۔ ”اس وقت چاغی کی طرح پوکھرن میں بھی پانی کی شدید قلت کا وہی عالم ہے۔ دونوں جگہ لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ہندوستان میںدھماکے کی جگہ حکمراں جماعت کا کٹر فرقہ پرست ٹولہ ”شکتی مندر” تعمیر کرنا چاہتے تھے ، وہی علاقہ دوسال سے سوکھے کے لپیٹ میں ہے ۔ راجستھان کے عوام اسے جوہری دھماکوں سے منسلک کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ”ان دھماکوں نے نہ صرف
ہماری زمین کو بانجھ کردیا ہے ، بلکہ ہمارے آسمان کو بھی جلا ڈالاہے ۔ ”( دی نیوز ، ٣٠ ِ اپریل ٢٠٠٠ئ)
ضمیر نیازی صاحب کے اس مضمون میں Human Development in South Asia 1998 کی رپورٹ کے دونوں ممالک کی اس وقت کی سماجی صورتِ حال و بنیادی ضروریات و حقوق کے اعداد و شمار ہیں۔ لکھتے ہیں کہ مذکورہ رپورٹ کے بموجب ١٩٩٠ء تا ١٩٩٦ء تک دونوں ممالک ستر بلین ڈالر دفاع پر خرچ کرچکے ہیں، جس میں جوہری بم پر جو اربوں ڈالر صرف کیے گئے ہیں وہ شامل نہیں۔ ہندوستان نے سالِ رواں کے دفاعی بجٹ میں ٢٧ فیصد اضافے کا اعلان کیاہے ،جو آزادی کے بعد ایک ریکارڈ رقم ہے ۔سیاچن کا تنازعہ ١٩٨٢ء میں اٹھ کھڑا ہوا، وہاں دفاعی اخراجات کی رقم ناقابل ِ یقین حد تک پہنچ چکی ہے ۔ بعض ذرائع کے مطابق پاکستان ان بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کے تحفظ کے لیے روزانہ ایک ملین ڈالر صرف کرتا ہے ۔ کم و بیش اتنی ہی رقم ہندوستان کو بھی صرف کرنی پڑتی ہے۔
آزادی کے بعد دونوں پسماندہ ممالک کی اوّلین ترجیح دفاع اور قومی سلامتی کے امور کو حاصل رہی ہے ۔ گزشتہ نصف صدی میں اس مد میں کتنی رقم خرچ کی گئی ہے ، اس کے صحیح اعدادوشمار تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان جوہری توانائی کے حصول پر تین سو تا چار سو ملین ڈالر سالانہ صرف کرچکاہے۔
اس مضمون کی دوسری طرفہ سرخی :
عوام کاردّ ِ عمل : دھماکوں کے فوراََ بعد دونوں ملکوں کے عوام بڑے پیمانے پر جشن منانے سڑکوں پر نکل آئے ۔ دونوں ممالک میں مٹھائی کی دکانوں کا چند گھنٹوں میں صفایا ہوگیا۔ یہی گل فروشوں کی دکانوں اور ٹھیوں کا ہوا۔ چار دیواری کے اندر جو جشن منائے گئے ان میں دختر انگور کی بوتلوں کے کاک اڑا کر فتح و نصرت کے نغمے گائے گئے ۔ لیکن یہ خوشیاں اور گہما گہمی عارضی ثابت ہوئیں۔ جب جشن اور رقص و سرور سے فراغت حاصل ہوئی تو پتہ چلا کہ عالمی طاقت بن جانے سے روٹی ،روزی کے مسائل حل نہیں ہوا کرتے ۔ نومبر ٩٨ء میں ہندوستان کی چار ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت تھی ، انتخابات ہوئے اور چار ریاستوں میں باجپائی جی کی حکومت کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔ جون ٩٨ء سے ہندوستان بھر میں پیاز کی قلت پیدا ہوگئی اور نومبر میں انتخابات کے آتے آتے اتنی شدید ہوگئی کہ انگریزی اخبارات نے بعض انتہائی تمسخر آمیز سرخیاں لگائیں۔ جن میں ایک خاصی پسند کی گئی :
Onion Vs. th Bomb
”پیاز بہ مقابلہ جوہری بم ۔ اور جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو ایک اخبار نے سرخی لگائی :
IT IS THE ONION : THE BOMB DOWN A DRAIN
”پیاز کی فتح: بم نالی میں”
ہندوستان کے کثیر الاشاعت رسالے ”انڈیا ٹو ڈے ” نے انتخابات کے بعد ملک گیر پیمانے پر ایک سروے کرایا جس کے نتیجے میں عوام کی بڑی بھاری اکثریت نے جن دو اہم ترین مسائل کی نشان دہی کی ، وہ ہیں: افراطِ زر اور بے روز گاری ۔ ایٹم بم کے بارے میں عوامی رائے کے مطابق صرف ٢٢فیصد نے بم کی حمایت کی ، ٤٠ فیصد نے مخالفت کی اور ٣٨ فیصد غیر جانب دار رہے ، یہ نتائج حکومت ِ ہند کے لیے خاصے سبق آموز اور عبرت ناک ہیں۔
ادھر پاکستان میں گزشتہ سال مئی کے آخری ہفتہ سرکاری و غیر سرکاری طور پر جشن منایا گیا۔ آج دنیا کی ”ساتویں بڑی قوت” کے بارے میں اقوام عالم کیا رائے رکھتی ہیں، روزانہ اخبارات کی زینت بننے والی خبریں شرم ناک بھی ہیں اور عبرت ناک بھی ۔ پاکستان کے دھماکوں کے بعد آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم جان ہاورڈ نے انتہائی جارحانہ اندا ز میں کہا : ” یہ بڑی دیوانگی کی بات ہے اور ناقابل ِ یقین بھی کہ پاکستان جیسا انتہائی فلاکت زدہ ملک سفارتی جوڑ توڑ یا حکمت عملی کی سطح پر اس خیال سے اٹکھیلیاں کرے کہ وہ کسی طور پر جوہری صلاحیت حاصل کرکے عزت و احترام کے بلند ترین مقام پر فائز ہوجائے گا۔ ”
تیسری طرفہ سرخی”ذرّہ اور آدم خاکی” سے قبل میر تقی میرکا شعربیان کیاہے :
سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھالایا
ذرّہ اور آدم خاکی : اس عنوان کے تحت کائنات اور جوہر کا سائنسی سفر تحریرکیاگیاہے ۔ اسی میں لکھتے ہیں کہ ” صرف مٹھی بھر افراد یا فردِ واحد اپنی دیوانگی کی انتہا کو پہنچ کر کرئہ ارض کو جہنم کا نمونہ بناسکتاہے۔” آخر میں لکھتے ہیں ”اس وقت تو استرا بندروں کے ہاتھ لگ گیاہے۔ بس پانی پت والے مولانا پر کس گھڑی یہ مصرعہ وارد ہوا تھا کہ ایک صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی قدم قدم پر کانوں میں گونجتا رہتاہے :
اے خاصہء خاصانِ رُسل وقت ِدعا ہے
اس مضمون کی آخری طرفہ سرخی :
ایک دھماکا ، چار نسلیں: ہیرو شیما ٦ ِ اگست ١٩٤٥ء ، وقت : ٨ بج کر ١٦ منٹ ، مقامی ۔ ایک لرزہ خیردھماکا، آندھی ،دھویں کے گھنے بادل ، گھپ اندھیرا پھر چاروں طرف آگ کے شعلے جو آن واحد میں آسمان سے بھی پرے اٹھنے کے لیے مچل رہے تھے ۔ چاروں اور لاشیں ہی لاشیں اور جو زندہ بچ گئے تھے ان کے جسم پر کپڑوں کے چیتھڑے یا مادر زاد ننگے بدن کوئلہ ، جو کھال سے عاری تھا۔ اس قیامت ِ صغریٰ کو ابھی تیسرا ہی دن تھا کہ یہی حال ایک اور شہر کا ہوا۔ پہلا شہر ہیروشیما تھا تو دوسرے کا نام ناگاساکی۔ پہلے ہلّے میں ایک لاکھ بیس ہزار اور دوسرے میں پچھتر ہزار افراد اسی دن مارے گئے ۔ یہ واقعی خوش قسمت لوگ تھے ۔انہیں پتا بھی نہ چلا کہ زندہ بچ جانے والوں پر کیابیتی ۔ وہ لوگ بھی خوش نصیب تھے جو چند دنوں ، ہفتوں یا مہینوں میں اس جہان گزراں سے گزر گئے ۔ بدقسمت ترین وہ لوگ تھے جو خود نہ زندوں میں شمار کیے جاتے ہیں نہ مردوں میں ۔ وہ تو بس بے بسی کے ساتھ اب چوتھی نسل کو زندہ درگور دیکھنے کے لیے سانس لینے کاڈھکوسلا رچائے ہوئے ہیں۔
ربع صدی کی طویل مدت گزرجانے کے بعد (١٩٧٠ئٔ )The Pacific War Society نے اس قیامت خیز دن کے پسماندگان سے تجربات جاننا چاہے۔ اس وقت بھی لوگ اتنے خوف زدہ تھے کہ ان میں لب کشائی کی جرات نہیںتھی ۔ خوف و دہشت اور وحشت کی اس فضامیں جن افراد نے جرات کا مظاہرہ بھی کیا تو یہی کہا: ” ٦ اگست کے دن جو ہم پہ گزری ،سو گزری ، ربع صدی گزر جانے کے باوجود ہم جس درد اور کرب میں مبتلا ہیں اُس کی شدت اس قیامت خیز دن سے کچھ زیادہ ہی ہے۔اگر آپ ہماری داستان رقم کرنا چاہتے ہیں توصرف ایک التجاہے ، سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔”
یہ رپورٹ ”آدمی کا روزِ شکست” (THE DAY MAN LOST) کے عنوان سے ١٩٧٢ء میں اوٹاوہ سے شائع ہوئی ۔
ہیرو شیما اور ناگاساکی کی تباہی کے فوراََ بعد جب امریکی صدر ہیری ٹرومین کو اس کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا ”ہم نے عظیم ترین سائنسی جوئے میں فتح حاصل کر لی ۔”
جوہری بم کا پہلا تجربہ ایک ماہ قبل ١٦ ِ جولائی کو امریکہ کے چوٹی کے سائنس دانوں نے کیا جن میں امریکی بابائے بم جے رابرٹ اوپن ہائیمر ،تجربہ گاہ کے ڈائریکٹر کینتھ ہینبرج اور دیگر موجودتھے ۔ تجربے کی کامیابی سے تمام عملے اور سائنس دانوں میں خوشی کی لہر دوڑگئی ۔ تجربہ گاہ کے ڈائریکٹر نے کہاکہ ”جس نے آج کا نظارہ دیکھا وہ اسے زندگی بھر نہیں بھلاسکتا۔ کس قدر تعجب انگیز اور گھنائونا تھا۔” اس کے بعد وہ فرداََِ فرداََ حاضرین سائنس دانوں کو مبارک باد دیتا ہوا اپنے گرو اوپن ہائیمر کے پاس پہنچا اور اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ،” ہم سب کتیا کی اولاد ہیں۔” اس وقت تو اوپن ہائیمر خاموش رہا لیکن بعد میں اپنی بیٹی سے کہا کہ ”موزوں ترین تبصرہ ہینبرج کاتھا۔”
جس وقت ہوائی جہاز پر جوہری بم لادا جارہا تھا ،ہوائی مستقر کے کسی کارکن نے بم پر یہ جملہ گھسیٹ دیاتھا،” شہنشاہ جاپان کے لیے تہنیت و تسلیمات کے ساتھ۔” بم گرنے کے بعد جہاز کے کپتان ٹیبٹس کے بیان کے مطابق”جب اس نے اپنی آنکھوں سے سیاہ چشمہ اتارا تو اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا،بلکہ تھوڑی دیر کے لیے اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنی بینائی کھوبیٹھا ہے ۔” وہ مزید کہتاہے ”جونہی اس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوائی جہاز سرخ تیز روشنی سے منور ہوگیا اور عملے پر خوف طاری ہو گیا۔ واضح رہے کہ ہمارا جہاز جائے وقوع سے ساڑھے گیارہ میل دور نکل چکا تھااور پورے جہاز میں دراڑیں اور شکنیں پڑ چکی تھیں۔ جیسے ہم کسی گن بیٹری کی زد میں آگئے ہوں۔” جہاز کے دوسرے حصے پر جو بندوقچی بیٹھا ہوا تھا اس نے سرخ آندھی کی لہر اٹھتے ہوئے اور اسے جہاز سے ٹکراتے ہوئے دیکھاتھا ۔ جب دوسری لہر اٹھی تو اس نے خوف زدہ ہوکر عملے کو خبردار کیا۔ اس کے چند منٹوں پر ہوائی جہاز پر سوار درجن بھر لوگوں نے مڑ کر دیکھا تو سب کے سب حواس باختہ ہوگئے۔ شہر تو غائب تھا۔ طیارے میں موت کی سی خاموشی چھا گئی ۔ کچھ دیر بعد میرے ساتھی نے میرے کندھے کو زور زور سے ٹہوکے دیتے ہوئے کہا،”اس طرف دیکھو ۔۔۔۔اس طرف دیکھو ۔۔۔۔۔اس طرف دیکھو” وہ خوف زدہ ہورہاتھا۔ یہ جوہری تابکاری ہماری مردانگی کو متاثر تو نہیں کرے گی۔ دوسرے نے کہا کہ وہ اپنی زبان پر جوہری انشقاق Fissionکا ذائقہ محسوس کررہاتھا۔
جنگ کے خاتمے کے بعد ہوائی جہاز کے عملے کے ایک رکن نے نیویارک ٹائمز کے ایک نمائندے سے کہا:” میں نہیں سمجھتا کہ اس سے قبل کسی نے ایسا بھیانک اور گھنائونا منظر دیکھا ہوگا۔ صرف دو منٹ قبل ہم نے ایک ہنستا بستا شہر دیکھاتھا۔جاپان کے کئی بڑے تجارتی شہروں میں ہیروشیماواحد شہر تھا جس پر جنگ کے دوران ایک باربھی حملہ نہیں ہوا تھااس لیے اس کی آبادی جو جنگ سے قبل دولاکھ تھی اب تین لاکھ تنیتالیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ اس لیے جنگ کے باوجود وہاں روزمرہ کی زندگی معمول کے مطابق جاری تھی۔ پھر دو منٹ کے بعد جب نیچے نگاہ دوڑائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ چاروں اور دھویں کے سیاہ کثیف بادلوں کی گہری تہہ دار چادر ہے جس نے شہر کو اپنے اندر ڈھانپ لیاہے ۔اور ان گنت مقامات پر اس چادر سے آگ کے سرخ شعلے آسمان کو خاکستر کردینے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شہر اور شہر کے باسی کہاں روپوش ہوگئے تھے ،کچھ پتا ہی نہیں چل رہاتھا۔ اگر میں سو سال بھی زندہ رہا تب بھی ٦ اگست کی صبح کے وہ چند لمحے میرے حافظے سے محو نہیں ہوسکتے ۔” اس کے برعکس کپتان ٹیبٹس کے لیے یہ سارا واقعہ غیر شخصی رہا۔
٦ اگست ہیروشیما ، شہر کے متوسط علاقے میں سات افراد پر مشتمل ایک کنبہ تین کمرو ںکے فلیٹ میں مقیم تھا۔ آٹھ بجے تک اس کنبے میں صرف خاتون ِ خانہ مسز ہزومے مصروف ِ کار تھیں ۔ وہ ابھی میز سے ناشتے کے برتن سمیٹ رہی تھیں کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بس ۔۔۔۔پھر انہیں کچھ نہیں پتا۔ نہ معلوم کب ہوش و حواس بحال ہوئے ، پہلے تو آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا۔ پھر ان کی آنکھوں کی پتلیوں میں سوئی کی چبھن کے ساتھ ان کے سارے بدن میں ناقابل برداشت برقی رو دوڑ گئی جیسے انہوں نے ننگے برقی تار کو چھولیا ہو۔ ساتھ ہی انہیں ہولے ہولے ریت گرنے جیسی آواز سنائی دی ۔پلک جھپکتے ہی جسم میں پھیلی ہوئی رو نے شدید تپش کی صورت اختیار کرلی ۔ یہ تپش اس قدر بڑھی کہ معلوم ہونے لگا جیسے جسم بھن رہا ہے اور سر کے بال گر رہے ہیں۔ یہاں تک بھنویں اور پپوٹے بھی جھڑ گئے جب جلن اور تپش ناقابل برداشت ہوئی تو وہ باتھ روم دوڑیں، لیکن نلکے میں پانی کہاں تھا ، اس کی تو دیوار ڈھے چکی تھی ۔وہ گھسٹتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئیں۔ یہ عمل کل سات منٹ میں انجام پایا۔ وہ بالوں سے محروم ہوچکی تھیں ، ان کا لباس تار تار ہو چکاتھا ،او راب انہیں محسوس ہوا کہ لباس ہی نہیں بلکہ وہ جسم کی کھال سے بھی محروم ہورہی ہیں۔چاروں طرف دھواں اور گرتی ہوئی عمارتوں کے ملبے ، دھواں دھماکوں کا اور ریت کا جو گرتی ہوئی عمارتوں کاتھا۔ ”
دھماکے کے بعد لو کی رفتار بارہ سو فٹ فی سیکنڈ تھی ۔ بم جس جگہ گرا تھا اس کے آس پاس کے تین ہزار گز کے رقبے میں درجہء حرارت پانچ ہزار تین سو ڈگری فارن ہائیٹ پہنچ چکا تھا۔ہزاروں لوگ جسم کی چمڑی سے محروم ہوچکے تھے بلکہ ننگا گوشت بھی جھلس کر کوئلہ بن گیا۔ تابکاری کا خمیازہ تین نسلوں نے بھگتا۔گزشتہ سال انہی دنوں میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے متاثرہ افراد کے پوتوں او رنواسوں کے ایک وفد نے پاکستان اور ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔ تیسری جوان مسخ شدہ نسل کے ہاں بھی ایسے ہی بچے جنم لے رہے ہیں۔
جوہری پلانٹ کے زمینی و فضائی اثرات ، جوہری فضلہ ،جوہری بم ۔۔۔۔یہ ہلاکت خیز قوت انسان کو کہا ںسے کہاں لے جائے گی ؟ کل کیا ہوگا؟جنگ ہوگی ؟تو فاتح اور مفتوح کون ہوگا؟ اسی طرح کا ایک سوال اس صدی کی عظیم ترین شخصیت البرٹ آئن سٹائن سے کیا گیا تو اس کا جواب یہ تھا: ”یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تیسری جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ ہاں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ چوتھی جنگ لاٹھیوں اور پتھرو ںسے لڑی جائے گی۔”
اب ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ،دونوں ممالک جنہو ںنے اسی مہلک جوہری ہتھیار کے حصول کے لیے ناقابل فہم سرمایہ لگادیا ، وہ اپنی اگلی اور پھر اس سے اگلی جنگ کن ہتھیاروں سے لڑیں گے ؟ یکم مئی ٢٠٠٠ئ #