... loading ...
سمیع اللہ ملک
میری انتہائی سادہ دیہاتی،سفید ان پڑھ ماں،عجیب سی باتیں کرتی تھی ”دل کی آنکھ سے دیکھ،دل کے کان سے سن”میں نے انہی سے سناتھا ۔بہت جری اوربہادر،اب تونئی نسل کی بچیاں چھپکلی اورمعمولی سے کیڑوں کوسامنے دیکھ کراپنے اوسان خطاکردیتی ہیں اوراپنی چیخوں سے سے آسمان سرپراٹھالیتی ہیں،لیکن کیا مجال کہ رات کاگھپ اندھیرایاکبھی بادلوں کی کڑکتی گرج چمک سے انہیں کبھی خوف آیاہو۔یوں معلوم ہوتاتھاکہ خوف جیسی کوئی شئے بھی ان سے خوفزدہ ہے۔سفید موتئے کی کلیوں یاگلاب کے پھولوں کوایک بڑی تھالی میں رکھ کران سے باتیں کرناان کاایک معمول تھا۔میں ان سے کبھی پوچھتاکہ ماں جی!کیایہ آپ کی باتیں سنتے ہیںتوفورا مسکراکرفرماتیں کہ یہ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں، تجھے جس دن ان سے کلام کرناآگیاپھر دیکھنا تجھے کسی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔خفابھی ہوجاتے ہیں یہ تویہ پودے،درخت اورپھل پھول بہت لاڈلے ہوتے ہیں،بہت پیار چاہتے ہیں،اسی لئے اکثرمائیں اپنی اولاد کوپھول کہہ کرمخاطب ہوتی ہیں۔میں خاموش رہتا،کچھ سمجھ میں نہ آتالیکن اب کچھ کچھ سمجھنے لگاہوں اورشائدیہ انہی کی دعاؤں کاثمرہے۔شوہرکاانتقال ہوگیاتوسب بچوں کی باپ بھی بن گئیں۔بڑی سی چادرمیں لپٹاہوارعب دارچہرہ،گھرکے تمام امورکوخود اعتمادی کے ساتھ سنبھالادیا۔ کبھی نہیں جھکیں،سماج کوکئی مرتبہ جھکتے دیکھا۔اپنے شوہرکی طرح مجبوروں کیلئے انکارتوانہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔جہاں سے گزرتیں،لوگ سرجھکاکرسلام کرتے،لمحہ بھررک کران کی خیریت دریافت کرتیں، ”بالکل شرم نہ کرنا،کسی چیز کی ضرورت ہوتوبتادینا”ان کی گفتگوکایہ آخری جملہ ہوتااوروہاں سے آگے بڑھ جاتیں۔سب بچوں کی پڑھائی اور دوسرے معمولات پرمکمل اورگہری نظر ،مجال ہے کوئی عمل ان سے پوشیدہ رہ سکے۔وہ اکژمیرے کپڑے اس اندازاور نزاکت سے دھوتیں کہ ان کوبھی کہیں چوٹ نہ آجائے۔میں اکثران کے پاس بیٹھ جاتااورکسی کتاب یااخبارسے کوئی کہانی قصہ پڑھ کران کوسناتارہتالیکن اس کہانی یاقصہ پران کاتبصرہ سن کریقین نہیں آتاتھاکہ میری ماں بالکل ان پڑھ ہے۔ایک دفعہ میں سامنے بیٹھاکچھ سنارہاتھا کہ اچانک ایک پتھرمیری پشت کی طرف دیوارپردے مارا۔میں اس اچانک عمل پرخوفزدہ ہوگیا،پیچھے مڑکردیکھاتوایک زہریلا کیڑا تھاجو اس پتھرکی ضرب سے کچلاگیا۔وہ غضب ناک شیرنی لگ رہی تھیں۔ماں جی!اس نے آپ کاکیانقصان کیاتھاکہ آپ نے اس کایہ حشرکردیا۔کچھ نہیں،خاموش رہومیرے اس سوال پرمجھے سینے سے چمٹاکربولیںیہ اگر میرے پھول کوکاٹ لیتاتب کیاکرتی؟کچھ لوگ بھی بہت معصوم لگتے ہیں لیکن ان میں زہربھراہوتاہے،ڈس لیتے ہیں پھربھی ناآسودہ رہتے ہیںہاں!یہ میں نے انہی سے پہلی دفعہ سنااورسیکھاتھا۔زندگی بھریہی ان کاعمل رہا،بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں،ہردم نبردآزما .سماج سے،وقت سے،حالات کے جبرسے۔
ہم سب کورات جلد سونے کاحکم تھالیکن خودکب سونے کیلئے جاتی تھیں،کسی کوعلم نہیں تھا۔یہ پتہ ہے کہ صبح چاربجے اٹھ کر گھرکے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں تھیں اورسب کوفجرکی نمازپڑھنے اورقرآن کریم کی تلاوت کااہتمام سختی سے کرواتی تھیں۔ صبح سویرے اٹھ کریوں محسوس ہوتاتھاکہ کوئی سارے گھرکی باقاعدگی کے ساتھ نگرانی کررہاہے۔اپنے پالتوکتے کوہرروز شاباش دیتی کہ ساری رات تم نے کس قدر ذمہ داری سے اپنی ڈیوٹی نبھائی۔اس سے یوں باتیں کرتیں جیسے وہ اسی ستائش کامنتظر ہے۔ایک فاصلے پرسرجھکائے کھڑا،کیا مجال کہ اپنی حدودسے تجاوزکرے۔ایک مرتبہ اس کوسمجھادیاکہ دہلیزکے اس پاررہنا ہے۔ بس ساری عمرگرمی ہویاسردی،کوئی بہانہ بنائے بغیر،خاموشی کے ساتھ اپنے فرائض بجالاتا رہا اوراپنی مالکہ کے احکام کی تعمیل کی!مجھے آج تک معلوم نہیں ہوسکاکہ سب کچھ میری ماں نے کہاں سے سیکھاہے جس نے آج تک کسی کتاب کوچھواتک نہیں، کسی مکتب کودیکھا تک نہیں یہ کیااسرارتھا؟
اب اس کی جتنی گہرائی میں جاتاہوں،عقل ودانش کے نئے نئے پرت کھلتے جاتے ہیں۔ان کے جملوں کی سادگی میں چھپی حکمت اورحلاوت آج پھرشدت سے محسوس کررہاہوں۔ وہی محبت میں گندھی ہوئی ماں،جب بھی لکھنے کیلئے الفاظ کم پڑتے ہیں،فورا اپنی کسی یادکے آنچل سے نمودارہوکراسی طرح میراہاتھ پکڑکرلکھناشروع کردیتی ہے جس طرح بچپن میں تختی پرلکھوانے کی مشق کرواتی تھیں۔ان کی اپنی ایک کابینہ تھی۔اڑوس پڑوس کی کئی عورتیں اپنے دکھوں کاغم ہلکاکرنے کیلئے موجودرہتی تھیں۔ایک دن میں نے ان کویہ کہتے سناچھوڑوبہن، دفع کرواسے،بے غیرت50 بھی ہوں توکیاکرنا،غیرت مندتوایک بھی بہت ہے،جواپنے گلے کی حفاظت نہ کرسکے وہ چرواہا کیسا۔ہم سب پچھلی سات دہائیوں سے غزہ پرخوفناک بمباری کے دلدوزمناظر دیکھ ہی رہے تھے لیکن گزشتہ برس 7اکتوبرسے اب تک دل دہلادینے والے قیامت خیزمناظرایک لمحے کیلئے بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہے لیکن عالم اسلام کے کسی حکمران کے کان پرجوں تک نہیں رینگ رہی۔صابرہ اورشتیلہ بھی مجھے یادہیں،مجھے بوسنیا بھی نہیں بھولا، بھارتی گجرات کااحمد آباداورکشمیربھی دل کی دھڑکنوں کوبندکرنے کیلئے کافی ہے،عراق اورافغانستان کاحشرتوساری دنیا کے سامنے ہے۔کیسی کیسی لہورنگ تصویریں ہیں اخبارات اورالیکٹرانک میڈیا کی زینت ..پھول اورکلیاں خوں میں نہائی ہوئی، معصومیت بیدردی سے قتل ہورہی ہے،کڑیل نوجوانوں کودرگورکرنے کاسلسلہ اب بھی جاری ہے،نسل کشی کرنے والے ہنس رہے ہیں،کھیل رہے ہیں انسانیت کے ساتھ۔مہلک ترین ہتھیاراستعما ل ہورہے ہیں،منوں بارود برساتے ہوئے انہوں نے کچھ نہیں دیکھا،آگ وخون کی ہولی کھیل میں مصروف رہے۔نیتن یاہوکتنے جوش اورتکبرسے کہہ رہاتھاکہ ابھی توشروعات ہیں ، آگے آگے دیکھتاجاؤ،ہم انہیں زمین سے اس طرح مٹادیں گے کہ تاریخ میں بھی ان کاذکرباقی نہیں رہے گالیکن 8ماہ گزرجانے کے باوجوداپنے یرغمالیوں تک نہیں پہنچ سکااور اب امریکااپنی ناجائزاولادکے تحفظ کیلئے اک نئے سفارتی جال کے ساتھ میدان میں اتراہے۔
جوبائیڈن نے اسرائیل،حماس جنگ بندی کانیامنصوبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ تنازع کوختم کرنے کابہترین طریقہ اورموقع ہے اور حماس کو اسے فوری قبول کرلیناچاہئے۔یہ مجوزہ منصوبہ تین مراحل پرمشتمل ہے جس میں پہلے چھ ہفتے مکمل جنگ بندی ہوگی اوراسی دوران اسرائیلی فوجوں کاانخلا ہوگااوریرغمالیوں اورسینکڑوں فلسطینی قیدیوں کاتبادلہ ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت فلسطینی شہری غزہ واپس جائیں گے اورغزہ میں روزانہ600امدادی ٹرک روزمرہ استعمال کی اشیاء لیکر آئیں گے۔دوسرے مرحلے مں حماس اوراسرائیل جنگ کے مستقل خاتمے کی شرائط طے کریں گے اورجب تک مذاکرات جاری رہیں گے،مکمل جنگ بندی رہے گی۔اورتیسرے مرحلے میں غزہ کی تعمیرنوہوگی۔حماس نے فی الحال ان تجاویزکومثبت قراردیاہے۔
اس سے قبل بھی غزہ میں امدادلانے کے بہانے فلسطینی مزاحمت پر فوری جنگ بندی قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے کیلئے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بعض عرب ممالک بالخصوص مصر اورقطرکے ساتھ گہرے اورفوری رابطے کیے گئے تھے۔سچ تویہ ہے کہ اس جنگ بندی کی فوری طورپراسرائیل کی طرف سے امریکاسے درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ اپنے فوجیوں اور گاڑیوں کواس دلدل سے نکال سکے جوآج غزہ کی گلیوں میں پھنسے ہیں۔سینکڑوں گاڑیوں اورجانوں کے بھاری نقصان کی بناپر سیکڑوں صیہونی فوجی غزہ کی گلیوں میں محصورہو گئے ہیں اورواپسی کے سارے راستے بھی مسدودہوگئے ہیں۔عبرانی چینلز نے کئی اسرائیلی افسران اورفوجیوں کی بڑی تعدادکے مارے جانے کی خبریں نشرکرناشروع کردی ہیں جبکہ آج بھی غزہ کی گلیوں سے آخری سانس تک”فتح یاشہادت”کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔مشہورصہیونی مصنف”اری شاوٹ”کاعبرانی اخبار”ہاریٹیز”میں”اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہاہے”کے عنوان سے مضمون شائع ہواہے جس نے ایک تہلکہ مچادیاہے لیکن نجانے مسلم ممالک کے اخبارات میں موت جیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے کہ کسی نے ابھی تک اس کاذکرتک نہیں کیا۔
”اری شاوٹ”اپنے مضمون میں لکھتاہے:ایسالگتاہے کہ ہم ان مشکل ترین لوگوں کاسامناکررہے ہیں جن کے بارے میں تاریخ کو معلوم نہیں ہے۔ان کے پاس اپنے حقوق کو حاصل کرنے اورقبضہ ختم کرنے کے سواکوئی حل نہیں ہے۔ایسالگتاہے کہ ہم واپسی کے نقطہ سے گزرچکے ہیں،اوراسرائیل کیلئے قبضہ ختم کرنا،آبادکاری کوروکنااورامن کاحصول ممکن نہیں۔ایسالگتاہے کہ صیہونیت کی اصلاح،جمہوریت اوراس ملک میں لوگوں کی تقسیم کوبچانااب ممکن نہیں رہا۔اگرحالات ایسے ہی رہے تواس ملک میں رہنے کاکوئی ذائقہ اور ”ہارٹز” میں لکھنے اورپڑھنے کا قطعاکوئی ذوق نہیں بچاہے،اورہمیں وہی کرناچاہیے جوروجیل الفرنے دوسال قبل تجویزکیاتھا کہ جس خواب کی تعبیرکیلئے اسرائیل میں قیام کیلئے آئے تھے،اسی عجلت میں واپسی کاسفرکرناہوگا۔
اگر”اسرائیلیت اوریہودیت” شناخت کاایک اہم عنصرنہیں ہیں،اوراگرہراسرائیلی شہری کے پاس غیرملکی پاسپورٹ ہے،نہ صرف تکنیکی لحاظ سے،بلکہ نفسیاتی لحاظ سے بھی،تو معاملہ ختم ہوجاتاہے۔آپ کودوستوں کوالوداع کہناہوگااورسان فرانسسکو،برلن یا پیرس جاناہوگا۔وہاں سے،نئی جرمن انتہاپسندقوم پرستی کی سرزمین،یانئی امریکی انتہاپسندقوم پرستی کی سرزمین سے،کسی کو سکون سے دیکھناچاہیے اور”ریاست اسرائیل”کواپنی آخری سانسیں لیتے دیکھناچاہیے۔ ہمیں تین قدم پیچھے ہٹ کریہودی جمہوری ریاست کوڈوبتے دیکھنا چاہیے۔ ہوسکتاہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک حل نہ ہواہو۔عین ممکن ہے کہ ہم ابھی تک پوائنٹ آف نوریٹرن سے نہیں گزرے ہوں۔یہ ممکن ہے کہ قبضے کاخاتمہ،آبادکاری روکنا، صیہونیت کی اصلاح،جمہوریت کوبچانااورملک کوتقسیم کرنااب بھی ممکن ہے۔
”اری شاوٹ”مزیدتحریرکرتے ہیں:میں نے نیتن یاہو،لائبرمین اورنونازیوں کی آنکھ میں انگلی ڈالی تاکہ انہیں صہیونی فریب سے بیدار کیا جاسکے۔ٹرمپ،کشنر،بائیڈن، اوباما اور ہلیری کلنٹن وہ نہیں جوقبضے کوختم کریں گے۔یہ اقوام متحدہ اوریورپی یونین نہیں ہے جوبستیوں کو روکے گی۔دنیاکی وہ واحد طاقت جواسرائیل کوخودسے بچانے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ خوداسرائیلی ہیں، جوایک نئی سیاسی حقیقت کوتسلیم کرے اوریہ کہ فلسطینیوں کی جڑیں ہزاروں سال سے اس سرزمین میں ہیں۔میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ زندہ رہنے کیلئے تیسراراستہ تلاش کریں اورنہ مریں۔
”اری شاوٹ”نے تصدیق کی ہے:جب سے وہ فلسطین آئے ہیں،اسرائیلیوںنے یہ سمجھ لیاہے کہ وہ صہیونی تحریک کی طرف سے پیداکردہ جھوٹ کا نتیجہ ہیں،جس کے دوران اس نے پوری تاریخ میں یہودیوں کے کردارمیں تمام دھوکے کااستعمال کیا۔ہٹلر نے جس چیزکوہولوکاسٹ کہاتھااس کااستحصال اورمبالغہ آرائی کرتے ہوئے،تحریک دنیاکویہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ فلسطین”وعدہ شدہ سرزمین”ہے اوریہ کہ مبینہ ہیکل مسجداقصی کے نیچے واقع ہے۔اس طرح،بھیڑیاایک بھیڑکے بچے میں تبدیل ہوگیاجسے امریکی اور یورپی ٹیکس دہندگان کے پیسے سے دودھ پلایاگیا،یہاں تک کہ وہ ایٹمی عفریت بن گیا۔
مصنف نے مغربی اوریہودی ماہرینِ آثارقدیمہ سے مددطلب کی،جن میں سے سب سے مشہورتل ابیب یونیورسٹی کے”اسرائیل فلنٹسٹائن” ہیں،جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ”ہیکل بھی ایک جھوٹ اورپریوں کی کہانی ہے جس کاکوئی وجودنہیں،اورتمام کھدائیوں نے یہ ثابت کردیاہے۔یہ ہزاروں سال پہلے مکمل طورپرغائب ہوگیاتھا،اوریہ واضح طور پریہودی حوالوں کی ایک بڑی تعدادمیں بیان کیاگیاتھا،اوربہت سے مغربی ماہرین آثارقدیمہ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ان میں سے آخری1968میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر کیٹلن کابینوس تھیں،جب وہ یروشلم کے برٹش سکول آف آرکیالوجی میں کھدائی کی ڈائریکٹرتھیں۔اس نے یروشلم میں کھدائی کی،اورمسجد اقصی کے نیچے ہیکل سلیمانی کے آثارکی موجودگی کو”اسرائیلی خرافات”کانام دیا جس کی وجہ سے اسے فلسطین سے نکال دیاگیا۔
جہاں میں نے فیصلہ کیاکہ ہیکل سلیمانی کاکوئی نشان نہیں ہے،اور اسرائیلی”سلیمان کے اصطبل کی عمارت” کاسلیمان یااصطبل سے کوئی تعلق نہیں ہے،بلکہ یہ ایک محل کاآرکیٹیکچرل ماڈل ہے جوعام طورپرفلسطین کے کئی خطوں میں تعمیر کیا گیا۔اس حقیقت کے باوجود کہ ”کیتھلین کینیون”فلسطین ایکسپلوریشن فنڈ ایسوسی ایشن کی طرف سے آئی تھی،کیونکہ اس نے”قریب مشرق”کی تاریخ کے بائبل کے بیانات کے حوالے سے برطانیہ میں19ویں صدی کے وسط میںزبردست سرگرمی دکھائی تھی۔
یہودی مصنف نے یہ کہتے ہوئے زوردیا:جھوٹ کی لعنت وہ ہے جو”اسرائیلیوں”کوپریشان کرتی ہے،اوریہ دن بہ دن ایک یروشلم، خلیلی اورنابلسی کے ہاتھ میں چھری کی شکل میں ان کے منہ پرتھپڑمارتاہے۔اسرائیلیوںکواحساس ہے کہ فلسطین میں ان کاکوئی مستقبل نہیں ہے، یہ ایسی سرزمین نہیں ہے جہاں لوگوں نے جھوٹ بولاتھا۔ بائیں بازوکے صہیونی مصنف”جیڈون لیوی”جوفلسطینی عوام کے وجود کونہیں بلکہ اسرائیلیوںپران کی برتری کوتسلیم کرتاہے،وہ کہتاہے کہ فلسطینیوں کی باقی دنیا سے فطرت مختلف ہے۔۔۔ہم نے ان کی زمینوں پر قبضہ کیااوران کے نوجوانوں کوقاتل،دہشتگرداوران کی عورتوں کوطوائف کہا۔ اورمنشیات کامکرہ دھندہ بھی کیاگیا،اورہم نے کہاکہ چندسال گزرجائیں گے،اوروہ اپنے وطن اوراپنی سرزمین کوبھول جائیں گے، اورپھران کی نوجوان نسل1987کی بغاوت کی شکل میں ہمارے مقابلے کیلئے آن موجودتھی۔
ہم نے انہیں جیلوں میں ڈالااورہم نے کہاکہ ہم انہیں جیلوں میں اٹھائیں گے۔۔برسوں بعد،جب ہم نے سوچا کہ انہوں نے سبق
سیکھ لیاہے،وہ2000میں مسلح بغاوت کے ساتھ واپس ہمارے مقابلے کیلئے آگئے۔اورہم نے کہا:ہم ان کے گھروں کوگرادیں گے اورکئی سالوں تک ان کامحاصرہ کریں گے،اوردیکھو،وہ محاصرے اورتباہی کے باوجودہم پر حملہ کرنے کیلئے ناممکن سے میزائل نکال لائے ہیں۔چنانچہ ہم نے ان کیلئے علیحدگی کی دیواراورخاردارتاروں سے منصوبہ بندی شروع کی،اوردیکھو،وہ زمین کے اندرسرنگوں کے ذریعے ہم پرحملہ آورہوکربڑی قتل وغارت کی،یہاں تک کہ آخری جنگ کے طورپرہم نے اپنے دماغ سے ان کامقابلہ کیا،اورپھرانہوں نے اسرائیلی سیٹلائٹ(آموس)پرقبضہ کر لیااوراسرائیل کے ہرگھرمیں دھمکیاں نشرکرکے دہشت پھیلا دی،جیسا کہ اس وقت ہواجب ان کے نوجوان اسرائیلی چینل2پرمکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ مصنف کے مطابق بین السطوریہ ہے کہ ایسالگتاہے کہ ہم تاریخ کے مشکل ترین لوگوں کاسامناکررہے ہیں،اوران کیلئے اپنے حقوق کوپہچاننے اور قبضے کوختم کرنے کے سواکوئی حل نہیں ہے۔
ادھردوسری طرف فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں نے نیو یارک کے بروکلین میوزیم پرقبضہ کرکے اس پرفلسطین کا پرچم لہرادیا۔مظاہرین کومیوزیم سے نکالنے کی کوشش کے دوران پولیس اورمظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں۔متعددافرادزخمی ہوئے جبکہ پولیس نے چندمظاہرین کوگرفتاربھی کرلیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بروکلین میوزیم کے باہرلگے ہوئے ایک مجسمے پر مظاہرین نے اسپرے بھی کردیا۔ہاں!قصرسفیداورمغربی آقاں کی لونڈی اقوام متحدہ نے توہلکی سی مذمت بھی کرنا چھوڑدی ہے۔دنیا بھرمیں ہونے والے مظاہروں کی بھی کسی کی پرواہ نہیں۔وہ کوئی اصول اورکوئی ضابطہ نہیں مانتے۔دنیابھرکے اصول وضابطے صرف امت مسلمہ کیلئے ہیں۔
ناروے،آئرلینڈاوراسپین نے رسمی طورپرفلسطین کوبطورریاست تسلیم کرلیاہے جس کے جواب میں اسرائیل نے بطوراحتجاج تینوں ملکوں سے اپنے سفیروں کوواپس بلالیاہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کی دیگرریاستیں بھی عنقریب اپنے تین یورپی ممالک کی تائیدمیں فلسطین کو تسلیم کرنے کااعلان کرنے والی ہیں جس کیلئے فی الحال مشاورت جاری ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ابھی تک اوآئی سی کے ممالک نے فلسطین کوباقاعدہ بطورریاست تسلیم نہیں کیا۔دنیابھرمیں ایک دونہیں پورے ستاون ممالک ہیں لیکن کتنے پرسکون ہیں،سو رہے ہیں
ان کے حکمران،ان کی افواج،ان کے گولہ بارود کے خزانوں کوزنگ لگ رہاہے، سب دادِ عیش دیتے ہوئے اوردنیابھرکی عیاشی کاساماں لئے ہوئے بے حسی کاشکاراورسفاکی کی تصویرہمارے مسلم حکمران۔
مجھے آج پھراپنی ماں یادآتی ہے،چٹی ان پڑھ،جوکہتی تھی کہ بے غیرت پچاس بھی ہوں توکیاکرنا،ہاں غیرت مندایک بھی بہت ہے مجھے آج پچاس میں سات کا اضافہ کرناہے لیکن وہ غیرت مندہے کہاں؟کیاایک بھی غیرت مندنہیں رہا.سب کے سب !!مجھے آپ سے کچھ نہیں کہنا۔
قارئین!مجھے توآپ نے پہلے ہی اپنی محبت کی سولی پرلٹکارکھاہے۔میں ان سے کیاکہوں،وہ بھی نہیں رہیں گے اورہم بھی،کوئی بھی تونہیں رہے گا،بس یہی سوچ کر ندامت سے خاموش ہوجاتاہوں کہ شائد یہی حق کے علم بردارہوں جو اپنے ہاتھوں میں اپنے معصوم بچوں کے لاشے بطورعلم اٹھائے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں،کوئی بھی توعلم سرنگوں کرنے کو تیارنہیں۔اب تولاکھوں علم راہ گزاروں میں عزاداراٹھائے نکل آئے ہیں،یہ منیرنیازی کیوں تڑپ اٹھے!
سن بستیوں کاحال جوحدسے گزرگئیں
ان امتوں کاذکرجورستوں میں مرگئیں
کریادان دنوں کوکہ آبادتھیں یہاں
گلیاں جوخاک وخون کی دہشت سے بھرگئیں
صرصرکی زدمیں آئے ہوئے بام ودرکودیکھ
کیسی ہوائیں کیسانگرسردکرگئیں
کیاباب تھے یہاں جوصداسے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جویہاں بے اثرگئیں
تنہا اجاڑبرجوں میں پھرتاہے تومنیر
وہ زرفشانیاں ترے رخ کی کدھرگئیں