... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کیا انڈیا میں مسلمان خوف اور بے بسی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں عدم اتحاد کی وجہ سے اسلام دشمن مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں انڈیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی ویڈیو ہے، اسے جس نے بھی دیکھا وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکا۔ واقعہ ہی ایسا تھا کہ ہر مسلمان کا خون کھول اٹھا۔ ویڈیو دہلی کے اندر لوگ علاقے کا تھا جس میں ایک پولیس انسپکٹر نماز جمعہ کی ادائیگی میں مصروف مسلمانوں کو ایسے ٹھوکریں مار رہا ہے جیسے وہ انسان نہیں حیوان ہوں پولیس انسپکٹر نماز ادا کرنے والوں کو دھکے ہی نہیں دے رہا تھا بلکہ ان کو تھپڑ بھی مار رہا تھا۔ نیت باندھے ہوئے نمازی ادھر ادھر کر رہے تھے، یہ منظر اتنا تکلیف دہ اور توہین آمیز تھا کہ اسے دیکھ کر ہر مسلمان کا خون کھول اٹھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی۔
علاقہ کی جس مکی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جا رہی تھی وہاں کے لاؤڈ اسپیکر سے باقاعدہ امن و امان برقرار رکھنے کی اپیل کی گئی حالانکہ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد دہلی کے مسلم علاقوں میں اتنی کشیدگی پھیل گئی تھی کہ پولیس کو وہاں اضافی بندوبست کرنا پڑا ۔ مسلمانوں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ مکی مسجد میں جگہ کی قلت کے سبب سڑک پر نیت باندھے ہوئے تھے۔ شرمناک واقعے کی ویڈیو آناً فاناًپوری دنیا میں پھیلی اور یہ سوال پوچھا جانے لگا کہ کیا ہندوستان میں اب نماز پڑھنا بھی جرم ہو گیا ہے اور ہندوستانی پولیس اتنی غیر انسانی ہو گئی ہے کہ وہ عبادت کرنے والوں کو بھی اپنی وحشت کا نشانہ بنا سکتی ہے ۔یہ وہی پولیس ہے جو اتر پردیش میں کانوڑ یا ترا نکالنے والوں پر ہیلی کاپٹر سے پھول برساتی ہے، ان کے لیے مہینوں عام شاہراؤں کو ہی نہیں بلکہ قومی شاہراہوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے تاکہ کانوڑیوں کو نقل وحمل میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔یہ سلسلہ دوچار دن نہیں مہینوں جاری رہتا ہے۔ قانون یاترا بھی سڑکوں کو گھیر کر نکالی جاتی ہے۔ اگر چند منٹ کے لیے مسلمان سڑک پر جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں تو ایسا کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ہے کہ پولیس انہیں دیکھ کر اپنا آپا کھو بیٹھتی ہے اور ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک پر اُتر آئی ہے۔ گویا نماز پڑھنے والے کوئی عادی مجرم ہو اور انہیں سرعام ان کے جرم کی سزا دی جا رہی ہو۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ نمازیوں کو ٹھوکریں اس وقت ماری گئی جب وہ خدا کے حضور میں سجدہ ریز تھے۔ اگر یہ ٹھوکریں کسی اور موقع پر ماری گئیں ہوتیں تو شاید اتنا اشتعال نہیں پھیلتا کیونکہ یہ ہندوستانی پولیس کا عام طرز عمل ہے اور وہ عوام کے ساتھ اسی طرح پیش آتی ہے۔ حالانکہ قانونی طور پر کسی بدترین مجرم کو بھی مارنا پیٹنا قانونا جرم ہے۔ کسی مجرم کو سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کو ہے۔ قانون کسی بھی ملزم یا مجرم کو زد و کو ب کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پولیس کی ٹھوکریں کھانے والے نہ تو کوئی عادی مجرم تھے اور نہ ہی انہیں کسی غیر قانونی سرگرمی میں گرفتار کیا گیا تھا بلکہ وہ عام مسلمان تھے اور اپنے رب کا حکم بجا لا رہے تھے لیکن انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اب اس ملک میں مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا جرم بنتا جا رہا ہے ۔پولیس کے طرز عمل میں اچانک تبدیلی کا سبب کیا ہے اس سے پہلے اسی مقام پر نمازیوں کے لیے پولیس کو خصوصی انتظامات کرنے پڑتے تھے۔ دہلی پولیس کا یہ مکروہ چہرہ دیکھ کر اب حیرانی ہوتی ہے جب سے ملک میں نیا نظام آیا ہے سب کچھ بدل گیا ہے۔ مسلمان اجنبی ہو گئے ہیں اور ان کی ہر حرکت و عمل پر نظر رکھی جا رہی ہے ۔یہاں تک کہ انہیں عبادت کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ ان کی مسجدوں کے خلاف مقدمے قائم ہو رہے ہیں ۔ہر تاریخی مسجد کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے کی شرنگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان کے مدرسوں اور مکتبوں کو بند کرنے کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ مزاروں اور مسجدوں کو ناجائز تعمیر قرار دے کر ان پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ واقعی بھارت بدل رہا ہے شمالی دھیلی کے اندر لوگ علاقہ میں نمازیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے والے سب انسپکٹر نریندر سنگھ تومر کو فی الحال معطل کر کے محکمہ جاتی کارروائی شروع کر دی گئی ہے لیکن یہاں سب سے زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ اس کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آئی کہ وہ عبادت میں مشغول مسلمانوں پر وحشیانہ انداز میں حملہ آور ہو گیا۔ کانگریس پارٹی کی ترجمان سپریہ شہر نیٹ نے وائرل ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے درست ہی لکھا ہے کہ امت شاہ کی دہلی پولیس کا مقصد امن خدمت اور انصاف ہے اور وہ بہترین کام کر رہے ہیں ۔
دراصل دہلی میں سرکار تو عام آدمی پارٹی کی ہے لیکن یہاں کا نظم و نسق براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ وہی پولیس ہے جس کی ایک ویڈیو 2020 میں شمال مشرقی دہلی کے ہولناک فساد کے دوران وائرل ہوئی تھی ۔ اس ویڈیو میں پولیس والے شدید زخمی مسلم نوجوانوں کو ہسپتال پہنچانے کے بجائے ان سے حب الوطنی کے نغمے سنانے کا مطالبہ کر رہے تھے بعد میں ان میں سے ایک نوجوان ہسپتال میں دم توڑگیا تھا۔ عدالت کی پھٹکار کے باوجود دہلی پولیس ان نوجوانوں کی شناخت نہیں کر سکی جو اس انسانیت سوز حرکت میں ملوث تھے۔ اندر لوگ کا واقعہ دراصل اس نفرت کا ہی نتیجہ ہے جو ایک منصوبے کے تحت اس ملک کے اکثریتی طبقے میں مسلمانوں کے خلاف بھر دی گئی ہے۔ یہ نفرت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو دیکھ کر دہلی پولیس کا ایک سب انسپکٹر اپنا آپا کھو بیٹھا ہے اور اپنا اخلاق اپنی تہذیب اور دیگر مذاہب کا احترام سب کچھ بھول کر ایک وحشی کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ ظاہر ہے بھارتی حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ہاں دنیا ان واقعات کو بڑی تشویش کے ساتھ دیکھ رہی ہے اور وہ اس پر فکر مند ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ہندوستان میں میڈیا اور سول سوسائٹی پر حملوں کی اطلاعت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے 2024 کے عام انتخابات سے قبل فوری اصلاحی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔اقوام متحدہ کے ماہرین نے آنے والے انتخابات سے قبل صورتحال کو مزید بگڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اس سے قبل واشنگٹن سے کام کرنے والی انڈیا ہیٹ لیب نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان میں نفرت کی سیاست تمام سابقہ ریکارڈ توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر میں 2023 کی دوسری ششماہی میں پہلی ششماہی کے مقابلے میں 62 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ہندوستان میں حالیہ کچھ عرصے میں ایسی تنظیموں اور گروپ میں اضافہ ہوا ہے جو ملک میں نفرت انگیزی کے لیے ذمہ دار ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ دہلی کے اندر لوگ علاقہ میں سجدہ ریز مسلمانوں کے ساتھ پولیس کا وحشیانہ سلوک اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔