وجود

... loading ...

وجود

اضداد و تضادات

جمعه 07 جون 2024 اضداد و تضادات

زریں اختر

ابتدائی جماعتوں میں ابتدائی نوعیت کے اضداد پڑھائے جاتے ہیں ، سفید کا سیاہ، گورا کا کالا، دن کا رات ،صبح کاشام ، اچھا کا برا، صحیح کا غلط ، سچ کا جھوٹ( ہم نے مثبت ابتدا میں لکھے ہیں کیوں کہ یہ معصومیت کا دور ہے)،یہ تضادا ت کا ابتدائی تعارف۔ آگے چل کر جن اضداد سے واسطہ پڑتا ہے وہ بڑے جاں گسل ہوتے ہیںمثلاََ سفید فام کا سیاہ فام ، خوب صورت کا بد صورت، سست کا چست، صحت مند کا بیمار، ذہین کا بیوقوف ،بھولا کا چالاک اور امیر کا غریب۔ یہ دنیا فطری و سماجی تضادات سے اٹی پڑی ہے۔
عبداللہ کالج کے میگزین میںانگریزی کی استاداور معروف شاعرہ میڈم شاہدہ حسن نے اپنے ایک اداریے میں لکھاتھا جو یادرہا ، مفہوم یہ تھا کہ” متوسط طبقے کی بچیاں گھروں سے اخلاقیات کاجو درس بچپن سے سن کر باہر نکلتی ہیں، وہ اخلاقیات انہیں سماج میں کہیں نظر نہیںآتیں”۔
مشہور کالم نگار حسن نثار سماجی اخلاقی زوال پر بہت واویلا مچاتے ہیں۔ لوگ ذاتی اور سماجی زندگی اور ذاتی و سماجی اخلاقیات کا فرق سمجھے بغیر ان کی ذاتی زندگی کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں، ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے۔لیکن حال ہی میں ملک ریاض لیکس میں ان کا بھی نام ہے ، ان چند نا موں میں ایک جس کے ہونے سے ہمیں افسوس ہوا ، ان کی طرف سے وضاحت پیش کی گئی ہے اور اس بات کے ساتھ جیسی والٹیئر نے روسو کے لیے کہی تھی کہ میرا اس سے نظریاتی اختلاف اپنی جگہ پر لیکن میں اس امر کی حمایت بالکل نہیں کروں گا کہ روسو کو خاموش کرایا جائے۔حسن نثار صاحب نے کہا کہ’ میں نے کبھی ملک ریاض پر لکھا ؟ کسی نے پڑھا ہے تو بتائے’۔ ہمارے ذہن میں سوال کہ کیا خاموشی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی؟
تضاد ۔۔۔تضاد کا فلسفہ یہ کہ اشیاء و اخلاقی معیارات، پہچانے ہی اپنے متضاد سے جاتے ہیں۔ مذہبی نکتۂ نظر یزداں و ابلیس اورخیرو شر کے ازلی و ابدی سلسلے سے جڑا ہے ، یہ محاذ تو رہنا ہے ، اوراصل محاذیہ کہ کون کس طرف ہے؟تضاد خیر وشر او رحق و باطل کا ہی ہے۔جن کو منظر واضح نظر نہیں آتا، یا دیکھنا نہیں چاہتے ،یا دیکھ نہیں سکتے ؛ان کے لیے اپنے اپنے کھودے ہوئے سرمئی راستے ہیں۔
ایک استادنے کلاس میں سوال کیا کہ ‘سچ اور حقیقت میں کیا فرق ہے؟’ پھر اس تصور کی وضاحت مثال سے پیش کی کہ ‘سچ یہ ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سارے لوگ جھوٹ بولتے ہیں’۔گویا یہ معاملہ آفاقی تصورات کا ہے ، انہیں کیسے سمجھا جائے اور ان تک کیسے پہنچا جائے؟ ان تصورات کو سمجھنے کے سفر میں زندگی گزاری جاسکتی ہے جو رائیگاں نہیں ہوگی۔
تضاد کی ایک ادنیٰ سی مثال ، یہ اس وقت کی بات ہے جب شعبہ میںپڑھانا شروع ہی کیاتھاتوجو طالب علم عملی صحافت سے وابستہ تھے وہ کہتے کہ عملی صحافت میں ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں پڑھایا جاتاہے ۔ جب تک نئے تھے ان باتوں پر کچھ زیادہ کہہ نہیں پاتے اور تھوڑے پریشان بھی ہوتے کیوں کہ ہمیں یہ لگتا تھا کہ جامعہ کی سطح پر استاد ہونا ایک بڑے اعزاز کی بات ہے تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ فرق کیا ہیں ۔ عملی صحافت سے کچھ عرصے وابستگی رہی تھی لیکن ہم نے اپنے ہر تجربے کو ناکافی و کم تر جانا۔ پھریہ سمجھ میں آنے لگا کہ نظری و علمی نکتہ نظر اور عملی صحافت میں خبر دینا مخصوص ملکی سیاسی صورتِ حال میں تو ایک فرق تو یہ ہے ، دوسرا سنجیدہ صحافت اور مقبول ِ عام صحافت کے مزاجوں کا فرق کہ ان کے اپنے اپنے حلقہ ٔ قارئین ہیں ، تیسرا مقبول ِ عام صحافت کو سنسنی خیزی کا چسکا ،چوتھا لفافہ جرنلزم اور اسی طرح ۔۔ ۔ ہم نے ایک طرف کلاس میں ان افتراقات کو موضوع بنالیاتو دوسری طرف عملی صحافت سے وابستہ طالب علموں کو موقع دیا کہ وہ بتائیں کہ کیا فرق ہے ، اب ان کے تجربے سے کلاس کے ساتھ ساتھ ہم بھی فیض یاب ہونے لگے۔ اس طرح طالب علموں کی نظری اور عملی صحافت میں فرق کی شکایات پرتجزیاتی طریقے سے سمجھنے سمجھانے کے سلسلے کا آغاز ہوگیا۔
تضادات کا یہ سلسلہ اتنا ہی دراز ہے جتنا کہ کار ِجہاں ۔اضداد کی کتنی صورتیں ہیں جن سے ہمیں روز واسطہ پڑتاہے ۔ یہاں خود تنقیدی اور خود احتسابی کا چلن پروان نہیں چڑھ سکا۔ ریڈیو پاکستا ن سے ایک ڈرامہ نشر ہوتا تھا ”حامد میاں کے ہاں” ، ایک ڈرامے کے مکالمے یاد رہ گئے ،جس میں عرش منیر کہتی ہیں جانے انہیں آج کیا ہوا ہے ، صبح سے آئینہ دیکھ دیکھ کر غصہ کررہے ہیں ۔ حامد میا ںکی آواز آتی ہے ‘یہ آئینہ ۔۔۔کیا فائدہ ایسے آئینے کا جو ظاہر ہی دکھاتا ہے باطن نہیں’۔ گمان اغلب ہے کہ یہ کسی خاص قسم کے غیر سیاسی دور کاعلامتی پیرایہ ہے۔جس طرح خود تنقیدی و خود احتسابی کا دور لدا اس طرح آئینہ دیکھنے دکھانے کا دور بھی لد گیا، آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے۔
تضادکی ایک غالب معاشرتی مثال ۔۔۔ایک طرف مساجد، نمازیں ، روزے ، حج عمرے ، قربانیاں، چندے ، خیراتیں ۔۔۔تو دوسری طرف بد عنوانیاں ، جعل سازیاں ، اخلاق باختیاں اور بدلے میں ڈگریاں ، عہدے اور ترقیاں۔
علم نفسیات کا ”علم اور عمل میں عدم مطابقت’ ‘ کا نظریہ ، اس نظریے کا شمار بھی ان نظریات میں کیا جاسکتاہے جو زمان و مکاں پر حاوی ہوتے ہیں ۔امام حمید الدین فراہی کے مطابق حکمت نام ہے امر کا کہ عمل علم کے مطابق ہو ۔ علم نفسیات کی رو سے علم اور عمل میں عدم مطابقت ذہنی خلفشار و انتشار کا باعث بنتی ہے ۔لیکن علم نفسیات کا یہ نظریہ عملی لحاظ سے فرسودہ ہوگیا، ہم نے اسے مات دے دی کہ یہ عدم مطابقتیں زود ہضم ہوگئی ہیں ۔ نہ کوئی کھٹی ڈکار نہ پیٹ میں مروڑ،نہ سیون اپ کی ضرورت نہ گیسٹو فل کی ۔ اس کی وجہ سماجی نظام ہاضمہ ہے جو لکڑ ہضم و پتھر ہضم قسم کا ہو گیا ہے یا یوں کہ سرے سے کوئی عدم مطابقت نہیں ،تو جب عدم مطابقت نہیں تو چھُپانے کے حربے کیوں؟ انڈین سیریل سی آئی ڈی میں اے سی پی کا مکالمہ یاد آتا ہے ‘کچھ تو گڑ بڑ ہے دَیا، کچھ تو گڑ بڑ ہے’۔
تضاد کی ایک فکری مثال ۔۔۔ایک طرف جدید تعلیم غیر زبان میں تو دوسری طرف مذہبی تعلیم بھی غیر زبان میں ۔ نہ جدید تعلیم مادری زبان میں نہ مذہبی تعلیم اپنی زبان میں۔ اگر یہ دونوں کام طریقے سے ہوجاتے تو علمی و اخلاقی زوال کی صورت پیدا نہیں ہوتی ۔ یہاں نسلیں گزر گئیں جدید تعلیم و مذہبی تعلیم غیر زبان میں حاصل کرتے ۔ کسی زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ،اسی لیے پہلے بچوں کو زبانیںہی پڑھائی جاتی تھیں،نہ ہم نے دوسری زبان سیکھی نہ اپنی زبان میں پڑھا۔ ہم نے اپنی مذہبی کتاب اپنی زبان میں نہیں پڑھی کہ ہماری اخلاقی تربیت میں یہ کتاب کوئی کردار ادا کرتی اور نہ جدید علوم اپنی مادری زبان میں پڑھے کہ تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھتیں۔ ہم ناواقف کے ناواقف اور غافل کے غافل رہے اورروحانی برکتیں و رحمتیں سمیٹنے میں لگے رہے۔
مدرسے کا مدرس ہو کہ جامعہ کا محقق۔۔۔کہاں تک سنو گے ، کہا ںتک سنائوں ،ہزاروں ہی شکوے ہیں کیاکیا بتائوں۔
ایک فطری حسین تضاد کہ تضاد کی یہ صورت بھی تو ہوسکتی ہے کہ نارنجی ،گلابی ،پیلے ، کاسنی اور کتنے ہی رنگ برنگے خوش رنگ پھول سخت گرمی اورچلچلاتی دھوپ میں بہار دکھا رہے ہوتے ہیں، ان تضادات نے کتنے ہی اعلیٰ اقوال دیے ہیں کہ درخت خود دھوپ میں جلتا ہے اور راہی کو چھائوںاور ٹھنڈک پہنچاتا ہے ۔
ضد تو برائی کے بدلے نیکی بھی ہوسکتی ہے ، سختی کے بدلے نرمی ، بدلے کابدلہ معافی ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سپریم کورٹ نے بلڈوزر کومسمار کردیا! وجود منگل 24 ستمبر 2024
سپریم کورٹ نے بلڈوزر کومسمار کردیا!

بلاول کا مستقبل وجود منگل 24 ستمبر 2024
بلاول کا مستقبل

سی پیک منصوبہ بھارت کے لیے خطرہ وجود منگل 24 ستمبر 2024
سی پیک منصوبہ بھارت کے لیے خطرہ

کامیابی کاراز:عاجزی یاتکبر وجود پیر 23 ستمبر 2024
کامیابی کاراز:عاجزی یاتکبر

21ستمبر ، ایک نئے پاکستان کی تعمیر ،امید سحر کی بات سنو وجود پیر 23 ستمبر 2024
21ستمبر ، ایک نئے پاکستان کی تعمیر ،امید سحر کی بات سنو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر