وجود

... loading ...

وجود

توآؤمرجائیں!

هفته 08 جون 2024 توآؤمرجائیں!

سمیع اللہ ملک
آئے روزمسلمانوں کے خون کی بڑھتی ہوئی ارزانی سے دل ڈوب جاتاہے،ایسے لگتاہے جیسے میں مرگیاہوں،بس میراجسم لوگوں کے ہجوم میں ایک تنکے کی طرح معلوم ہوتاہے۔ کبھی کبھی ایسے لگتاہے کہ یہ جوسارالہو بہہ رہاہے،یہ مسلمانوں کانہیں بلکہ یہ لہوہی نہیں،لہوکیایہ کچھ بھی نہیں۔مجھے لگتاہے یہ خواب ہے،یہ دنیابھی کچھ نہیں۔اگراس دنیاپہ کسی کوجینے کاحق ہے توبس ظالم کوہے۔مولوی اورزاہدانِ دین بھی مجھے موردالزام ٹھہراتے ہیں کہ یہ سب تیری وجہ سے ہے لیکن افسوس وہ یہ کیوں نہیں جانتے کہ میں تومراہواہوں،میں توایک لاش کی مانند اس دھرتی پہ پڑاہوں،کوئی مجھے اس دھرتی میں دفن کردے تومیں احسان مندرہوں گا۔میری روح بس ہوامیں اڑتی رہتی ہے اوراسی کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے۔
میں ایک لکھاری ہوں،بکاہوایامراہوایاجومرضی سمجھیں،آپ کوحق حاصل ہے۔لوگو!میں بھی خوش رہناچاہتاہوں،میں اپنے حکم رانوں اورسیاستدانوں کی طرح بے حس رہناچاہتا ہوں۔کتنی سکون والی زندگی ہوگی حکمرانی والی زندگی،جس میں اپنے سوا، اپنے خاندان کے سوا کچھ دکھائی اورسنائی نہیں دیتامگرمیں تنگ ہوں،آپ کی وجہ سے نہیں،مجھے اپنی روح سے پریشانی ہے،کاش کہ میری روح کوکوئی قتل کر دے۔
آپ کومعلوم ہوگاکہ انسان کبھی کبھی مرنے سے پہلے مرجاتاہے،اسی طرح جب ایک فردمرتاہے تواسی کی وجہ سے پوراسماج مرنے لگتا ہے اوریوں ایک بے حس معاشرہ بن جاتاہے اورکبھی کبھی میں خودکومضبوط کرلیتاہوں اورایک سنگدل ساانسان بن جاتاہوں۔تب مجھے لگتا ہے،میں زندہ ہوں لیکن پھرمیرے زندہ ہونے سے مجھے لگتاہے،معاشرہ مراہواہے، یعنی میرادل نرم ہو جائے یاپتھربن جائے دونوں صورتوں میں معاشرے کونقصان پہنچتاہے۔آپ ہی دیکھ لیں،ہم بطورمسلمان کیامسلمان ہیں؟کتنی حقیر سوچ ہے میری کہ میں آج کے مسلمان کے ایمان کوشک وشبہ کی نظرسے دیکھتاہوں،اس وجہ سے بھی معاشرے کویعنی مسلم معاشرہ کوتکلیف ہوگی۔
ہم نے ٹوپی،تسبیح کے منکوں،مسجدکے میناروں،عیدکی مٹھائی،قربانی کے گوشت،لمبے لمبے جبوں میں اسلام کوچھپانے کی کوشش کی ہے اور مزیددفنانے کی کوشش میں ہم سب عالم، استاد،ڈاکٹرز،مفتی،امام، سکالرزسب غیروں کی مددکررہے ہیں،اتناکچھ ہورہاہے مسلمان کی عزت کی ہرروزطرح طرح سے تذلیل جاری ہے اورمسلمان کی غیرت کوسلایااور سہلایاجارہاہے،آج ہے ہمت کسی کے پاس کہ جہادکانام لے کردکھائے؟اسے دہشتگردیااورانتہاپسندکہہ کرماردیاجائے گایعنی ہمارادشمن کامیاب ہوگیا،وہ جہادکودہشتگردی کہلوانے میں کامیاب ہوچکا۔مسلمان کوامن کاسبق دے کرمحبت کے جال میں پھنساکران گنت نعشیں گرائی جارہی ہیں۔
کون ہے دہشت گرد؟کیایہ جوڈراموں اورچینلزپہ داڑھی والوں کودہشت گردکہاجاتاہے،وہ ہیں دہشت گرد؟اوئے مت ماری گئی اے تیری!رب کی قسم!تیری سوچ ہی یہی بنائی جارہی ہے کہ یہ داڑھیوں والے ہی دہشت گردہیں۔ذرااپنے کلین شیو،کالاکولالگائے ہوئے حکم رانوں میں بھی دیکھ اگروقت ملے تواپنے لکھاریوں میں بھی دیکھ،اگروقت ملے توصحافیوں اور ڈاکٹرزمیں بھی دیکھ۔
دہشت گردی….غزہ فلسطین میں،بغدادعراق میں روہنگیابرمامیں کی جائے تووہ کیاہے؟غوطہ شام میں یامقبوضہ کشمیرمیں مسلمان حواکی بیٹی لوٹی جائے،بوسنیامسلمان کے بچوں کومشینوں میں کاٹ کرچارہ بنادیاجائے توکیاہے؟اوراگریورپ میں ایک پٹاخہ بھی پھٹ جائے تومورد الزام مجھے ٹھہرایا جاتاہے کیوں؟ہمارے خون کی کوئی قدرومنزلت نہیں؟ان کی سڑکوں ،کتوں بلیوں کی ،ہمارے جسموں سے بھی زیادہ قدرہے۔مسلمان کہاں ہیں؟کیامسلمان ایسے ہوتے ہیں،جیسے میں اورہم ہیں؟مسئلہ کہاں ہے،مسئلہ ختم کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہمارے تمام اسلامی ممالک کی افواج اسلام کی کارکردگی اور ایمان پررب العزت کی قسم ایک سوالیہ نشان ہے؟مجھے تولگتاہے،میں لاش ہوں،کھاتی پیتی،چلتی پھرتی لاش کیونکہ زندگی تووہ ہے جس میں زندہ رہاجائے اورزندہ ہونے کاثبوت دیاجائے۔شائدمجھے اس لیے لگتاہے کہ میں ایک بے حس لاش ہوں جس کے ساتھ جومرضی چاہے رویہ رکھے ۔سوال ایک آپ سے بھی ہے کہ کیامیں تنہالاش ہوں یاآپ پربھی یہی گزررہی ہے مجھے توخوف آتاہے ایسی زندگی سے۔
اگرآپ پریہی گزررہی ہے توآؤمرجائیں۔ روہنگیا،غزہ،غوطہ،یمن،مقبوضہ کشمیرکے مظلوم ومقہوراورمعصوم بچوں،بہنوں اوربھائیوں کوبچانے کیلئے وگرنہ ان کی چیخوں،فریادوں کی دہلادینے والی آوازآسمانوں تک پہنچ چکی ہے،جس کے جواب میں ہی یہ ان دیکھاجرثومہ کروناکی شکل میں ہمارے تعاقب میں آیاتھا۔وقتی طورپرسب ہی دبل کربیٹھ گئے، خوف کی ایسی لہرچلی کہ نیویارک، ،پیرس،لندن کی مصروف ترین سڑکیں ویران ہوگئیں،مساجداوردیگرتمام عبادت گاہیں اپنے ہاتھوں بندکرنی پڑگئیں،حرمین شریفین میں داخلہ ممنوع ہوگیا،سالانہ حج پرپابندی لگ گئی کیونکہ سامنے موت نظرآرہی تھی۔خوب گڑگڑاکردعائیں کیں لیکن جونہی اس وباپرقابوپایاتوہمارے لچھن پہلے سے زیادہ نافرمانی کی طرف مائل ہوگئے۔غزہ میں جاری قیامت خیزمناظرابھی تک بند نہیں ہوئے لیکن ہمارے مقتدراشرافیہ نے سارے ملک میں چھٹی کرکے آگاہ کیاکہ ہم آج ہی کے دن ایٹمی قوت کے حامل بن گئے تھے لیکن کیاکروں جب قرآن کے اس پیغام کی طرف نگاہ دوڑاتاہوں توبدن میں جھرجھری پیداہوجاتی ہے کہ مرے رب کاتوفرمان ہے:
آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔لیکن ہم توزمینی حقائق سے نظریں چرانے میں عافیت سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ غیبی امدادنہ اسپین پہنچی،نہ خلافت عثمانیہ کوبچانے کیلئے آئی،نہ اسرائیل کاقیام روکنے کیلئے آئی اورنہ ہی اب ہماری آنکھوں کے سامنے غزہ کے پرخچے اڑتے ہوئی آئی،نہ بابری مسجدکے وقت آئی،نہ عراق اورشام کے وقت آئی، نہ روہنگیامیں اللہ کے نام لینے والے بے بس مسلمانوں کے ذبح ہوتے وقت آئی،نہ گجرات کے وقت آئی،نہ مقبوضہ کشمیر کیلئے آئی لیکن عجب وقت ہے کہ پھربھی گھروں اور مسجدوں میں بیٹھ کرغیبی مددکی صدائیں دی جارہی ہیں ؟کوئی انہیں سمجھائے کہ غیبی مددجنگ بدرمیں آئی جب1000کے مقابلے میں313میدانِ جنگ میں اترے۔غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ کے محبوب ۖنے پیٹ پر2پتھر باندھے اورخودخندق کھودی اورمیدانِ جنگ میں اترے۔غیبی مددافغانستان میں آئی جب بھوکے پیاسے مسلمان بے سروسامانی کے عالم میں میدانِ جنگ میں اترے۔
دنیاکاقیمتی لباس پہن کر،مال وزرجمع کرکے،لگژری ایئرکنڈیشنڈگاڑیوں میں بیٹھ کر(انہی کافروں کی بنائی ہوئی مصنوعات زیر استعمال لاکر)جھک جھک کرلوگوں کے ہاتھ چومنے کی خواہش لے کر،لوگوں کی واہ واہ کی ہنکارکی خواہشات لئے مسجدوں کے منبروں پر بیٹھ کربددعائیں کرکے غیبی مددکے منتظرہیں؟ طاغوت کے نظام پرراضی اورپھرغیبی مددکے منتظر ؟؟؟؟؟
اللہ کی زمین پراللہ اوراس کے محبوب ۖکے نظام کے نفاذکی جدوجہدکی بجائے صرف نعت خوانی,محفلِ میلادیاتسبیح کے دانوں کودس لاکھ بیس لاکھ گھماکرغیبی مددکے منتظرہیں؟ آفاقی دین کوچندجزئیاتِ عبادت میں محصورومقیدکرکے غیبی مددکے منتظر ہیں؟خودکواوردوسرے مسلمانوں کومجاہدبنانے کی بجائے مجاوربناکر،خوب پیٹ بھرکرفربہ جسم لئے غیبی مدد کے منتظرہیں؟جہادفی سبیل اللہ اورجذبہ شہادت سے دوررہ کراوردوررکھ کرمسلمانوں پرہونے والے ظلم وجبراورمصائب ومشکلات دیکھ کراللہ دشمن کوغرق کردے۔ اللہ دشمن کوتباہ و برباد کر دے۔ یااللہ مظلوموں کی مددفرما۔یااللہ دشمنوں کوہدایت عطافرمادے اوراگران کے نصیب میں ہدایت نہیں توانہیں غرق کردے جیسی بددعاں پراکتفاکرکے سکوت اختیار کرلینے اورسکون سے نوالہ ترحلق سے نیچے اتارکرپھردوبارہ پیٹ بھرکرگہری نیند سونے والے غیبی مدد کے منتظرہیں؟یعنی سب کچھ اللہ کے ذمہ لگاکراورخودکنارہ کشی اختیارکرکے غیبی مددکے منتظرہیں؟
میدان جہادمیں اترنے سے ڈرتے اورکتراتے ہوئے آسمانوں سے فرشتوں کے نازل ہوکرمسلمانوں کی غیبی مددکے منتظرہیں؟ایسی صورت میں غیبی مددنہیں صرف عذاب ہی آئے گاجوہم ناعاقبت اندیش حکمران،بداندیش افسران،ذخیرہ اندوزی،ناجائزمنافع خوری، جھوٹ،کم تولنا،ملاوٹ،خودغرضی ودیگرمعاشی ومعاشرتی برائیوں کی شکل میں بھگت بھی رہے ہیں!خواب غفلت سے بیدار ہوں، علم، کردار، جہد مسلسل سے اپنے مہربان رب سے رجوع کریں اورمددطلب کریں۔میری آپ سے گزارش ہے کہ میری یہ فریاد بغور پڑھیں تاکہ آپ بھی میری اس فریادمیں شامل ہوسکیں۔میرے مضطرب دل کیلئے دعابھی فرمائیں کہ میرارب روزقیامت مجھے رسول اکرم ۖ کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لے! آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ اور جنون وجود اتوار 29 دسمبر 2024
جذبہ اور جنون

مودی کی متعصبانہ پالیسیاں وجود اتوار 29 دسمبر 2024
مودی کی متعصبانہ پالیسیاں

کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟ وجود اتوار 29 دسمبر 2024
کیا تباہی سے بچنے کے راستے بندہیں؟

دنیا میں اچھا پیغام جائے گا! وجود هفته 28 دسمبر 2024
دنیا میں اچھا پیغام جائے گا!

قائد اعظم کو مقبوضہ وادی میں شاندار خراج عقیدت وجود هفته 28 دسمبر 2024
قائد اعظم کو مقبوضہ وادی میں شاندار خراج عقیدت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر