وجود

... loading ...

وجود

ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں (٣)

جمعه 24 مئی 2024 ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنارہے ہیں ؟کے جواب میں (٣)

ب نقاب /ایم آر ملک

ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بنگلا دیش ،بھارت ،سری لنکا کو جو قیادت میسر آئی اس کی جڑیں دھرتی کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں ۔ہمارے ہاں ایسا نہیں سرے محل سے لیکر ایون فیلڈ تک ہمارے شعور نے کیا کچھ نہیں دیکھا پھر ہم اس ادراک سے عاری ہیں جو انہیں میسر ہے ،تعلیم ،صحت ،سکیورٹی جیسے بنیادی حقوق کی فراہمی ہر بچے کا بنیادی حق ہے ،ہمارے تعلیم اور صحت کے شعبے کاروبار بن چکے ہیں پرائیویٹ تعلیم کے نام پر تجارت کی جارہی ہے اور اسی طرح صحت کے نام پر لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرکے ہسپتالوں کے نام پر صنعتی ایمپائر کھڑے کئے جارہے ہیں ،ہمارے ہاں بچوں کو سماجی اور معاشی چیلنجوں کا سامنا الگ سے ہے ،یکساں نظام ِ تعلیم کے نفاذ سے کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام سے رنگ و نسل کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے دوہرا نظام تعلیم بھی ایک بہت بڑی قباحت ہے ،خاندانی اور موروثی سیاست کی بنیاد تو روز ازل سے رکھ دی گئی ،76سال سے ہم خاندانی اور موروثی سیاست اور حکمرانی کے تسلط میں زندگی گزار رہے ہیں ، جمہوریت کے تو تصور تک سے ہم بے خبر ٹھہرے ،اور سیاست کے نام پر ہمارے ہاں جو پارٹیوں کا وجود ہے وہ سیاسی جماعتیں کم لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ نظر آتی ہیں ،سیاسی پارٹیوں میں نظریاتی ورکروں کی تنقید کو خندہ پیشانی سے سنا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں کسی قیادت کی پالیسی پر تنقید کی شکل میں آپ کی متعلقہ پارٹی سے ممبر شپ کا اخراج ہوجاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی دو بڑی موروثی پارٹیوں میں حق خود ارادیت کا قتل اور عوامی رائے کو جھوٹ کی بنیاد پر یر غمال بنانا کوئی جرم نہیں کہلاتا ،فارم 45کے بجائے فارم 47پر جعلسازی سے شکست خوردہ امیدوار کی جیت کو ممکن بنایا گیا ، آپ کا محور یہ بھی ہے کہ پارٹی میں نوجوان نسل اور خواتین کو ہراول کا کردار دیا جائے۔ یہ بہت اچھا آئیڈیا ہے ،نوجوان ہی ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت میں تحرک پیدا کرتے ہیں ،سیاسی حوالے سے آج کی نوجوان نسل شعوری سطح پر بہت آگے نظر آتی ہے ۔
ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں جہاں نوجوان نسل کو آنکھ کھولتے ہی ناخلف اور بے راہ روی کے راگ سننے کو ملتے ہیں ،جس کو بڑے ناکارہ سمجھ کر خود سے دور رکھتے ہیں ، یہ سچ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سمجھا ہی نہیں گیا وہ جیتنا بھی چاہیں تو ہار جاتے ہیں اور ہمارے نوجوان کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ اُس نے جب بھی جوانی اور تجربے کے فاصلے کو مٹانا چاہا تو اُسے جونیئر رینک کا طعنہ ملا جونیئر ہونا بُری بات نہیں مگر اس بات پر بڑے اتنا طنز کرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سنیارٹی سے وحشت زدہ ہو کر اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور آج بے روزگاری کی لعنت نے اسے یوں جکڑا ہے کہ نئی نسل نشے کی لت میں پڑ کر بے خودی کے اندھیرے میں چُھپ گئی ہے ،یقینا یہ نسل اپنے گم شدہ خواب مانگتی ہے ان کی تعبیر مانگتی ہے ،اس کا یہ احساس ِ محرومی دور کرنا ہوگا ،مہنگائی ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ تو تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے پس منظر کو اکثر سیاسی جماعتیں سامنے لانا گوارا نہیں کرتیں ،اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سابقہ ادوار میں اسٹاک مارکیٹ کی فنانسلائزیشن اور گھپلوں کی وجہ سے کئی مالدار مزید کھرب پتی ہوگئے اور کھربوں روپے کی سٹاک مارکیٹ ٹیکس سے الرجک رہی ، شوکت عزیز نے انہیں ریلیف دے رکھا تھا یہی نہیں گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین نے عارضی معاشی سرگرمیوں کیلئے کنزیومر ازم کو فروغ دیا جس کے منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے ،کھربوں روپے کے قرضے منظور نظر افراد کو 5سے6فیصد سود کی شرح پر دیے گئے ،جبکہ ڈیپازٹرز کو کچھ نہیں دیا ان کے حصے میں آنے والی اربوں روپے کی رقم بھی قرضوں کی صورت میں ان مالداروں کو ملی جنہوں نے شیئر مارکیٹ اور ریئل سٹیٹ کی سٹے بازی سے خوب کمایا جس سے زر کا پھیلائو ہوا اور قیمتیں قابو سے باہر ہوگئیں ،انڈسٹرلائزیشن کے بجائے سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ میں آسان کمائی میں پیسہ لگا دیا کنزیومر ازم سے کریڈٹ کارڈ اور لیزنگ سے قوت خرید مزید کم ہوگئی ، مہنگائی کو کم کیسے کیا جائے اس کا آسان حل یہ ہے کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان آرڈیننس 2007پارلیمنٹ میں بل کی صورت میں ایکٹ بنانے کیلئے پیش کیا جائے اس میں وقت کا وزیر اعظم صرف ایک شق کا اضافہ کرادے ۔کارٹل اور گٹھ جوڑ جنہیں اب سول خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے اور گٹھ جوڑ کرکے اشیائے صارفین اور اشیائے سرمائے کی بہت زیادہ قیمت مقرر کی جاتی ہے ،پرائس فکسنگ کارٹل بنانے والوں کو موجودہ قانون میں صرف جرمانہ کیا جاسکتا ہے لیکن کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان آرڈیننس مجریہ 2007میں جو ترمیم کرنا ہوگی اس میں گٹھ جوڑ کرکے قیمتیں فکس کرنے والے سارے کارٹل کے ممبر کارخانے داروں ،ٹریڈ گروپوں کے سربراہوں مجرمانہ خلاف ورزی کے جرم میں جرمانے اور قید دونوں سزائیں دی جائیں ،یہ اپنے منشور میں شامل کریں اس شق کو سابق وزیر اعظم ،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے دلال شوکت عزیز نے نہ صرف شامل نہیں ہونے دیا بلکہ آرڈیننس کے ابتدائی ڈرافٹ میں شامل کرائی گئی اس شق کو اپنی کابینہ کے آخری ایام کے اجلاس میں مسودے سے خارج کردیا۔ (ختم شد )


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر