وجود

... loading ...

وجود

سمندروں کا عالمی دن اور دلچسپ حقائق

هفته 08 جون 2024 سمندروں کا عالمی دن اور دلچسپ حقائق

ڈاکٹرجمشید نظر

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سمندر زمین کے لیے پچاس فیصد آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور 30 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں جس سے گلوبل وارمنگ کو کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے ۔سمندر ہماری معیشت کیلئے بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ایک اندازے کے مطابق سن 2030تک 40ملین افراد کو سمندر سے متعلق مختلف کاروبارکے ذریعے روزگار کے مواقع حاصل ہونگے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر ہمارے سیارے” زمین” کے پھیپھڑے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے خوراک اور ادویات کے وسائل مہیا کرتے ہیں بلکہ حیاتیات کا ایک اہم حصہ بھی ہیں کیونکہ یہ زمین پراستعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے ہیں،اس قدر اہمیت کے حامل ہونے کے باوجود صحت عامہ کے خطرات کے مسائل کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے ذہن میں سمندرکے بارے میںکبھی کچھ نہیں آتا تاہم یہ ایک حقیقت کہ سمندروں کی صحت کا انسانی صحت سے گہرا تعلق ہے۔ اس بات کی تصدیق سائنس دانوں اور ماہرین ارضیات کو تب ہوئی جب کورونا وائرس کی تشخیص اور علاج کی نئی راہیں متعین کرنے میں سمندروں نے اہم کردار ادا کیا۔ماہرین صحت نے ریسرچ کے بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں دریافت ہونے والی زندہ مخلوق”حیاتیات”کے ذریعے کوویڈ۔19 وائرس کا تیزی سے پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
سمندر انسان کو نت نئے تجربات اور انسانیت کی بھلائی کیلئے بہت سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتے ہیں اسی لئے بہتر مستقبل کے لئے سمندروں کی حفاظت کرنابہت ضروری ہے انہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال 8جون کو سمندروںکا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔اس سال کا تھیم ہے ”نئی گہرائیوں کو بیدار کریں”سمندر کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں سمندروں اور ساحلوں کی صفائی میں متعلقہ محکموں کے اہلکاروں کے علاوہ عام لوگ بھی حصہ لیتے ہیں۔پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کو بحیرہ ارب کے سمندر تک باآسانی رسائی حاصل ہے لیکن ہم اپنے ساحلوں کی صفائی کی بجائے وہاں تفریح کے نام پر گندگی کے ڈھیر لگادیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے،سمندرروں کے ساحل کروڑوں افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور روزگار ورہائش کا ٹھکانہ ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندرکو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہے جبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔پاکستان کا ساحل سمندر1050 کلو میٹرپرپھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی، شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی بحری آلودگی میں اضافہ کررہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پرمشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے اگر اس جانب توجہ نہ دی گئی تو سمندر سے حاصل ہونے والی تازہ آکسیجن،خوراک اورکاروبارختم ہوجائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مقبوضہ وادی میں دھونس اور دباؤ کی پالیسی وجود هفته 07 ستمبر 2024
مقبوضہ وادی میں دھونس اور دباؤ کی پالیسی

کسان خوشحال پاکستان خوشحال وجود هفته 07 ستمبر 2024
کسان خوشحال پاکستان خوشحال

چلو تم ہی بتادو! وجود هفته 07 ستمبر 2024
چلو تم ہی بتادو!

بھارت عصمت دری کے دلدل میں وجود هفته 07 ستمبر 2024
بھارت عصمت دری کے دلدل میں

پاک فوج کا تاریخی معرکہ وجود جمعه 06 ستمبر 2024
پاک فوج کا تاریخی معرکہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر