... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت کی متعدد ریاستوں میں انتخابی فہرستوں سے مسلمان وووٹروں کے نام منظم طریقے سے حذف کیے جانے کی خبریں سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کے کارکن اور شہریوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔کشمیریہ انکشاف ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے لئے پولنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ریاست تلنگانہ میں سماجی کارکن سید قطب الدین مسعود نے یہ معلوم ہونے پر باضابطہ شکایت درج کرائی ہے کہ حیدرآباد کے علاقے بہادر پورہ میں ان کے اور خاندان کے دس افراد کے نام ووٹر لسٹ سے غائب ہیں۔قطب الدین نے جو تقریبا چار دہائیوں سے علاقے کے مستقل ووٹر اور رہائشی ہیں، اس کارروائی کوغیر قانونی قرار دیا اور انتخابی حکام سے شفافیت کا مطالبہ کیا۔اسی طرح کی شکایات اتر پردیش کے علاقے سیتا پور میں سامنے آئیں جہاں محمود آباد کے علاقے میرا نگر کا پورا مسلم علاقہ ووٹر لسٹ سے غائب ہے۔ علاقے کے شہریوں اور کارکنوں نے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیاہے۔دریں اثناء ریاست گجرات کے ضلع دیو بھومی دوارکا میں تقریبا 700ماہی گیروں کے نام جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں، ووٹر لسٹ سے نکالے گئے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے حکام کی طرف سے مناسب کارروائی کے دعوئوں کے باوجود غفور پٹیلیا جیسے لیڈروں نے مخصوص کمیونٹیز کو نشانہ بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان واقعات سے بھارت بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اورسیاسی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکن الیکشن کمیشن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت کویقینی بنانے اور جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی مکمل تحقیقات کرے۔
یہ بھارتی مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ 1947 کے بعد وہ کبھی بھی اپنے مفادات کیلئے متحد نہ ہوئے۔ اس کے نتیجے میں انہیں کبھی بھی اقتدار تو ایک طرف ، اقتدار میں قابل ذکر حصہ بھی نہ ملا جس کے بحیثیت آبادی وہ حق دار تھے۔ مسلم آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 543 نشستوں میں 150 نشستوں پر مسلم انتخاب ہو سکتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے بھارتی لوک سبھا میں مسلمانوں کی 70 نشستیں بنتی ہیں مگر ان کی تعداد کبھی بھی 45 سے زائد نہ ہوئی۔ 2004 میں مسلم نشستوں کی تعداد 35 تھی جو 2009 میں کم ہو کر 30 رہ گئی اور 2014 میں صرف 23 نشستوں پر مسلمان کامیاب ہو سکے۔
بے شک بھارتی مسلمان کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی حالت اچھی نہیں مگر وہ اس وقت ملکی آبادی کا 14.5 فیصد ہیں لہذا انتخابات کے موقع پر ان کو نظر انداز کرنے کا خطرہ کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں لے سکتی۔ بھارت کی 6 ریاستیں ایسی ہیں جہاں کم از کم ایک اور زیادہ 2 یا 3 نشستیں مسلمانوں کی ہونی چاہیئں مگر وہاں ایک بھی مسلم نشست نہیں۔ 102 ایسے حلقے جہاں مسلم ووٹرز کی ایک قابل ذکر تعداد بستی ہے۔26 سیٹیں ایسی جہاں مسلمان 30 فیصد ہیں اور 14 سیٹیں وہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ مہاراشٹر میں 84 ممبران منتخب ہوتے ہیں ۔ اس مرتبہ وہاں صرف ایک مسلم ممبر منتخب ہوا۔ یہاں آبادی کے لحاظ سے کم از کم 5 مسلم ممبران منتخب ہو سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں دہلی سے ناگپور 1500 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس ڈیڑھ ہزار کلومیٹر میں یوپی، ایم پی، چھتیس گڑھ اور مہاراشٹر کے علاقے آتے ہیں ۔ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی اتنی آبادی ہے کہ دس بارہ نشستیں جیت لینا کوئی بڑی بات نہیں مگر1500 کلومیٹر کے علاقے میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں۔
تعداد کے تناظر میں دیکھا جائے توکیا کوئی جماعت مسلمانوں سے منہ موڑ سکتی ہے؟ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں مگر ان کو ٹکٹ دینے کے نام پر خاموش ہو جاتی ہیں۔ بھارت کی ساری سیاسی پارٹیاں خود کو سیکولر کہتی ہیں مگر جب سیکولر ازم کا عملی مظاہرہ کرنے کا وقت آتا ہے تو کٹر ہندو بن جاتی ہیں۔ کانگریس تو سیکولر ازم کی سب سے بڑی دعویدار ہے۔ مسلمانوں سے ظاہراً ہمدردی بھی رکھتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ملک کی واحد جماعت ہے جسے مسلمانوں کے مفادات کی پرواہ ہے لیکن دوسری طرف پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کانگریس کو بھی پسند نہیں۔ سیکولرازم کے تمام تر دعوؤں کے باوجود کانگریس، راشٹر وادی کانگریس، بہوجن سماج پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی، راشٹریہ جنتا دل جیسی جماعتیں مسلمانوں کو سیاسی تحفظات دیے جانے کے مطالبہ پر اندھی، بہری، گونگی ہوجاتی ہیں۔ مسلمانوں سے ووٹ لینے کیلئے ان کو ڈرایا جاتا ہے ، دھمکایا جاتا ہے ، فرقہ پرستی کا خوف دلایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ہمیں ووٹ نہ دیا تو پورا بھارت گجرات بن جائے گا۔
گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض مودی سرکار نے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کو نشانے پر ہوا ہے۔ مودی سرکار نے بھارت میں مسلمانوں کی نمائندگی اور سیاسی طاقت کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے، اسکے علاوہ سرکاری نوکریوں اور سول سروسز کے اعلی امتحانوں میں ہر سال مسلمان امیدواروں کے اکثریت جان بوجھ کر کم رکھی جاتی ہے۔دوسری جانب بھارتی سول سروسز میں گزشتہ سال محض 6 مسلمان امیدوار منتخب ہوئے، مسلمان بھارت میں 200 ملین کی آبادی رکھتے ہیں جبکہ نام نہاد جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار نے مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ حال ہی میں مودی نے انتخابی مہم کے دوران اپنی تقریروں میں مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کیلئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا، 2014 سے قبل بی جے پی میں جو مسلم نمائندگی موجود تھی وہ مودی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ختم ہو کر رہ گئی۔بھارت اب ایسی ریاست بن چکا ہے جان بوجھ کر مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، مسلمانوں کی بھارت میں نمائندگی کو مٹانے میں مودی سرکار کا یہ مقصد پنہاں ہے کہ وہ تعلیم، نوکریوں، صحت اور دوسری تمام بنیادی سہولیات کا مطالبہ کرنے سے قاصر ہو جائیں۔ بھارت کی 14 فیصد سے زائد آبادی پر مشتمل مسلمانوں کی بی جے پی کے دور حکومت میں نمائندگی پانچ فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔مسلمان خواندگی، آمدنی اور تعلیم تک رسائی میں ہندوؤں، عیسائیوں اور ہندوستان کی نچلی ذاتوں سے پیچھے ہیں۔مودی سرکار کے بغض کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی بھارتی مسلمانوں کی کامیابی نہیں دیکھ سکتی، بی جے پی نے ہر لحاظ سے بھارتی سرزمین مسلمانوں کے لیے تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔