وجود

... loading ...

وجود

ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت کے اثرات

اتوار 26 مئی 2024 ابراہیم رئیسی کی حادثاتی موت کے اثرات

حمیداللہ بھٹی

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک ایسے پُراسرار ہوائی حادثے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے ہیں جس کے کئی ایک پہلو پوشیدہ ہیںجن کی وضاحت اب شاید تاریخ ہی کرے۔ اتوار کو ڈھلتی دوپہر صدررئیسی جس ہیلی کاپٹر پر سوار تھے وہ سرحدی علاقے میں اچانک لاپتہ ہو گیااور تلاشِ بسیار کے نہ ملا مگرقافلے میں شامل دوسرے دونوں ہیلی کاپٹربحفاظت منزلِ مقصودپر پہنچ گئے ۔لاپتہ صدرکی تلاش کے لیے ایران نے ہمسایہ ممالک سے مددکی درخواست کردی کہ شایددُھند کی وجہ سے صدرکی فضائی سواری نے کہیں کسی ہمسایہ ملک کی سرحدہی عبورنہ کرلی ہو۔ ایرانی درخواست پر ترکی، آذربائیجان ،عراق ، آرمینیاسمیت کئی ملک سُرعت سے حرکت میں آئے لیکن رات بھرکوشش کے باوجود لاپتہ ہیلی کاپٹر کو تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اِس دوران ملک کوانتشاروافراتفری سے بچانے کے لیے ایرانی قیادت کے کئی ایک اجلاس ہوئے اور حالات کے اثرات کا جائزہ لیا جاتارہا ۔آخر کارعل الصبح یہ اطلاع آئی کہ سرحدی علاقے میں محوپرواز ترکی کے ایک ڈرون نے ایسے سگنل دیے ہیں جن سے کسی طیارے یا میزائل کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ترکی کا مقامی طورپر تیارکیاجانے والا ایک ایساجدید ترین ڈرون ہے جو سامانِ حرب کے ساتھ مسلسل26 گھنٹے پرواز کر سکتا ہے۔ صلاحیتوں کی بناپرہی اِس کا امریکی ڈرون سے موزانہ کیا جاتاہے جس کی پرواز 27 گھنٹے تک محیط ہو تی ہے ۔کردوں کے خلاف کارروائیوں کے ساتھ ترکی ہنگامی حالات میں ڈرون سے مدد لیتا ہے۔
ڈرون سے ملنے والی اطلاع جلد ہی ایرانی حکام کے علم میں لائی گئی جس کے بعد جلدہی تصدیق ہوگئی کہ صدراور وزیرِ خارجہ عبداللہیان سمیت دیگر کو لے جانے والا امریکی ساختہ بدقسمت ہیلی کاپٹرحادثے کا شکارہوکرتباہ ہو گیا ہے اور سبھی سوارخالقِ حقیقی سے جاملے ہیں۔ حالانکہ ایرانی حکام کا اصرارتھا کہ ہیلی کاپٹر نے جس جگہ ہارڈ لینڈنگ کی ہے وہاں پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے ایران بارے قائم ایسے تاثر کی نفی ہوئی کہ اُس کی ڈرون ٹیکنالوجی جدید ترین ہونے کے ساتھ ہرقسم کے حالات کے لیے موثر ہے۔ اُس کے ڈرون روس اور یوکرین جنگ کے ساتھ کئی ممالک کے زیرِ استعمال ہیں لیکن صدر کے ہیلی کاپٹر کا ملبہ تلاش کرنے میں قطعی ناکام رہے۔ سوالات تو یہ ہیں کہ اگر ہیلی کاپٹر ازکار رفتہ تھا اور موسم کی خرابی سے سانحہ پیش آیاہے تویہ دریافت کرنا بنتاہے کہ موسم کی خرابی کے باوجود صدرکو روانہ کیوں کر دیا گیا نیز حفاظت پر مامور دونوں ہیلی کاپٹر فرائض چھوڑ کر واپس کیوں لوٹ آئے؟ اور اگر حادثے کے شکارہیلی کاپٹرسے رابطہ منقطع ہو گیاتھا تو تلاش کرنے اور کمک طلب کرنے میں لاپروائی اور سستی کیوں کی گئی؟یہ سوالات حادثے کو پُراسرار بناتے ہیں جن کی روشنی میںخدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ حادثہ ہوانہیں بلکہ کرایاگیا ہے جس میں اُن قوتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے جوایرانی مفاد کے منافی سرگرم ہیں۔
ملک کو کسی نئی سیاسی افتادسے محفوظ رکھنے کے لیے حادثاتی موت کی تصدیق سے قبل ہی ایران کے نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ایران کا آئین کہتا ہے ایسی صورتحال میں پچاس روز کے اندر نئے صدرکا انتخاب کرایاجائے۔ رئیسی کے اچانک منظرسے غیاب کو کئی پہلوئوں سے دیکھا جارہاہے نہ صرف ملک میں سیاسی بے یقینی کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے بلکہ خطے میں ایرانی کردار میں کسی حدتک تبدیلی کی بھی توقع ظاہر کی جارہی ہے کیونکہ مرحوم صدر اپنے سخت گیر اور قدامت پسندانہ خیالات کی وجہ سے امریکہ ،مغربی ممالک اور اسرائیل کی طرف سے اکثرتنقید کی زد میں رہتے تھے، اُنھیں مستقبل میں ملک کا سپریم لیڈر بنانے پر بھی کام ہورہا تھا۔ وہ ملک کی گارڈین کونسل کے پسندیدہ ترین تھے۔ اسی لیے اصلاح اور اعتدال پسندامیدواروں کو نااہل قراردے کر صدارتی انتخاب سے باہر کردیا گیا جس سے ابراہیم رئیسی کو ملک کاآٹھواں صدر بنانے کے لیے میدان صاف اور ہموار ہواجس کی بدولت وہ آسانی سے2021میں صدر منتخب ہو گئے ۔
رئیسی اگر ملک کے اندر اور باہر کئی لوگوں کے پسندیدہ تھے تو اُن کی شخصیت کئی حوالوں سے تنقید کی زد میں رہی بلخصوص ایک متنازع عدالتی کمیشن میں جانبدارانہ کردارپراکثر اُنگلیاں اُٹھائی جاتی ر ہیں۔ علاوہ ازیں بے حجاب ہونے کی وجہ سے مہساامینی کی حراست کے دوران ہونے والی موت کے بعد جنم لینے والے پُرتشد د مظاہروں پر بھی اُنھیں مسلسل تنقید کاسامنارہا لیکن پونے تین سالہ دورِ صدارت میں وہ ذراٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ اپنے عزم و اِرادوں پر ثابت قدم رہے، حالانکہ پُرتشدد مظاہروں میں سینکڑوں لوگ نہ صرف ہلاک و زخمی و لاپتہ ہوگئے ،لاپتہ ہونے والوں کے بارے اب بھی واقفان حلقوں کا خیال ہے کہ ریاستی اِداروں کی تحویل میں ہیں۔ ملک میں انتشارو افراتفری کے ا یام میں ثابت قدم رہنا ظاہر کرتا ہے کہ رئیسی کو قدامت پسندی کے عوض کسی قسم کے خطرات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ شاید اسی لیے مستقبل میں ملک کا سپریم لیڈر بنائے جانے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں مگراب اچانک وفات نہ صرف کئی سوالات چھوڑ گئی ہے بلکہ ملک میں سیاسی خلا کا خدشہ بھی قوی ترہے۔
مرحوم صدرنے اپنے دورِ صدارت میں کئی ایسے کام کیے جن سے امن کے قیام میں مددملی گزشتہ برس 2023میں چین کی ثالثی میں سعودی عرب سے ہونے والے مذاکرات کے دوران منقطع تعلقات بحال کیے ۔یہ ایسافیصلہ تھا جو امریکہ سمیت مغربی ممالک کے لیے خاصاحیران کُن تھا جنھیں بات چیت کے سواکسی فیصلے کے بارے میں بھنک تک نہ پڑنے دی گئی۔ اِس فیصلے سے نہ صرف عرب ممالک سے لاحق خطرات سے ایران کو محفوظ بنایا بلکہ مسلم اُمہ کے اتحادکی طرف بھی پیش رفت ہوئی۔ ایران سعودیہ مذاکرات نتیجہ خیز ہونے سے قبل ایسی اطلاعات گردش کررہی تھیں کہ جوہری حوالے سے ایران کا سخت رویہ عرب ممالک کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں ہوسکتا لیکن امریکہ ، اسرائیل اور مغربی ممالک سے کشیدگی کے باوجود انھوں نے عرب ممالک کو قائل کر لیاجس کے نتیجے میں رئیسی اور شامی صدربشارالاسد نومبرمیںریاض میں منعقدہ عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شامل ہوئے اور غزہ پرہونے والے اسرائیلی حملوں کے خلاف عرب ممالک کوہمنوابنانے میں ایران کوآسانی ہوئی ۔اب خیال کیا جارہا تھا کہ یمن میں امن کے حوالے سے بھی ایران اور سعودیہ ایک ایسی مفاہمت کے قریب ہیں جس سے لڑائی کاخاتمہ ہومتحارب گروپوں کی حمایت میں سرگرم دونوں ممالک کا یہ فیصلہ بھی حیران کُن تھا اسی طرح امریکہ سے کشیدگی کے باوجود ایران نے بھارت سے معاشی و تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے چاہ بہاربندرگاہ کے حوالے سے دس سالہ معاہدہ کیااور بھاری سرمایہ کاری کے معاہدے سے نہ صرف جمودکا شکار ایرانی معیشت بنانے کی کوشش کی۔ اِس معاہدے سے شام ،عراق،ترکی ، جارجیا اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک بھارت کی رسائی بھی آسان ہو جائے گی۔ یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت کاخطے میں ایران ایک بااعتماد اورایساقابلِ قدر دوست ہے جوبھارت سے تعلقات بڑھانے میں کسی ہمسائے یا عالمی طاقت کی پسندیا ناپسند کو خاطر میں نہیں لاتا۔
ایران امریکہ کے درمیان گزشتہ برس 2023میں قیدیوں کے تبادلے کی منظوری صدررئیسی کاایک ایسادلیرانہ فیصلہ تھا جس سے نہ صرف ایران پر عالمی دبائو کم ہوا بلکہ اِس کے عوض کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ممکن ہوئی شام میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں متوقع ایرانی کاروائی سے ایک بڑی جنگ کے خدشات ظاہر کیے گئے مگر ایران کی محتاط کاروائی نے ایسے تمام خدشات کو معدوم کر دیا اسی طرح رواں برس جنوری میںایک مسلح گروپ جیش العدل کے ٹھکانوں پرایران کے فضائی حملے کے نتیجے میں جب پاک ایران کشیدگی پیداہو گئی اورناراضگی میں پاکستان نے ایران سے اپنا سفیر بھی واپس بُلا لیا تو رئیسی نے مُضمرات کابروقت ادراک کرتے ہوئے دونوں ممالک میں تنائوختم کرانے کی کوشش کی اور پھر پاکستان کی جوابی کاروائی پر بھی تحمل وبردباری کا مظاہرہ کیاجس سے دونوں ممالک میں تعلقات نہ صرف جلد معمول پر آگئے بلکہ رئیسی کے دورے کی راہ ہموار ہوئی جس کے دوران دونوںممالک میں تجارت وتعاون بہتر بنانے کے کئی ایک معاہدے ہوئے پاک بھارت تنائو کے باوجود دونوں ممالک سے قریبی تعاون ایرانی قیادت کی فہم و فراست کا نتیجہ ہے۔
ویسے تو ایران کے آئین کے مطابق ایک88رُکنی ماہرین کی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کاانتخاب کرنے کی مجاز ہے لیکن یہ اِس حوالے سے مکمل طورپر خود مختار نہیں بلکہ سپریم لیڈر کے جانشین کے انتخاب سے قبل اسمبلی کے اراکین کوبارہ رُکنی ایک ایسی طاقتور گارڈ کونسل جانچتی ہے جو انتخاب سے لیکرقانون سازی کی نگرانی کرتی ہے۔ سپریم لیڈر کے جانشینوں کے نام راز میں رکھنے کی کوششوں کے باوجود چند ماہ سے شنید تھی کہ تین افراد آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی،موجودہ سپریم لیڈرکے صاحبزادے مجتبیٰ خامنائی اور صدررئیسی کے نام شارٹ لسٹ کرلیے گئے ہیں۔ رئیسی کی موت سے ایک ممکنہ سپریم لیڈرتو راستے سے ہٹ گئے ہیں جس سے اب 56سالہ عالم دین مجتبیٰ خامنائی کے سپریم لیڈربننے کی راہ بڑی حدتک ہموار ہو گئی ہے لیکن کیاہنگامی حالات میں نئے سپریم لیڈر اور نئے صدر دونوں ابراہیم رئیسی جیسی فہم و فراست اورتدبر وحکمت کا مظاہرہ کر سکیں گے اورکیا بروقت فیصلوں سے ایران کولاحق خطرات سے بچاپائیں گے ؟ اِس کا جواب وقت، تاریخ ،حالات وواقعات اور مقامی وعالمی سیاست پر چھوڑنا بہتر ہے۔ البتہ یہ طے ہے کہ رئیسی کی اچانک موت کے اثرات دہائیوں تک محسوس ہوتے رہیں گے ۔وہ نہ صرف اُمت مسلمہ کے ایک اہم ،بہادراور ذہین رہنما تھے بلکہ امن کے حوالے سے بھی اُن کاکردار قابلِ قدر ہے جن کی وفات ایران کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کا بھی ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اُن کی ناگہانی موت سے خطے میں ہونے والی کئی مثبت تبدیلیوں کی رفتارسست ہو سکتی ہے اِس نازک مرحلے میں حادثے کی درست چھان بین اور معاملات کو گہرائی تک جانچنے سے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر