... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
دمہ ایک ایسا مرض ہے جو ساری دنیا میں عام ہے یہ ایک لاعلاج مرض ہے لیکن اس کو ادویات اور احتیاط کے ذریعے قابو کیا جاسکتا ہے۔ دمہ سانس کی نالیاں جو کہ پھیپھڑوں میں ہوا کی آمدورفت کو ممکن بناتی ہیں سوزش کا شکار ہوکر سوج جاتی ہیں اور ہوا کے گزرکے لیے جگہ تنگ ہوجاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے ہوا کی تر سیل کم ہوجاتی ہے۔ اور بعض اوقات رک جاتی ہے نالیوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے خرخراہٹ کی آوازیں بہت واضح ہوجاتی ہیں اور سینے میں سختی یا بھاری پن محسوس ہوتا ہے اور کھانسی کے ساتھ ساتھ سانس لینے میں دشواری بھی محسوس ہوتی ہے۔ دمہ کے مریضوں کو صبح اور رات کے وقت خاص طور پر ان تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دمہ کے مریضوں کی عام حالت کورونا کی علامات سے مختلف نہیں، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا دمہ کے مریضوں کو ہر وقت ہی رہتا ہے، ایسے میںماہرین صحت نے دمہ کے مریضوں کو خصوصی احتیاط کرنے اور بلا ناغہ دوا استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔سڈنی سے تعلق رکھنے والے پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر برائن اولیور کا کہنا ہے کہ دمے کے مریض لوگوں سے ملنے جلنے سے پرہیز کریں، اگر کوئی دوائی زیر استعمال ہے تو اسے بلا ناغہ جاری رکھیں۔عالمی ادارہ صحت نے بھی اس سے قبل امراض قلب، ذیابیطس، سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے کورونا سے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ دمے کے مریضوں میں کورونا کی تشخیص کے حوالے سے ڈاکٹر برائن نے کہا کہ اگر دمے میں مبتلا شخص کو اس کی زیر استعمال دوائیوں سے کوئی فرق محسوس نہیں ہورہا تو فوراً ہی اپنا کورونا کی تشخیص کا ٹیسٹ کروائے تاکہ ابتدائی علامات میں ہی علاج ممکن ہوسکے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی عمر کے لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ مگر عمررسیدہ یعنی بزرگ اور ایسے افراد جو پہلے ہی کسی بیماری مثلاً (دمہ، شوگر، عارضہ قلب، کینسر) میں مبتلا ہیں، اس وائرس کی وجہ سے ان کی بیماری سنگین ہو سکتی ہے۔
ایک عام اندازے کے مطابق پوری دنیا میں تقریباً 300 ملین لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں اس مرض کو پھیلانے والے عوامل میں ہو ا میں پائے جانے والے جراثیم (الرجن ) ، ماحولیاتی و فضائی آلودگی ، دھواں، دھول مٹی ، سرد ہوا، ایکسرسائز ، پھیپڑوں یاہوا کی نالی کا انفیکشن ، سیگریٹ یا مچھر مارنے والے کو ائل کا دھواں ، حیوانی فضلہ ، پرفیوم ، ایرفریشنر ، پینٹ ، بعض ادویات ، ڈپریشن اور ایسی غذا کا استعمال جس میں سلفائیڈ موجود ہو۔دمہ کے مرض کی عام علامات سانس لینے میں دشواری ، پینے میں دردیاسختی ، کھانسی خرخراہٹ کی وجہ سے سانس لینے کے دوران سیٹی نما آواز نکلنا ہیں۔دمہ کی وہ حالت جسمیں مریض کی علامات بری طرح بگڑ جاتی ہیں۔ یہ حملہ اچانک ہوتا ہے۔ اسکی شدت کم ، درمیانی یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات دمہ کے حملوں میں ہوا کی نالیاں پوری طرح بند ہوجاتی ہیں اور ہوا کی آمدورفت بلکل رک جاتی ہے جس کی وجہ سے جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور آکسیجن کی مقدار کم ہوجاتی ہے ایسی صورت میں مریض کو فوراً ہسپتال لے جانا ضروری ہوتا ہے بعض اوقات دمے کے مریض کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ اس کے لیے دو قدم چلنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔
حال ہی میںامریکی ادارے ایف ڈی اے نے دمے کا نیا طریقہ علاج دریافت کرنے کا دعوی کیا ہے جسے برونیکل تھرموپلاسٹی کا نام دیا گیا ہے۔اس علاج کے تحت تپش کے ذریعے مریض کی ہوا کی نالیوں کو بڑا کیا جا سکتا ہے۔امریکہ میں حالیہ تحقیق سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ نسل، عمر اور جنس کے بعض گروپوں میں دمہ زیادہ عام ہوتا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ بچپن میں غذا ور ماحولیاتی عناصر سے الرجی کی شکایت پیدا ہونے والوں کو بالغ عمر میں دمے میں مبتلا ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق دمے کا کوئی مستقل علاج تو نہیں ہے البتہ احتیاط اور لائف اسٹائل کو بہتر بناکر اس پر قابو پایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ برونیکل تھرموپلاسٹی سے سانس کی نالیوں کو بڑا کرنے سے کھانسی کے دورے اور سانس کی نالیوں میں دباوکو کم کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دمہ کو ادویات اور احتیاط کے ذریعے کنٹرول کرکے نارمل زندگی گزاری جاسکتی ہے۔