... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
جس روز ایران کے ابراہیم رئیسی کی شہادت ہوئی ،اس روز میں نے اپنے کئی باشعور ساتھیوں کے چہروں پر کرب کے آثار نمایاں دیکھے، اک بحث ہے کہ مسلم دنیا کی لیڈر شپ کی اموات کے پے در پے سانحات ہمارا مقدر کیوں ہیں ،ہم یہ لاشیں کب تک اُٹھاتے اور دفناتے رہیں گے ؟ہم پسماندہ کیوں ہے ؟ درجنوں سوالات ہیں جن سے کسی بھی خطہ کا ایک باشعور مسلمان پیچھا نہیں چھڑا سکتا مگرحقائق کا سامنا کرنے سے ہم گھبراتے ہیں ؟
کہا جاتا ہے کہ جس قوم نے ترقی کی اُس میں تین خوبیاں ضرور تھیں۔ علم میں دیگر اقوام سے ممتاز ہونا ،معیشت کا مضبوط ہونا اور باقی اقوام سے طاقت ور ہونا۔ ترقی کا یہ فارمولا آج تک دنیا میں کارفرما چلا آرہا ہے مگر افسوس کہ ہم ان تینوں شعبوں میں دنیا سے پیچھے ہیں ۔کرہ ارض پر پھیلی ہوئی مسلم قوم کی تعداد اس وقت دو ارب ہے یعنی دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ دنیا کے نقشے پر 61اسلامی ملک ہیں ۔ جن میں سے 57او آئی سی کے رکن ہیں لیکن یہ دنیا کی تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود انتہائی حقیر ،کمزور ،پسماندہ اور بے بس ہیں۔
غور طلب بات ہے کہ پورے اسلامک ورلڈ میں صرف 500یونیورسٹیاں ہیں اور ان یونیورسٹیوں کو اگر مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کیا جائے تو ایک یونیورسٹی 30لاکھ مسلمان نوجوانوں کے حصہ میں آتی ہے۔ اب غیر مسلم دنیا کو دیکھیں صرف امریکہ میں 5000سے زائد یونیورسٹیاں فروغ علم کیلئے کوشاں ہیں ۔جاپان کے شہر ٹوکیو میں 1000یونیورسٹیاں ہیں۔ ایک بات جو حیران ہونے کے ساتھ پریشان کن بھی ہے یہ کہ عیسائی دنیا کے 40فیصد نوجوان یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے صرف 2فیصد نوجوان یونیورسٹی تک پہنچ پاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں 21لاکھ لوگوں میں سے صرف220کو سائنس کا علم ہوتا ہے جبکہ امریکہ کے 10لاکھ شہریوں میں سے 4000 شہری سائنسدان ہوتے ہیں۔ جاپان میں یہ تعداد 5000ہے۔ عرب دنیا جو دوسروں کو عجمی کہتی ہے ،پوری عرب دنیا میں صرف 35000فل ٹائم ریسرچ اسکالر ہیں جبکہ صرف امریکہ میں یہ تعداد 23لاکھ ہے۔ پوری اسلامی دنیا اپنے جی ڈی پی کا صرف 2فیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے جبکہ عیسائی دنیا اپنی آمدنی کا 3فیصد حصہ حصول علم پر لگاتی ہے۔ پوری دنیامیں اس وقت 200بڑی یونیورسٹیاں ہیں ۔ان 200یونیورسٹیوں میں سے 54امریکہ ،24برطانیہ 17آسٹریلیا ،10چین ،10جاپان 10ہالینڈ ،9فرانس ،9جرمنی ، 9 کینیڈا اور 7سوئٹزر لینڈ میں ہیں ۔ان 200یونیورسٹیوں میں سے اسلامی دنیا میں صرف ایک یونیورسٹی ہے جبکہ اسی فہرست میں بھارت کی تین یونیورسٹیاں آتی ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کا دور ہے ۔کمپیوٹر کے پہلے 10بڑے ادارے آپ کو امریکہ میں ملیں گے ۔دنیا کے 30فیصد غیر ملکی طالب علم امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔پوری دنیا میں امریکہ اعلیٰ تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ امریکہ اپنے جی ڈی پی کا 2.6فیصد ہائر ایجو کیشن پر خرچ کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور ایجادات میں امریکہ اس وقت پہلے نمبر پر ہے ۔جنوبی ایشیا میں اس وقت چین اور بھارت علم اور ٹیکنالوجی میں نئی قوت بن کر اُبھر رہے ہیں ۔امریکی تھنک ٹینک نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 2025میں چین امریکہ کی جگہ لے لے گا ۔اس کی وجہ صرف اور صرف شرح خواندگی میں اضافہ اور ٹیکنالوجی میں مہارت ہے۔ چین میں اس وقت 900اور بھارت میں 8407یونیورسٹیاں ہیں ۔یہ دونوں ملک ہر سال 9لاکھ 50ہزار انجینئر پیدا کر رہے ہیں ۔اس کے مقابلے میں ہر سال صرف70ہزار نئے انجینئرز امریکہ میں مارکیٹ میں آتے ہیں۔ یہ تعلیم کی صورت حال ہے ماضی کے طمانچے پے بہ پے ہمارے چہروں پر یوں پڑتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو ترقی کی رفتار دوسری قوموں نے پکڑی وہ محض ہمارے اسلاف کی اُن کتابوں سے تھی،جو ان عظیم مسلم سائنسدانوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں لکھیں جن کی کتابیں ان ترقی یافتہ اقوام کی لائبریریوں کی زینت ہیں مگر آج آپ کسی بھی مسلم حکمران کا طرز زندگی اُٹھا کر دیکھیں اُس کی آغوش ،اُس کے پہلو کی زینت کوئی نہ کوئی غیر مسلم حسین عورت ہی نظر آئے گی ۔
اب آتے ہیں معیشت کی طرف دنیا بھر میں تیل نکالنے والے ممالک میں مسلم ممالک سر فہرست ہیں اور کرہ ارض پر ان غیر ممالک کی معیشت کا جو پہیہ رواں دواں ہے وہ مسلم ممالک کی دولت اِ سی بلیک گولڈ کا مرہون ِ منت ہے۔ وطن عزیز پاکستان ہی کو لیں یہاں بلوچستان میں 6ہزار ارب روپے کے ذخائر ہیں جنہیں اونے پونے داموں غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں سے اتنا نہ ہو سکا کہ ان ذخائر کو اپنی افرادی قوت کے ذریعے تلاش کیا جائے مسلم دنیا کے حکمرانوں نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی طرز پر اپنے اتحاد کو یقینی بنانے کی کوشش نہیں کی کسی بھی قوم کی ترقی کی تیسر ی خوبی اُس کا طاقتور ہونا ہے۔ مسلم ورلڈ کے حکمرانوں سے تو یہ تک نہیں ہوسکا کہ اپنے وسائل کو استعمال کر کے یا اُن سے استفادہ کرتے ہوئے طاقت کی راہ اپنائی جائے مگر عیاشی نے اس راہ کو بھی مسدود کر دیا ایسے حکمران جو خدا کی بجائے امریکہ کو سپر پاور مانتے ہوں ،زوال اُن کا مقدر بن جایا کرتا ہے۔ ایسے میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مسلم دنیا زوال کی جانب گامزن نہ ہو۔ عرصہ پہلے لیڈی ڈیانا نے اپنے فرینڈ ڈوڈی الفہد کو مصر کے نامور صحافی محمد حسین ہیکل کی کتاب ”حضرت عمر ”پیش کرتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ میں سمجھتا ہوں کہ پوری مسلم ورلڈ کے چہرے پر طمانچہ ہیں ۔لیڈی ڈیانہ نے کہا تھا کہ ”آپ کی تاریخ کتنی روشن ہے”۔ یہ الفاظ مجھے برسوں بعد آج بھی نہیں بھولے مان لیجئے کہ ہم دو ارب کی تعداد میں ہونے کے باوجود سمندر کے جھاگ کی طرح بے وزن ہیں ،ہماری کوئی حیثیت نہیں حتیٰ کہ ہماری قسمت کے فیصلے بھی یہ غیر مسلم قوتیں کرتی ہیں۔ وہ جب چاہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے کسی محب وطن اور قوم پرست ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو فضا میں اُڑا دیں ،بھٹو کو کسی میر جعفر سے پھانسی لگوادیں ،شاہ فیصل کو اُس کے بھتیجے سے قتل کرادیں ،اپنے میڈیا کے ذریعے عوام کو کسی بھی عوام دوست حکمران کے خلاف نفرت کا طوفان بنادیں، کسی رضا شاہ پہلوی کو جلا وطن کرادیں،کسی صدام کو تختہ دار پر لٹکادیں اور قذافی کو گلیوں میں گھسیٹ کر مروادیں ۔