... loading ...
سمیع اللہ ملک
کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن پرلکھنے کودل توبہت مچلتاہے لیکن جب لکھنے کی کوشش کرنے لگیں تودماغ خالی ہوجاتاہے کہ کہاں سے شروع کروں اوراس کاانجام کیاہوگا؟اب بھلا ”ماں”پرکیالکھاجائے۔وہ موزوں الفاظ کہاں سے لاؤں جوممتاکی صحیح عکاسی کرسکیں، جو ماں کی مخلص دعاؤں کی درست ترجمانی کرسکیں،میرے لئے تویہ ممکن نہیں۔ہرقلمکارماں کے رشتے کوبہت عظیم لکھ کرمطمئن ہوجاتاہے لیکن میں اس کوایک اضافی لفظ سے زیادہ نہیں سمجھتاکیونکہ عظمتوں کے کوہ ہمالیہ کو خالی عظیم لکھ دیناکہاں کاانصاف ہے؟بالخصوص وہ مائیں جوجوانی میں بیوگی کابوجھ اپنے دل پراورزمانے بھرکی مجبوریوں ومشکلات کاتاج اپنے سرپرسجاکراپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش میں اپنی جوانی کے شب وروزقربان کردیتی ہے جبکہ یہ ضروری نہیں کہ اس ظالم اوربے حس معاشرے میں انہیں ان قربانیوں کاصلہ بھی ملے۔
قارئین کی طرف سے”کتنامشکل ہے جینا….مدرڈے”مضمون کے بعدپیغامات کاایک لامتناہی سلسلہ اورمختلف اورخوبصورت الفاظ سے مرصع احساسات کے کئی گلدستے میرے دامن میں بھردیئے گئے ہیں جن میں ایک یہ پرزورمطالبہ بھی کیاگیاہے کہ جن کی مائیں اس دنیاسے رخصت ہوگئیں،ان کے بارے میں کچھ نہیں لکھاگیاجبکہ نصف صدی سے زندگی کاکوئی ایسالمحہ نہیں گزرا، جب مرحومہ والدہ محترمہ ایک پل کیلئے بھی جداہوئی ہوں۔آج بھی کسی ماں کی جدائی کاسنتاہوں توبے اختیاراپنی ماں کاچہرہ سامنے آجاتاہے کہ جوہر مشکل میں اپنے سینے سے لگاکرایسی تسلی دیتی تھی کہ ساراغم کافورہوجاتاتھا۔میں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ ماں کے بغیربھی جی سکتے ہیں۔
ماں چلی گئی،کہیں بادلوں کے پار،اس کاکمرہ خالی کیاہوا،ہرچیزسونی ہوگئی،گویازندگی کے سارے رنگ ہی روٹھ گئے۔ماں کے رخصت ہونے کے بعدایک دن مولوی صاحب کو بلایا تووہ مسجد سے کئی درجن بچوں کوبھی قرآن پڑھنے کیلئے ساتھ لے آئے۔ سینکڑوں کی تعدادمیں احباب بھی قرآن خوانی میں مشغول تھے گویاہم سب ماں کی جدائی کاادھارلوٹانے کیلئے اپنے تئیں یہ سب کچھ کررہے تھے۔ماں کوجتنے کھانے پسندتھے،سارے تیارکروائے،حالانکہ ہم سب کوعلم ہے کہ ماں توساری عمرہمارے پسندکے کھانے بناتی رہتی تھی،سخت گرمی میں پسینہ سے شرابور ہماری سیواکیلئے،اپنے شوہراورخاندان کے ہرفردکیلئے سارادن مختلف انواع واقسام کے کھانے بناتے ہوئے کبھی شکائت زبان پرنہیں آئی،درجنوں مہمانوں کی خاطرمدارت کیلئے کیا کچھ نہیں بنتاتھالیکن سب کچھ ختم ہوجانے پرخود بڑی سادگی سے پیاز،نمک مرچ کی چٹنی کوٹ کرروٹی یہ کہہ کرکھالیتی کہ ڈھیرساراکھاناپکاکرمیرا جی بھرگیا،اس لئے چٹنی سے روٹی کھانے کودل چاہ رہاتھا۔
لیکن آج ان کی رخصتی پرسارے کھانے بڑے اہتمام کے ساتھ تیارکروائے گئے،پہننے کیلئے اس نے اپنے لئے دویاتین سوٹ ہی رکھے تھے لیکن آج جیسے کپڑے پسند تھے،سب وہ بھی لاکررکھے کہ یہ تمام اشیابعدمیں غریبوں میں تقسیم کریں گے۔اپنی زندگی میں ماں جو کچھ اپنے پیاروں کیلئے کرتی رہی،آج وہ سب کچھ اسی طرح دہرایا گیا۔امام صاحب نے قرآن خوانی کے اختتام پردعاکیلئے جب ہاتھ اٹھائے ہوئے اللہ سے مانگنے کاعمل شروع کیاتواونچی آواز میں ہم سب کوکہاکہ جوکچھ اللہ سے مانگناہے،خوب مانگو۔مجلس میں سب نے بندآنکھوں اورگردن جھکائے، چہرے پربڑی عاجزی لاتے ہوئے امام صاحب کی ہردعاپراونچی آوازمیں آمین کہناشروع کردیالیکن مجھے تومانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آتاتھاکہ ماں کے ہوتے ہوہے کبھی مانگناہی نہیں پڑااورکبھی ایساسوچاہی نہیں تھاکہ ماں چلی جائے گی اورماں کایہ کام مجھے خودکرناپڑے گا۔میری آوازکوتوآسمان کی طرف جانے کاراستہ ہی معلوم نہیں تھا،کبھی اپنے لئے مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ یہ ساراحساب کتاب اوریہ ساراسلسلہ ماں نے سنبھال رکھاتھا۔ یہ زندگی تب تک ہلکی اورآسان رہی جب تک سارے بوجھ ماں نے اٹھائے ہوئے تھے۔
مجھے یادہے کہ جب میں پڑھنے کیلئے ملک سے باہرتھا۔امتحانات سرپرتھے،تیاریوں میں مصروف تھا،اس لئے ہفتہ وارجوماں کو فون کرتاتھا،وہ کرنہیں سکا۔ان دنوں فون کی ایسی سہولت نہ تھی جوآج میسرہے،ہفتے کے بعدباقاعدہ پوسٹ آفس جاکرٹرنک کال بک کروانی پڑتی تھی جوتھوڑے انتظارکے بعدباری آتی تھی۔سوچاکہ اگلے ہفتے کرلوں گا۔ہروقت یہ پلان کرتارہتاتھاکہ ڈگری مل جانے کے بعداچھی جاب تومل ہی جائے گی توماں کواپنے پاس ہی بلالوں گا۔یہی سوچ کر اپنے دل کوتسلی دیتارہا۔اندرسے آوازآئی کہ ”ٹھیک ہے تم کوئی غلط نہیں سوچ رہے،کیرئیربنانے کی گھڑی ہے،میل ملاقاتوں کیلئے توساری زندگی پڑی ہے۔ لیکن یہ جو سوچ ہے،اس کااحساس اس وقت تونہیں ہوالیکن آج جب اس جرمِ عظیم کااحساس ہوتاہے توضمیرخودسے جواب دیتاہے کہ” ارے نادان لمحے کی خطا،صدیوں کی سزا……کواب بھگتو”!
ان سوچوں کے الفاظ کاکھوکھلاپن آج چیخ چیخ کرحساب مانگ رہاہے کہ جس ماں نے میری ضروریات اورمیرے حق سے بھی بڑھ کردیا،میں نے اس ماں کی حق تلافی کیونکرکر دی ؟ یہ کیوں نہ سوچاکہ میری آوازسننے کیلئے ساراہفتہ کس کرب سے گزارا،میری جدائی کے ہرہرلمحہ کس قدرتڑپ کرمیری سلامتی کیلئے دعاؤں میں گزاراہوگااورمیں نے اپنے امتحانات کی تیاری کابہانہ بناکرخودکو تسلیاں دیناشروع کردیں جبکہ میرااصل امتحان اوراس کی دائمی خوشی تویہ ہونی چاہئے تھی کہ میں اس کے ایک ایک سانس میں اسی طرح خوشیاں بکھیرتا، جس طرح اس نے مجھے اپنے ہرسانس میں بسارکھاتھا۔یہ نہ سوچاکہ تمہارے کیلنڈرپردن،مہینے اورسال باقی ہوں گے،تم نے یہ کیونکرسوچ لیاکہ اگلے ہفتے یاپھر کبھی بات کرلوں گا لیکن تیرے ذہن میں یہ کیوں نہ آیاکہ اس ماں کاتوہرسانس مغرب میں ڈوبتے سورج کے ساتھ غروب ہورہاہے۔
کیاکبھی تم نے اپنی ماں کوغور سے دیکھاکہ تمہیں”سوہناسوہنا”کہتے ہوئے اس کے سر کے سارے بال چاندی ہوگئے ہیں۔کاش تم نے اس وقت یہ سوچاہوتایااپنے اندرکے خود غرض بیٹے کویہ کہہ کرڈانٹ دیاہوتاکہ اگلا ہفتہ کس نے دیکھاہے؟تم یہ سوچتے ہوئے فوری اٹھتے کہ اس سے بڑھ کراورکیاخوشحالی ہوگی کہ آج ایک دفعہ پھرماں کی رس بھری آواز سے کانوں میں سچی اورپرخلوص لعل وجواہرات کی برسات ہوگی۔
سناہے بلکہ یقین ہے کہ ایک جنت ہے جہاں شہداوردودھ کی نہریں بہتی ہیں،خوش نماباغات میں پریوں کی شکل میں حوریں رہتی ہیں،وہاں کوئی دکھ نہیں ہے،کوئی دردنہیں ہے،خوشی پرکوئی پہرہ نہیں ہے،ہنسی پرکوئی شرط نہیں ہے،بن مانگے خوبصورت بادل ہیں،اوربن
مانگے ہی حسین اجالادل کولبھانے کیلئے ہے،وہاں راتوں سے میٹھے دن ہیں اوردن سے روشن راتیں ہیں اوربھی کئی خوبصورت باتیں ہیں لیکن یہ سب ابھی کسی آنکھ نے دیکھانہیں ہے،سنی سنائی باتیں ہیں لیکن یہ سب توآنے والے کل کی باتیں ہیں،لیکن بغل کے کمرے میں جہاں ماں رہتی تھی،اس کے قدموں میں تویہ جنت رہتی تھی،اس سے بے اختیارلپٹنے اورچمٹنے سے محرومی آج کیوں ستاتی ہے۔
آنکھیں توہم سب کے پاس ہیں لیکن کبھی ہم نے یہ سوچاکہ ماں کے پاس تودوربین بلکہ خوردبین ہوتی تھی۔گھرمیں کچھ کھوجائے تووہ صرف ماں کوملتاتھا۔میرابٹوہ،بہن کے سرکا کلپ یادوپٹہ،والدصاحب کی گھڑی،داداجان کی چھڑی،کچھ بھی ماں کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتاتھالیکن ماں جوچیزچھپادے،اسے کوئی ڈھونڈنہیں سکتاتھا۔میں نے بارہا کوشش کی،گھرکاایک ایک کونہ چھان مارا لیکن مجھے وہ دکھ نہیں ملے جوماں نے کہیں ہم سب سے چھپاکررکھ دیئے تھے،وہ دردنہیں ملے جوکسی اندھیرے تہہ خانے میں دباکررکھ دیئے تھے۔ایک ایک الماری اورگھرکے ہرکمرے کاایک ایک انچ چھان مارالیکن مجھے وہ سپنے نہیں ملے جوہمیں جوڑنے کیلئے ٹوٹ گئے تھے،بسترکی ایک ایک تہہ کھول دی،وہ آنسو نہیں ملے جوکسی تکئے کے غلاف میں جذب ہوکرسوکھ گئے تھے۔
ہاں،یقینااس لکن میٹی میں ماں توجیت گئی لیکن ہم سب ہارگئے،ہمیں اس ہارنے پرکوئی شکائت نہیں،جوچھپادیا،اس کی کوئی پرواہ نہیں لیکن تم اتنے برسوں سے ہماری بہترین تربیت کرکے اپنے قدموں کی جنت ہمارے حوالے کرکے خودجنت کے کسی عالی شان محل میں جاچھپی ہو،وہاں آپ کو کیسے ڈھونڈکرلاؤں۔ ہم سب تواب بھی چشم تصورمیں تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں، گھر کے ہرکونے میں تلاش کرتے ہیں،یہ توکبھی سوچاہی نہیں تھاکہ اگرتم چھپ گئی تومیں تجھے کیسے ڈھونڈپاؤں گاکیونکہ میری آنکھیں توتمہاری طرح کی دوربین یا خوردبین نہیں ہیں کہ پھرسے تیراہنستامسکراتاہواچہرہ ڈھونڈلاؤں۔
ماں!لکن میٹی بہت ہوگئی،چھپن چھپائی بھی کافی ہوگئی،اب تھک گیاہوں،اب کیاصرف خوابوں میں آکرہی اپناحال احوال بتایاکرو گی؟