... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں عام انتخابات کے چوتھے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا۔جس میں 9 ریاستوں اور مقبوضہ کشمیر سمیت 96 نشستوں پر ووٹ ڈالے گئے جہاں مجموعی ٹرن آؤٹ 62.9 فیصد رہا۔2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پہلی مرتبہ انتخابات ہوئے جہاں سری نگر کی نشست پر ووٹنگ ہوئی۔مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ڈرامے کی آڑ میں بھارتی فورسز نے بھاری نفری تعینات کی جبکہ لوگوں کی نگرانی کیلئے ڈرون سمیت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ نے بھی اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔1996 کے بعد سے پہلی مرتبہ بی جے پی نے کشمیر کی تین نشستوں پر کوئی امیدوار کھڑا ہی نہیں کیا۔سری نگر میں نیشنل کانفرنس،پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان مقابلہ ہے۔ دوسری جانب آندھرا پردیش، تلنگانہ، جھاڑکھنڈ، اڑیسا،یوپی، مدھیہ پردیش، بہار، مہاراشٹر، مغربی بنگال کی نشستوں پر ووٹنگ ہوئی۔چوتھے مرحلے کے اہم امیدواروں میں اسد الدین اویسی، شتروگھن سنہا، سابق کرکٹر یوسف پٹھان،اکھلیش یادو شامل ہیں۔بھارت میں انتخابات کا اگلا مرحلہ20 مئی کو ہوگا اورنتائج کا اعلان 4 جون کو ہوگا۔تجزیہ کاروں کے مطابق شدید گرمی کی وجہ سے لوگ ووٹ دینے کے لیے کم پہنچ رہے ہیں۔بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تھا، جس کے بعد وادی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکز کے ماتحت کردیا گیا تھا۔آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد لداخ کو الگ جب کہ جموں و کشمیر کو الگ مرکزی علاقہ قرار دیا گیا تھا اور اب وہاں وادی کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پہلی بار لوک سبھا کے انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی۔مجموعی طور پر مقبوضہ جموں و کمشیر میں لوک سبھا کی پانچ نشستیں ہیں، جن میں سے ایک نشست پر پہلے ہی مرحلے 19 اپریل کو ووٹنگ ہوگئی۔
بھارت کی آٹھ لاکھ افواج کی موجودگی میں منعقد کرائے جانے والے انتخابی ڈرامے کی کوئی ساکھ اور اہمیت نہیں ہے اور یہ ایک جمہوری عمل کی بجائے محض ایک فوجی آپریشن ہے جس میں بھارت کی ہوم منسٹری ، خفیہ ایجنسیاں اور فوج کا بالواسطہ طور عمل دخل موجود ہے۔ بھارت بجلی اور پانی کے نام پر مانگے جانے والے ووٹ کو تحریک آزادی کشمیر کے خلاف ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی فورموں میں اس کو جبری الحاق کی توثیق کے طو رپر پیش کیا جاتا ہے۔ کشمیری اصولی طور جمہوریت کے مخالف نہیں ہیں البتہ جموں کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس پر بھارت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ جمالیا ہے۔ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا مقصد عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔
انتخابات سے قبل مقبوضہ کشمیر میں فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں نے چھاپوں، تلاشیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ پولیس اور بھارتی فورسز کی مختلف ایجنسیاں رات کے دوران گھروں میں چھاپے مارتی ہیں۔ تلاشی کے بعد کئی نوجوانوں کو گرفتار بھی کر لیا جاتاہے۔ بھارتی فوج کی ان کاروائیوں سے عوامی حلقوں میں خوف ودہشت کی لہردوڑ گئی ہے۔ گرفتار شدگان میں سے بعض نوجوانوں کو پوچھ گچھ کے دوران نیم مردہ حالت میں رہا کر دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کے موقع پر بھی بھارتی چیرہ دستیوں میں اضافے کے باوجود کشمیری عوام نے بھارت کے اس ڈھونگ کو ناکام بنا دیا ہے۔کشمیری بھارتی الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نواز سیاستدانوں کے خلاف کشمیری عوام کی نفرت بڑھ رہی ہے۔ بھارتی فوج جس طرح بے گناہ کشمیریوں کو مجاہدین قرار دے کر شہید کر رہی ہے۔ اس سے عوام کے دلوں میں نفرت مزید بڑھ رہی ہے۔ مجاہدین بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے جدو جہد آزادی کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی یہ صورتحال بھارتی قیادت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہیے۔ بھارتی لیڈروں کو اب یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ وہ زیادہ دیر تک کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔ لہذا وقت آگیا ہے کہ بھارتی قیادت اس تنازعہ کو حل کرنے لئے پاکستان سے نتیجہ خیز مذاکرات کرے کیونکہ اس کے بغیر خطہ میں امن ممکن نہیں ہوگا۔
ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کی تحریک ہے اور کشمیر کے مسئلے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی طور پر حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے پاکستان کے عوام گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ اسے کسی طرح بھی دہشت گردی کا نام نہیں دیاجا سکتا۔ پاکستان کے اس اصولی مؤقف کا تقاضا ہے کہ تمام انصاف پسند اقوام کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے بھارت پر اپنا دباؤ ڈالیں اور بھارتی افواج کے مظالم بند کرائیں۔کشمیریوں نے بھارت کا انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا ہے کیونکہ انتخابات رائے شماری کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ عالمی برادری کا یہ فرض ہے کہ وہ مقبوضہ ریاست میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کرے۔ بھارت کو زمینی حقائق تسلیم کرنا ہوں گے اور کشمیریوں کو ان کے غصب شدہ حقوق دینا ہوں گے۔ بھارتی فوج کشمیر میں جن انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔