... loading ...
ڈاکٹرجمشید نظر
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سمندر زمین کے لیے پچاس فیصد آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور 30 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں جس سے گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔سمندر ہماری معیشت کیلئے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ایک اندازے کے مطابق سن 2030تک 40ملین افراد کو سمندر سے متعلق مختلف کاروبارکے ذریعے روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہمارے سیارے” زمین” کے پھیپھڑے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے خوراک اور ادویات کے وسائل مہیا کرتے ہیں بلکہ حیاتیات کا ایک اہم حصہ بھی ہیں کیونکہ یہ زمین پراستعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے ہیں،اس قدر اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود صحت عامہ کے خطرات کے مسائل کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے ذہن میں سمندرکے بارے میںکبھی کچھ نہیں آتا تاہم یہ ایک حقیقت کہ سمندروں کی صحت کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ اس بات کی تصدیق سائنس دانوں اور ماہرین ارضیات کو تب ہوئی جب کورونا وائرس کی تشخیص اور علاج کی نئی راہیں متعین کرنے میں سمندروں نے اہم کردار ادا کیا۔ماہرین صحت نے ریسرچ کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں دریافت ہونے والی زندہ مخلوق”حیاتیات”کے ذریعے کوویڈ۔19 وائرس کا تیزی سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
سمندر انسان کو نت نئے تجربات اور انسانیت کی بھلائی کیلئے بہت سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں اسی لئے بہتر مستقبل کے لئے سمندروں کی حفاظت کرنابہت ضروری ہے انہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال 8جون کو سمندروںکا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔اس سال کا تھیم ہے ”نئی گہرائیوں کو بیدار کریں”سمندر کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں سمندروں اور ساحلوں کی صفائی میں متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کے علاوہ عام لوگ بھی حصہ لیتے ہیں۔پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کو بحیرہ ارب کے سمندر تک باآسانی رسائی حاصل ہے لیکن ہم اپنے ساحلوں کی صفائی کی بجائے وہاں تفریح کے نام پر گندگی کے ڈھیر لگادیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے،سمندرروں کے ساحل کروڑوں افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور روزگار ورہائش کا ٹھکانہ ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندرکو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہے جبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔پاکستان کا ساحل سمندر1050 کلو میٹرپرپھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی، شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی بحری آلودگی میں اضافہ کررہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پرمشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو سمندر سے حاصل ہونے والی تازہ آکسیجن،خوراک اورکاروبارختم ہوجائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔