... loading ...
زریں اختر
اُف یہ وکیل ، ہائے یہ وکیل ، توبہ یہ وکیل ، کوئی ملے گااچھا وکیل؟ خاتون کی آنکھوں میں افسوس تھا اور ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ،انہوں نے بتایا،’ میںاپنے صحافی دوست کے حوالے سے ایک علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ سے ملی اور ان کے توسط سے جس سینئر وکیل سے ملی ، اس کا جونیئر رشوت خور نکلا اور کچھ عرصے کے بعدکہ میں صورت ِ حال کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار وہ سینئر وکیل صاحب لائن دینے لگے، آپ یہ سب لکھیں گی؟ خاتون نے سوال کیا ۔ میں نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا اور اس سے پہلے کہ پوچھتی ، انہوں نے میری نظروں میں سوال پڑھ لیا ،ضرور لکھیں، اب میں نے انہیں تشکر آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ، کچھ اور بتائیں گی ۔ کیوں نہیں ،خاتون نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بولناشروع کیا ؛ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ خود زندگی کا ایک بڑا کٹھن مرحلہ ہوگا جو عدالت لے کر آیا، اُس مسئلے کے حل کے لیے مقدمہ اور عدالتی نظام جس کے متعلق ہم ایک طرف یقین اور دوسری طرف امید و بیم کے درمیان جھولتے رہتے ہیں،اس نظام کو سمجھنا کہ کوئی کیا بات کررہاہے ، یہ پیدا گیر لوگوں کا معاشرہ ہے ، لیکن اگر آپ اپنے حق اور انصاف کے لیے ڈٹنا سیکھ لیتے ہیں تو پھر آپ لڑنا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ یہاں آپ دیکھیں عمر رسیدہ ، معذور ، غریب چپل گھسیٹتے ہوئے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ۔۔۔ان کو دیکھ کر میری امید بندھتی ہے ، اصل امید’ عادل منصف ‘ ہے ۔’
آپ کا مطلب ہے عدالت عوام کی آخری امید گاہ ہے ؟
تمہارا سوال اچھا ہے اور زبان بھی ، نہیں میں عدالت نہیں ، منصف کی بات کررہی ہوں، نظام نہیں افراد،نظم سے زیادہ فرد ۔
ایک ہی بات ہے میں نے کہا۔
ایک ہی بات نہیں ہے ،تم تصور کرو کہ یہاں کوئی نہیں ، اب کیا ہے ، یہ دیواریں ، یہ چھت ، وہ قیدیوں کا احاطہ ، وہ چار دیواری جس میں سماعت ہوتی ہے، وہ کٹہرا اور وہ جج کی کرسی ۔۔۔یہ سب اور بہت کچھ اس نظام کو قائم کرنے اور رکھنے کے ضروری لوازمات ہیں، عدل کا نظام قائم ہوتا ہے’ عادل منصف ‘سے ، اسی لیے مجھے اس عمارت کی بوسیدگی پر کوئی پریشانی نہیں ، لیکن اگر میرا یقین جج پر سے ہی اٹھ جائے تو کوئی شان دار عمارت کیا کرلے گی؟ اچھا میں وکیل کی بات کررہی تھی ، دیکھو یہ سب ایک دن میں سمجھ میں نہیں آگیا، اور جب یہ سب کچھ شروع ہوا ،اس مسئلے نے مجھے ذہنی مریض بنادیا تھا، میرا سائیکالوجسٹ سے علاج چل رہا تھا ، میری نیند اور بھوک اڑی ہوئی تھی ، مجھے زندگی کی گہما گہمی سے وحشت ہونے لگی تھی ۔میں نیند کی دوا کھا کے سوتی اور سوتے سوتے میری آنکھ کھل جاتی ۔ڈاکٹر نے ڈوز بڑھا دی ، یعنی مسئلہ
پھر مقدمہ ،ابتر ذہنی حالت اور اس پر سینئر وکیل کا انداز ۔۔۔پاگل کرنے کے لیے یہ سب کافی ساز گار تھا، نہیں؟
میں نے مسکر ا کر اور ستائشی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’ اس کے بعد ہم پھر ایک حوالے سے خواتین وکلاء تک پہنچے ۔ اس کا ایک اور رخ سمجھ رہی ہو ، ایک وکیل کو ہم فیس دے چکے ہیں اور اب ہم دوسرا وکیل کرنے جارہے ہیںتو وہ بھی مفت میں تو نہیں لڑے گانا۔ پہلے وکیل کا این او سی ، وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے میری فیس پوری نہیں دی ،اگر آپ نے وکیل کو فیس دیتے وقت رسیدنہیں لی، ایک فضول قسم کی شرما شرمی میں معقولیت کا خون ہوتا رہتاہے۔ دوسر ا وکیل اپنی برادری کے ان ہتھکنڈوں سے واقف ہوتا ہے ، لیکن اس سب میں جو کام جج کی نظر کرتی ہے وہ وہی کرتی ہے۔
یعنی ؟
اگر مدعی ہر پیشی پر باقاعدگی سے عدالت آرہا ہے ، حاضری لگارہا ہے ، تو جج اس کو دیکھ رہاہے ، اس کے وکیل کو بھی دیکھ رہاہے ،جیسا کہ میرے سینئر وکیل نے عدالت کو جواب میں لکھا کہ ان کے واجبات باقی ہیں، جس پر جج صاحب نے کہا کہ میں ان سے بات کرلوں گا۔ میں نے دوسرے مقدمات کی سماعت میں دیکھا ہے کہ وکیل اپنا مقدمہ صحیح طرح سے پیش نہیں کررہا تو جج کیس سمجھتے ہوئے وکیل کی رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں، جب انہوں نے ایسا دوسرے کے مقدمے میں کیا تو مجھے رہنمائی لگا لیکن جب یہ انہوں نے میرے مخالف وکیل کے ساتھ کیا تو مجھے اچھا نہیں لگا تھا ، اب میں اتنی غیر جانب داربھی نہیں رہ سکتی تھی ۔
کیا ۔۔کیاکیا تھا جج صاحب نے آپ کے مقدمے کی سماعت میں؟
ملزم نے سینئر وکیل کیا تھا، وہ سینئر وکیل کبھی نہیں آئے ،ہمیشہ ان کا جونیئر ہی پیش ہوا۔ تو جج صاحب نے اس جونیئر وکیل کی تیاری نہ ہونے پر کہا تھاکہ یہ آپ جونیئر وکیل کے لیے اچھا موقع ہوتا ہے کہ سیکھیںایک اور موقع پر انہوں نے اس کی اچھی طرح کیس پیش کرنے پر شاباش بھی دی تھی ، خیر شاباش تو اس کو اس وقت میں نے بھی دے دی تھی کہ آپ نے فیس اچھی حلال کی۔
اور جج صاحب نے کیا کہا جو آپ کو اچھا نہیں لگا؟
ہاں یہ مجھے اس وقت برا لگاتھاکہ یہ عدالت ہے کوئی کلاس روم نہیں کہ وہ اپنے شاگرد کی حوصلہ افزائی فرمائیںیا اس کو شاباشی دیں،میں نے اس وقت اسی طرح سوچا تھا کہ بجائے تیاری نہ کرنے پر جج صاحب اسے سرزنش کریں، تنبیہ کریںاور اچھی تیاری پر شاباشی بنتی ہے کیا ؟ دیکھیں ایک بد اعتماد نظام میں اس طرح شک کو ہی راہ مل سکتی ہے ، اور میں تو ویسے بھی بہت شکی ہوں( یہ کہہ کر کچھ یاد کرتے ہوئے وہ خاتون افسردہ ہوگئیں)
میں نے پھر استفہامیہ انداز سے ان کی طرف دیکھا۔
جن صاحب زادے کی وساطت سے میں ان سینئر وکیل سے ملی تھی ، ان صاحب زادے نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جتنا شک آپ مجھ پر کرتی ہیں اگر اس کا ایک فیصد بھی ملزم پر کیا ہوتا تو ۔۔۔پتا نہیں میرے شکوک اس وقت کہاں جاکر مر گئے تھے ؟ یہ گتھی نہیں سلجھتی ۔
تو آپ کو ان صاحب زادے پر شک ہوا؟
ان کے طریقہ ء کار سے پہلے پہل مجھے لگا کہ جس بد معاشی سے معاملہ پھنسا ہے اسی طرح جوابی بد معاشی سے نکلے گا۔ ایسے لوگوں سے یہاں تک کہ پولیس سے بھی ہم ڈیل کرسکتے ہیں؟ نہیں نا ۔۔۔پھر ہم ان طریقہء کار کو بھی کیسے سمجھ سکتے ہیں جس پر وہ صاحب زادے عمل کر رہے تھے ۔ کبھی مجھے لگتاکہ وہ ایک مہم جویانہ طبیعت کے مالک ہیں اور ان کو ایک مہم سر کرنے کو مل گئی ہے، کبھی مجھے لگتا کہ وہ اپنے دل کی کوئی بھڑاس نکال رہے ہیں ، کبھی مجھے لگتاکہ وہ مجھے چارے کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اپنے تعلقات بنا رہے ہیں ۔۔۔ مجھے ان سب پر کوئی مسئلہ نہیں ،لیکن میرے مسئلے کا کیا؟ تو ان کی یہ سب پریکٹس سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ عدالت کی ابتدائی پیشیوں میں مجھے لگاکہ جیسے وہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہیں، مجھے شدید کوفت ہوئی کہ مجھ پر کیوں نظر رکھی جارہی ہے اور پھر ان کی اس طرح نظر رکھنے کے عمل نے مجھے ان ہی کے متعلق شکوک میں مبتلا کردیا۔ یہ شک ان کو مجھ پر تھا یا خود پر جو وہ مجھ پہ نظر رکھے ہوئے تھے ؟ وہ خود کچھ تو کر رہے تھے ۔ میں پھر کہوں گی کہ کرتے لیکن میرا مسئلہ حل کرتے ،اب اگر مجھے یہ لگے کہ وہ مجھے چارہ بنا رہے ہیں تو یا کوئی ڈبل گیم ۔۔۔
ڈبل گیم مطلب ؟
ملزم نے ایک مرتبہ عدالت کے باہر صاحب زادے کے ساتھی پر الزام لگاتے ہوئے کہا تھاکہ یہ مجھ سے کتنی دفعہ پیسے آکر لے جاتا رہا ہے۔ ساتھی بھی ایک نمبر کا کاریگر ، اس نے جواب میں کہا کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے۔ پھر وہ سینئر وکیل اس ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھ سے یہ کہتے ہوئے کہ آپ چلیں ، اسے دوسرے رستے کی طرف سے لے گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔