... loading ...
کٹہرا /ایم آر ملک
یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کی تختی سے کریڈٹ کو مصنوعی موت سے نہیں مٹایا جاسکتا ،وہ شخص جو چاغی میں بٹن دبانے کا روادار نہ تھا وہ اب یوم تکبیر کے کریڈٹ کا خواہاں ہے ۔
بھٹو اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ تھا اور رہے گا ،عرصہ پہلے میاں برادران کے ایک حواری نے کہا تھا کہ ایٹمی پروگرام کا ارتقاء یحییٰ خان کے مرہونِ منت ہے وہی یحییٰ خان جس نے حب ا لوطنی ہندو بنیئے کے ہاتھوں بیچ کر وطن عزیز کو دو لخت کیا۔ معرکہ حق و باطل کے دوران جو شراب و کباب کی محفل میں طائوس و رباب اول کا پرچار کرتا رہا
اور بھٹو !
بخدا وہ وطن عزیز کی بقاء اور دفاع کی خاطر قانون کی کمزور ترین دفعہ 109کے تحت تختہ دار پر چڑھ کر ہمیشہ کیلئے امر ہوا۔ ہالینڈ میں مقیم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فخرِایشیا کی درخواست پر مستقل طور پر پاکستان رہ کر نیو کلیئر پروگرام شروع کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کیا۔ 18مئی 1974 بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور چند گھنٹے بعد اعلیٰ افسران کے ہنگامی اجلاس میں اُس نے یہ تاریخی الفاظ کہے ”ہندو نے بم بنا لیا ہے اب ہمیں بھی بم بنانا ہو گا، خواہ ہمیں گھاس پر ہی کیوں نہ گزارہ کرنا پڑے ”۔ اور اُسے جب اپنے عزم کی تکمیل کی جھلک نظر آئی تو فطری خوشی اور جذبات سے مغلوب بھٹو نے میز پر مکا مارا اور یہ تاریخی الفاظ اُ س کی زبان سے نکلے
”I will see Hindu Basterds now”
یہودیت ہمیشہ مسلمانوں کی ترقی سے خائف رہی۔ یہودیت کے پروردہ ہنری کسنجر نے اپنا زہر اُگلا۔ ”بھٹو تم نے جس پروگرام کی ابتدا کی اِ س کی سزا بڑی کڑی ہے ”۔ بھٹو نے اسمبلی فلور پر یہ باور کرایا کہ سفید ہاتھی میری جان کے در پے ہے ۔ڈاکٹر اے کیو خان نے تعمیر وطن کیلئے اپنا کام تیزی سے شروع کر دیا۔ بھٹو کا یہ کارنامہ جو دفاع ِ وطن کیلئے تھا اور اُس قوم پرست کے ذہن میں یہ خناس سمایا ہوا تھا کہ میری قوم احساس کمتری سے نکلے ،یہودی لابی کی نظروں میں کھٹکتا رہا اور بالآ خر اس لابی نے اپنے پلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے ذریعے اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ استعماری طاقت کے ایک آلہ کار نام نہاد ” مرد ِ مومن مردِ حق ”نے تیسری دنیا کے لیڈر کیلئے ایک متنازع مقدمہ میں متنازع سزائے موت تجویز کی۔
ڈاکٹر قدیر خان نے استعماری طاقتوں کے آلہ کار کو لکھا ”یقینا بھٹو صاحب سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن پاکستان کی سلامتی کیلئے اُن کی بے پناہ خدمات کو سامنے رکھا جائے اور اُنہیں سزائے موت نہ دی جائے ”۔ مگر جب کوئی دشمن وطن کے اشارہ ٔابرو کا پابند ہو اُس کا ایجنٹ بن کر کام کر رہا ہو تو اُسے تعمیل ِحکم کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ ضیا ء نے یہی کچھ کیا کہ ایٹمی پروگرام کے معمار کو پھانسی دیدی۔ بھٹو نے دوران ِ حراست اپنی بائیو گرافی میں لکھا ”اگر مجھے قتل کیا گیا تو دنیا کی تاریخ بدل جائیگی اور یہی ہوا پوری دنیا میں مسلمان زیر عتاب آگئے۔ نائن الیون کے خود ساختہ واقعے کے بعد مسلمان دہشت گرد ٹھہرے۔ اُس نے ایک موقع پر کہا تھا کہ عربوں کی معدنی دولت ،تیل کا پیسہ ورلڈ بنک میں پڑا ہے اور یہی پیسہ غریب اور ترقی پزیر مسلمان ممالک کو سود پر دے کر استعماری طاقتیں ان غریب اور ترقی پزیر ممالک کو معاشی طور پر دیوالیہ کر کے اُن کی غلامی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
بھٹو پاکستان ہی نہیں مسلم اُمہ کا درد رکھتا تھا۔ پاسبان ِ حرم فیصل شہید اور ذوالفقار علی بھٹو مسلم دھرتی پر ورلڈ بنک کے خواہاں تھے۔ مذکورہ جرائم کی سزائیں بڑی کڑی تھیں ایک کو گولی لگی اور دوسرا دار پر چڑھا ۔میاں نواز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں مسلم سربراہوں کا ناکام اجلاس طلب کیا تو کرنل معمر قذافی شہید کو بھی دعوت نامہ بھیجا۔ بھٹو کے ساتھی نے جواب میں لکھا ”مجھے 1974میں ایسی ہی ایک مسلم سربراہوں کی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تھا اور میں نے لاہور میںہونے والی اس کانفرنس میں واقعی اسلامی قوتوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا تھا لیکن بعد میں ایک ڈکٹیٹر نے اُس شخص کو جس نے ساری مسلمان قوم کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی پھانسی پر لٹکا دیا میں آج تک اِس سانحہ کے غم سے باہر نہیں آسکا۔ اِس لیے میرے واسطے اس اجلاس میں شرکت کرنا مشکل ہے ”۔
معمار پاکستان کا نام ایٹمی پاکستان کے کریڈٹ کی تختی سے مٹا کر تاریخ کو مسخ کرنے والے آج یہ بھول رہے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک امتیاز کا نام ہے۔ فخرِ ایشیا کی بیٹی نے ایک موقع پر کہا تھا ”سچائی ،اصولوں اور عوام کی خاطر لڑنے والوں کے مقدر کا فیصلہ عدالتیں نہیں بلکہ عوام اور تاریخ کیا کرتے ہیں ۔تاریخ نے حسین کو شہید اکبر اور اُنہیں باغی قرار دینے والوں کو ملعون ِ اکبر قرار دیا۔ تاریخ نے سرور شہید اور منصور ابن ِ حلاج کو کافر قرار دیکر شہید کرانے والے فتویٰ فروش قاضیوں کو اُن کے غلط فیصلوں سمیت حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا مگر سرور شہید اور منصور شہید کے نام مسیحائی ،حق پرستی ، اور صبرو استقامت کے تاریخی حوالے بن کر تا قیامت زندہ رہیں گے۔ شاہ عنایت شہید کو مظلوم ہاریوں کی بات کرنے کے جرم میں دار پر چڑھانے والے حکمرانوں پر سندھ کے عوام آج بھی تھو تھو کرتے ہیں جبکہ عنایت شہید دار پر چڑھ کر امر ہوگئے ۔
کیا شریف خاندان کی قربانیاں بھٹو خاندان کی قر بانیوں کا عشر عشیر بھی ہیں۔ بھٹواور اس کا خاندان قوم پرستی کے جرم کا شکار ہوا ،شاہنواز کی پراسرار موت سے لیکر محترمہ بے نظیر کی موت تک عالمی سازش نظر آتی ہے ۔مگر ان ساری اموات کا پس منظر پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے۔ کیا شریف برادران کے ایک بھی فرد کی قربانی بھٹوز کی قربانیو ں کا بدل ہیں ۔میاں نواز شریف جو آج ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی گواہی تاریخ کے اوراق پر ثبت رہے گی کہ اس نے تو ایٹمی دھماکے کرنے سے گریز کیا ،امریکی خوف اس کی حب الوطنی کو نگل گیا ،کئی روز کی سوچ و بچار کے بعد جب ڈاکٹر قدیر نے اپنی قربانی کا ضیاع ہو تے دیکھا تو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ادارہ سے رجوع کیا ۔
کریڈٹ کبھی مصنوعی موت نہیں مرتا اور نہ ہی اسے مصنوعی موت سے مارا جاسکتا ہے۔ اس کا اعتراف سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مر حوم نے ایک بار یوم تحفظ پاکستان کی ایک ریلی سے دوران خطاب کراچی میںاِن الفاظ میں کیا تھا ”ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ بھٹو کو جاتا ہے ” ۔