... loading ...
حمیداللہ بھٹی
بھارتی پارلیمنٹ دوایوانوںلوک سبھا( ایوانِ زیریں) اورراجیہ سبھا(ایوانِ بالا)پر مشتمل ہے آئین کے آرٹیکل 83کے تحت بھارتی لوک سبھاکی مدت پانچ برس مقرر ہے جو آئندہ ماہ 24جون کوختم ہو رہی ہے جس کے اراکین کاانتخاب کرنے کے لیے ایک ارب چالیس کروڑ آبادی پر مشتمل بھارت کیا فیصلہ کرتا ہے یہ جاننے کے لیے دنیا بے چین ہے 17 ویں مرحلہ وار عام انتخابات سات مرحلوں میں مکمل کرانے کامنصوبہ ہے۔ پہلے مرحلے کا آغاز گزشتہ ماہ اپریل کو ہوا تھااختتامی ساتویں مرحلے کی تکمیل کے لیے یکم جون کی تاریخ رکھی گئی ہے جس کے بعد چار جون سے گنتی شروع ہوجائے گی اور پھراسی روزکی شام تک نتائج موصول ہونے کاآغاز ہوجائے گا البتہ مکمل نتائج چھ یا سات جون تک سامنے آسکتے ہیں ۔بھارت کے عام انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ووٹر ہوں یا سیاسی جماعتیں ،سب کو انتخابی نظام پرکامل اعتماد ہے ۔اِکا دُکا شکایات کے باوجود عام طور پر سبھی نتائج قبول کرلیتے ہیں یہاں حکومت پر نہ تو اپوزیشن دھاندلی کاالزام لگاتی ہے نہ ہی کسی اِدارے کومداخلت کازمہ دارٹھہرایا جاتاہے ۔انتخابی مُہم انتخاب سے اڑتالیس گھنٹے قبل ختم کرنالازم ہے جس کے بعد انتخابی عملہ تعیناتی کے مقام پر جاکر آزادانہ ،منصفانہ اور شفاف طریقے سے ووٹ ڈالنے کے عمل کو یقینی بناتا ہے۔ حالیہ انتخابات چوالیس دنوں میں مکمل ہوں گے آبادی کی بنیادپرہی بھارتی قیادت اپنے ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتی ہے لیکن یہاں مذہبی رواداری وبرداشت اور مساوات دنیامیں پست ترین ہے ۔بھارتی ووٹروں کی کُل تعداد 970 ملین سے تجاوز کر گئی ہے اگر 2019کے عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو امسال مزید ڈیڑھ کروڑنفوس ووٹ ڈالنے کے اہل قرار پا چکے ہیں۔ بھارت کے انتخابی عمل کی خاص بات یہ ہے کہ مختلف، مذاہب،متضادمکاتب ِفکر،نسلی و لسانی تنائو،غربت و امارت کی تفاوت ،علیحدگی کی دودرجن سے زائدپُرتشددتحریکوں کے باوجودمعینہ مدت میں انتخابی عمل مکمل کیاجاتاہے ملکی نظام کی خوبی یہ ہے کہ یہاں ہر اِدارے کے سربراہ کو مدتِ ملازمت مکمل کرنے کے بعد سبکدوش ہوناپڑتا ہے کسی کوبھی ناگزیر تصورنہیں کیا جاتا ۔یہی عمل پالیسیوں کے تسلسل کا باعث اور بھارت کی جمہوری ومعاشی ترقی کا رازبھی ہے۔
2014سے مودی مسلسل وزیرِ اعظم ہیں وہ کانگرس سے باہر واحد سیاسی رہنما ہیں جو مسلسل دس برس اِس اہم عہدے پر فائز رہے۔ اب یہ منصب تیسری بار حاصل کرنے کے لیے جاری انتخابی میدان میں ہیں اور اپنی کامیابی کے لیے پُرعزم ہیں۔ ابتدامیںایسا بظاہر نظر بھی آرہا تھا کہ نہ صرف باآسانی جیت جائیں گے بلکہ بی جے پی اور اُس کی اتحادی جماعتیں فقیدالمثال نتائج کی نئی داستان رقم کریں گی کیونکہ راجیوگاندھی اور سونیا گاندھی کی اولاد راہول گاندھی اپنی بہن پریانکاگاندھی کے ساتھ مل کر بھرپور کوشش کے باوجود ووٹروں کوبڑی تعداد میںاپنی طرف مائل کرنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ راہول گاندھی کو تو اپنی خاندنی نشست سے بھی محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔پریانکا کسی حد تک مقبول ہیں کیونکہ اُن کے جلسوں میں عوام کی کثیرتعداد شامل ہوتی ہے لیکن شاید اپنے بھائی اور ماں کی پالیسیوں کی وجہ سے کسی کرشماتی کامیابی سے ہنوزدورہیں اِس کے باوجود ایسے کئی عوامل ہیں جن کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے کہ بی جے پی مقبولیت کھو رہی اور لوگ اُکتانے لگے ہیں تو بے جا نہ ہوگا راہول گاندھی کی بھارت جوڑ یاتراکے اثرات کے نتیجے میں مودی کی متعصب سیاست کے خلاف رائے عامہ ہموار اور سیاسی جماعتیں یکجا ہو رہی ہے جس کی روشنی میں مبصرین کی رائے ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج میں چاہے بی جے پی جیت جائے اور ایک بارپھر بڑی جماعت کے طورپر سامنے آئے لیکن یہ جیت نہایت کمزور ہوگی اور جس طرح تقسیمِ ہند کے بعد ساٹھ برس تک جواہرلال نہروکا خاندان اقتدارمیں رہنے کے بعد عدم مقبولیت کا شکار ہواکچھ ایسے ہی حالات مودی کی جماعت کے لیے بننے لگے ہیں۔
مودی کا خیال تھا کہ اُن کی جماعت رواں برس کے انتخابات میں لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے چار سو سے زائدباآسانی جیت جائے گی انتخابی عمل کی گہما گہمی کے آغاز سے قبل ایسا دعویٰ غیرحقیقی نہیں لگتاتھا لیکن تیرہ مئی کے چوتھے انتخابی مرحلے تک صورتحال کافی حد تک بدل چکی ہے جس کے تناظر میں مودی کے دعویٰ کھوکھلا لگتاہے اور نتائج سے قبل ہی ایسی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں کہ عام انتخابات میں حکمران جماعت کو غیر متوقع نتائج کا سامناہو سکتاہے کیونکہ ووٹروں کے رجحانات و خیالات کی روشنی میں چار سوتو ایک طرف حکومت تشکیل دینے کے لیے 272 نشستیں جیتنابھی مشکل ہے جس کی وجہ سے تیسری بار اقتدار میں آنے اورحکومت بنانے میں دشواری پیش آسکتی ہے شایدصورتحال بھانپ کر ہی مودی کا لب و لہجہ سخت اور کسی حدتک چڑ چڑاہوتا جارہا ہے۔ 2019میں بی جے پی کو 303نشستیں حاصل ہوئی تھیں اور این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس )میں شامل اتحادی جماعتوں کی حاصل کردہ نشستیں ملاکر تعداد 353ہو گئی۔ انتخابی سلسلہ شروع ہونے سے قبل اکثر تجزیہ کار اور سیاست کے نبض شناس رائے عامہ کی پسندیدگی جاننے کے لیے ہونے والے اکثر سروے نتائج کی بنیاد پر کہہ رہے تھے کہ دعوے کے مطابق 400بھلے نہ سہی لیکن 2019کے نتائج سے زیادہ مودی کانشستیں حاصل کر جانا نوشتہ دیوار ہے مگر موجودہ صورتحال کی بناپربھارت میں تبدیلی کی ہموارہوتی راہ واضح ہے جس پر بی جے پی کی قیادت توپریشانی،مایوسی اور بدحواسی کاشکار ہے ہی ،تجزیہ کار اور سیاست کے نبض شناس بھی اتنی جلدی رائے عامہ بدلنے پر حیران ہیں۔
ہمیشہ سے بھارتی سیاست میں پاکستان ایک اہم عنصر کے طورپر موجود رہا ہے انتخابی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھمکیاں دینا،آزادکشمیر حاصل کرنے کے لیے جنگ کرنااور سبق سکھانے کے دعوے کرناپسندیدہ مشغلہ رہاہے لیکن حیران کُن طورپر اب یہ عنصر ختم ہو چکااب مسلمانوں کو سبق سکھانے اور غیر موثر بنانے پر کام جاری ہے مودی کی طرف سے مسلمانوں کو گھس بیٹھیے اور زیادہ بچے پیداکرنے والی کمیونٹی قرار دینااسی سلسلے کی کڑی ہے یہ کہتے ہوئے انھیں شاید یہ یاد نہیں رہا کہ نہ صرف وہ خود چھ بھائی ہیں بلکہ اُن کے والد بھی چھ بھائی تھے خیرایسے ہی بے سروپا خیالات کی وجہ سے ہندواکثریت کے ووٹ حاصل کرنا مشکل ہونے لگاہے کیونکہ لوگ کہانیوں پر تو تب یقین کریں جب حقائق پوشیدہ ہوں۔
دس برس کی مودی حکومت کے دوران شرح نمو ، زرِ مبادلہ میں بہتری اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے باوجود اِس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ بھارت میں بیروزگاری تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے مہنگائی کا سلسلہ بھی رُک نہیں رہا بھارت نے دنیا کی
پانچویں بڑی معیشت بننے کی منزل حاصل ضرور کی ہے جس میں بڑاحصہ آئی ٹی پیداوارکی سالانہ برآمد چوبیس ارب ڈالر سمیت دیگر برآمدات میں اضافہ ہے ۔جی ڈی پی میں سالانہ بنیادوں پر اضافہ سات فیصد بھی سچ ہے مگر اِس کی بنیادنرسمہارائو اور من موہن سنگھ نے رکھی تھی۔ اٹل بہاری واجپائی نے مختلف مکاتبِ فکر میں ہم آہنگی پیداکرنے کے لیے قابلِ قدر کام کیا مودی کے دورمیں محض یہ ہوا کہ معاشی ترقی کا تمام تر فائدہ کارپوریٹ سیکٹر لے رہا ہے عام آدمی کو ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی سے بہت کم حصہ مل رہاہے جس کی وجہ سے امیر امیرتر جبکہ غریب مزید غریب ہورہا ہے جبکہ مزہبی ہم آہنگی کوتعصب میں بدل دیاگیاہے یہ عوامل عام آدمی کی سوچ اور خیالات میں تبدیل کا باعث بنے ہیں جس سے متوقع جیت بھی شکست میں بدل گئی ہے۔
کسانوں اور مزدوروں میں مستقبل کے حوالے سے مایوسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مستقبل کے اندیشوں اورکم ہوتے زرائع آمدن سے پریشان بھارت کا تعلیم یافتہ طبقہ بیرونِ ملک پناہ لینے اور روزگار تلاش کرنے پر مجبور ہے اِن حالات میں جب مودی دعویٰ کرتے ہیں کہ رواں برس کے عام انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعدملک کو دنیا کی تیسری بڑی معیشت بنادیںگے تو لوگ سوچتے ہیں کہ جب پانچویں بڑی معیشت بننے کے باوجوداُن کے حصے میں صرف مہنگائی اور بے روزگاری ہی آئی ہے تو تیسری معیشت بننے سے کہیں حالات مزیدہی ابترنہ ہوجائیں اسی لیے دعوئوں پر چونک کر تشویش کا شکارہوجاتے ہیں ۔
حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی آئین میں ایسی ترامیم کے خواہشمند ہیں جن سے پارلیمانی وفاقی نظام کوصدارتی جبکہ صوبوں کے مقابلے میں وفاقی نظام مضبوط ہوجنھیں کچھ حلقے جمہوریت کی آڑ میں ڈکٹیٹرشپ قائم کرنے کا منصوبہ قراردیتے ہیں ایسے ہی خدشات کو بنیاد بناکر مودی پراپوزیشن کا اٹھائیس جماعتی اتحادنہ صرف تنقیدبلکہ ہندوتوا بیانیے کوبے اثر کررہا ہے جس سے حکمران جماعت کے پائوں اکھڑنے لگے ہیں کیونکہ مسلمان اقلیت کے خلاف تعصب اورنفرت پھیلانے ،غیر موئثر اور غیر اہم بنانے کے باوجودہندواکثریتی ووٹرکادل جیتنے کا مقصدحاصل کرنے میں ناکامی سے دوچارہے جس سے بی جے پی کا سیاسی مستقبل تاریک اور مخدوش ہوسکتاہے بھارت میں تبدیلی کی لہراگر مودی کی شکست کازینہ ثابت ہوتی ہے تویہ کسی کے لیے باعث ِتعجب نہیں ہو گا ۔