... loading ...
حمیداللہ بھٹی
فلسطینی آبادی کے خلاف نسل کشی پر مبنی کاروائیاں سامنے آنے پر رائے عامہ بڑی حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔دنیا کے ہر ملک میں مظاہرے جاری ہیںجنوبی افریقہ کی غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے دائر درخواست پرعالمی عدالتِ انصاف نے بھی اسرائیل کورفح میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم دیا ہے جسے ابھی تک جارح اسرائیل تسلیم نہیں رہا قبل ازیں غزہ میں شدت اختیار کرتے انسانی بحران کو حل کرنے کے لیے رواں برس 28مارچ کو بھی عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو خوراک کی بلا تعطل فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے کا حکم دیاتھا جسے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماننے سے صاف انکار کر دیا گیا اِن حالات میں عالمی امن کے زمہ دارسلامتی کونسل جیسے اِداروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے آئیں اور اسرائیل پر دبائو ڈال کراُسے مزید حملوں سے روکیں مگر پریشان کُن اور تشویشناک بات یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے تحفظ کامعاملہ ہوتو ذمہ داریاںاداکرنے میں تساہل سے کام لیاجاتاہے۔ اسی لیے دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں نسل کشی ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ برس سات اکتوبر سے اسرائیل غزہ پر حملہ آور ہے اور تین ایٹم بموں کے مساوی ہونے والی تباہی کے برابر گولہ و بارود استعمال کرچکا جس سے چالیس ہزار سے زائد بچے ،بوڑھے ،جوان اور خواتین کوبے رحمی سے موت کے گھاٹ اُتاردیا گیا مگر انسانی حقوق کی دعویدار تنظیمیں اور اقوامِ متحدہ جیسا عالمی اِدارہ،منصفانہ کردار ادا کرنے اور مظلوم و معصوم فلسطینیوں کو تحفظ دینے میںکوئی کردارادا نہیں کر سکا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا سیاسی منظرنامہ اپنے مفاد سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے امریکہ سمیت اکثر مغربی ممالک کا وزن اسرائیل کے پلڑے میں رہا ہے تاکہ تیل کی دولت سے مالا مال معاشی حوالے سے خوشحال یہ خطہ آزاد خارجہ پالیسی کی طرف نہ جا سکے جس کی وجہ سے اسرائیل کو نہ صرف جارحانہ کاروائیوں کی شہ مل رہی ہے بلکہ ایک اوربدترین انسانی المیہ جنم لینے لگا ہے ۔
ایسے حالات میں جب حکومتیں شخصی آزادیاں کم کرنے اور اپنی گرفت مضبوط اور سخت کرنے کے لیے کوشاں ہیں عالمی امن کے قیام میں اقوامِ متحدہ کا کرداراورانسانی حقوق کی تنظیموں کاکردار محدودترہوتا جارہا ہے جہاں بھی مسلمان فریق ہوں تو یہ اِدارہ جارح قوت کو روکنے کی کوشش ہی نہیں کرتا یاپھر اتنی تاخیر کر دی جاتی ہے کہ امن اقدامات ہی بے معنی ہو جاتے ہیں اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ عملی اقدامات کی بجائے خانہ پُری کی حد تک محض قراردادیں منظور کرنے کی حد تک رہاجاتا ہے گیارہ جولائی 1995 کا وہ کرب ناک دن کوئی ذی شعور اور امن پسند بھول سکتاہے؟جب سرب افواج نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام محفوظ قرار دیے گئے علاقے میں ایسے حالات میں دس ہزار مسلمان مردوں کو گھروں سے نکال کرنہ صرف قتل کردیابلکہ اجتماعی قبروں میں دفن کردیاعلاوہ ازیں عالمی امن افواج کی موجودگی میں سرب فوجی خواتین کی آبروریزی کرنے کے بعد گولیوں سے چھلنی کرتے رہے لیکن اقوامِ متحدہ یا سلامتی کونسل جیسے اِدارے کچھ نہ کر سکے نہ ہی موقع پر موجود اقوامِ متحدہ کی فوج ظلم کو روک سکی البتہ تین دہائیاں گزرنے کے بعد یہ کیا ہے کہ گیارہ جولائی کو بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا عالمی دن قراردینے کی قراردادمنظورکرلی گئی ہے یہ فیصلہ خود اقوامِ متحدہ کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بوسنیاکی طرح فلسطینیوں کوبھی حالات اور جارح کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے لیکن فلسطین بارے رائے عامہ تبدیل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کئی حکمران اپنے ممالک میں غیر مقبول ہو چکے ہیں ۔
مقبوضہ کشمیر ،فلسطین،میانمارسمیت دنیا کے کئی ممالک میں منظم طریقے سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے جس میں براہ راست حکومتیں ملوث ہیں کشمیر میں بھارتی جبکہ غزہ میں اسرائیلی افواج مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہیں جس کی زرائع ابلاغ نشان دہی کررہے ہیں لیکن عالمی اِدارے ہوں یا انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ، اپنی قراردادوں پر عمل کرانے میں بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں جارح افواج انسانی خون بہانے میں اِس قدر آزاد ہیں کہ عالمی عدالتِ انصاف دوبار غزہ بارے فیصلہ دے چکی لیکن کسی ایک فیصلہ پر بھی اسرائیل عمل نہیں کررہا پھربھی عالمی اِدارے پس و پیش کا شکارہیں جسے بے بسی ،لاپرواہی اور تعصب کا عکاس کہہ سکتے ہیں نیزایسالگتاہے یہ اِداراے امن نہیں بلکہ مسلمانوں کو زیرِ نگین رکھنے کے لیے معرضِ وجود میں لائے گئے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کے لیے عملی طور پر کچھ کیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہورہا بلکہ بدترین نسل کشی کواسرائیل کا حقِ دفاع قرار دیا جارہا ہے ایسی بے رحمی و سنگدلی کے مظاہروں نے دنیا کو بدامنی کے آتش فشاں کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے جس کا جلد ادراک نہ کیا گیا تو عالمی امن تہہ بالا ہو سکتا ہے جنگ کا پھیلنا نسلِ انسانی کے لیے نفع بخش نہیں ہو سکتا ضرورت اِس امر کی ہے کہ امن کی دعویدارقوتیں آگے بڑھیں اور اسرائیل کو نسل کشی جیسے جرائم سے روکیں اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اہم بحری گزرگاہ بحیرہ احمر غیر محفوظ ہوئی ہے اِس تجارتی گزرگاہ کو آمدورفت کے قابل رکھنے کے لیے امریکی اور برطانوی طیارے الحدیدہ ایئرپورٹ سمیت حوثی ٹھکانوں کونشانہ بنارہے ہیں یہ جنگ پھیلنے کی طرف اِشارہ ہے حوثی کہتے ہیں کہ وہ اُس وقت تک بحیرہ احمر ،خلیج عدن اور بحیرہ ہند میں گزرنے والے تجارتی اور فوجی بحری جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے جب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیلی کی مسلط کی گئی جنگ ختم نہیں ہو جاتی امن قائم کرنے کی بجائے جواب میں امریکہ اور برطانیہ کاحملے کرنا،جارحیت کی حوصلہ افزائی اور مسلمانوں سے نفرت ظاہرہوتی ہے جس سے اُن کے امن کے دعوئوں پر شبہات جنم لیتے ہیں حالانکہ غزہ میں امن سے یہ مسلہ باآسانی حل ہو سکتا ہے لیکن اِس کی بجائے مشکل اور پیچیدہ راستہ اختیار کیاگیاجودلیل ہے کہ امن دعوئوں میں کوئی حقیقت نہیں ایسی بداعمالیوں کی بناپر دونوں ممالک کی قیادت بارے عوامی نفرت میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ یورپ کے تین ممالک اسپین ،ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو آزاد و خود مختار ریاست تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے جس سے امید پیداہوئی ہے کہ کچھ دیگر یورپی ممالک بھی جلد اِس روش پر چلنے کا اعلان کر سکتے ہیں یہ حالات اسرائیل اور یورپ کے بڑے ممالک کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تین یورپی ممالک کے فیصلے پر اسرائیل نے سخت ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اِس پر خاموش نہیں رہے گا اور اِس فیصلے کے سنگین نتائج ہوں گے مگر ناروے جیسے پُرامن ملک کے وزیرِ خارجہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی عدالتِ انصاف نے اگر اسرائیلی وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو ناروے دونوں کو گرفتارکر لے گا یہ ایک امید افزاپیش رفت ہے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر محدوداختیارات رکھنے والی فلسطینی اتھارٹی کو اقوامِ
متحدہ کے کُل 193ممبرممالک میں سے 142پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں مگر کچھ طاقتور ممالک ایسا کرنے سے انکاری ہیں دراصل وہ چاہتے ہیں کہ آزاد فلسطینی ریاست تسلیم کرنے سے قبل اِس کی حتمی سرحدوں اور یروشلم کی حثیت جیسے مسائل پر معاہدہ ہو اِس حیل و حجت کا صاف مطلب ہے کہ وہ امن کا قیام اسرائیلی شرائط کے مطابق چاہتے ہیں یہ طرزِعمل امن کے قیام میں رکاوٹ ہے مظلوم فلسطینیوں بارے اقوامِ عالم میں بڑھتی حمایت ثابت کرتی ہے کہ اُنھیں غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر تشویش ہے اسی لیے یورپی ممالک بھی فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے لگے ہیں لیکن امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے ہنوز اسرائیل کی بے جاحمایت برقرارہے جو عالمی امن کو لاحق خطرات میں اضافے کاباعث ہے خطے کی سلامتی و استحکام کے لیے لازم ہے کہ 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزادو خودمختار فلسطینی ریاست ہو غلط فیصلوں سے امریکہ اور برطانیہ کی حکمران جماعتوں کے خلاف عوامی نفرت بڑھتی جارہی ہے جس کانتیجہ رواں برس ہونے والے انتخابات میں شکست کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔