وجود

... loading ...

وجود

اُف ! یہ جذباتی بیانیے

هفته 18 مئی 2024 اُف ! یہ جذباتی بیانیے

زریں اختر

سینیٹر فیصل واوڈا کے بیان پر مشتمل خبر پڑھی تو جذبات اور جذباتیت سے متعلق کئی خیالات آئے ۔ انسان کی تعلیم و تربیت کا اہم پہلو انسانی جذبات کی تہذیب ہے جو فطرت کی طرف سے ودیعت کیے گئے ہیںاور بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ غصّے کی کیفیت میںجذبات کو قابو میں رکھنا ایک بڑی اور اعلیٰ کامیابی ہے جو آدمی خودپر حاصل کرتاہے۔ فلسفے کے اُستاد ڈاکٹر منظور احمد کے گھر ہر مہینے کے آخری اتوار کی صبح دس تا ایک ہونے والی فکری نشستوں میں ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ‘برصغیر کے باشندوں کا ایک تجزیہ کیوں کہ یہ گرم و مرطوب خطّہ ہے ، یہ کیا جاتا ہے کہ یہاں بسنے والے جذباتی ہوتے ہیں، ایک اور جذباتیت کا پہلو ان کا مسلمان ہونا بھی ہے’۔اس بیان کے کئی پہلو ہیں ۔ عرب بھی گرم خطّہ ہے اور وہاں بھی جذباتیت زیادہ ہے ،یا یوں کہ کیا امریکہ میں ہم نے ستمبر گیارہ کے بعد بش کو جذباتی نہیں دیکھا۔یہ سب ہے لیکن اگر ہمیں دوسروں میں خامیاں تلاش کیے بغیر خود کو درست کرنا اور رکھنا ہے تو؟
کمرئہ امتحان میں میری ڈیوٹی تھی ۔ یہاں طالب علم کیا لکھوں کہ وہ نقل کرنا چاہ رہے تھے۔ مجھے وہاں سے ہٹا دیاگیا ،میں وہاں سے غصے میں ایک جملہ بولتی ہوئی نکلی جس پر اس وقت کے شعبہ انچارج (ٹی اے) کے چہرے پر ایک تاثر آیا لیکن انہوں نے کچھ کہا نہیں اور خود ڈیوٹی سنبھال لی۔ میں نے یہ واقعہ ڈاکٹر منظور احمد کو سنایا ، انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ کو جذباتی ہوکر کوئی جملہ بولنے کی ضرورت نہیں تھی ، وہ انچارج ہیں ،انہوں نے آپ کو ہٹایا ، آپ کو چاہیے تھا کہ خاموشی سے ہٹ جاتیں۔
ماحول اپنا کام کرتاہے ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ ہم ماحول کے زیر ِ اثر کوئی روّیہ اختیار کرلیتے ہیں اور بعد میں خود ہی شرمندہ ہوتے ہیں۔ اس کا حل ‘داستانِ فلسفہ ‘ کے مصنف وِل ڈیورینٹ (مترجم سید عابد علی عابد) نے یہ بتایا ہے کہ ‘اگر ماحول کے شخصیت پر بر ے اثرات پڑ رہے ہوں تو ماحول تبدیل کرلیں’۔یہ اتنا آسان کہاں؟کہاں چلے جائیں ؟ بھاگ کے کہاں جائیں؟
سیاست دانوں کے مزاج کی تربیت، کسی بین الاقوامی فورم پر کسی ملک کے نمائندے کا کوئی مسودّہ پھاڑنا کیسا ہے؟ انتظار حسین کا کالم بعنوان ‘تشدد کی زبان’میں انہوں نے سیاسی نمائندوں کی ٹیلی وژن کے مذاکراتی پروگراموں میں بولی جانے والی زبان پر بڑی تشویش کا اظہار کیاتھا ،ان کا موقف تھا کہ اگر سیاسی رہنما ٹی وی پر آکر ایسی زبان بولیں گے تو ان کے کارکنان سڑکوں پر کیا کریں گے؟
ایم اے کے بعد ابتدا میں جب اخبار میں رپورٹنگ کی تو سندھ کے گورنر نصیر اللہ بابر کے بیان کو من و عن لکھ دیا ۔ چیف رپورٹر نے کہا کہ یہ کیا لکھا ہے ، میں نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسے ہی کہا تھا، چیف رپورٹر نے جواب دیا کہ آپ یہ سمجھیں کہ انہیں زبان نہیں آتی ، آپ کو آتی ہے۔تو معروضیت کا کیاکریں؟ جیسی زبان کوئی بول رہا ہے ویسی ہی لکھ کر عوام کو یہ بتائیں کہ یہ ایسا بولتے ہیں تاکہ عوام سمجھیں کہ ایسا تو نہیں بولنا چاہیے یا نہ لکھیں کہ سیاست دان بولے سو بولے صحافی کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے یا ایسا اخبارات میں نہیں چھپنا چاہیے یا اس لیے کہ ایسی زبان سے سیاسی جماعتوں کے کارکنان محفوظ رہیں ،لیکن وہ تو جلسوں میں جاکر سن لیں گے ،پھر ؟ صحافی اور صحافت اپنا دامن پاک رکھے ۔لیکن اب جب کہ فلموں بلکہ مزاحیہ پروگراموں میں گالیاں عام ہونے لگی ہیں تو سیاست دانوں کی زبان اور صحافتی زبان کی شائستگی کااللہ ہی مالک ہے ۔ ویسے عرصہ پہلے ایک وزیرِ اعظم کے منہ سے عوامی جلسے میںخطاب کے دوران( عادتاََنہ کہ قصدا)ََ سرکاری نشریاتی چینلوں کے ذریعے عوام تک تقریر کے ساتھ ‘گالی’بھی براہِ راست چلی گئی تھی ، بعد میں ان وزیرِ اعظم نے چاہا کہ وہ حذف کردی جائے لیکن اب کافی دیر ہوچکی تھی ۔
حد ہے کہ اس شخصیت پرست معاشرے میں بھی شخصیت سازی پر کوئی محنت نہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرما ن کہ بولو تاکہ پہچانے جائو۔ اوربقول غالب
پکڑے جاتے ہیں فرشتوںکے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
فیصل واوڈا صاحب آپ کے لیے وہ آدمی اوپر والے نے بھیج دیا ، صحافی ۔۔۔اس نے خبر دے دی ،مدیر نے لگادی ،اخباروں میں چھپ گئی ، عوام نے پڑھ لی ۔ہم انہیں نہیں دہرائیں گے ،ہم معروضیت کے اتنے بھی قائل نہیں،ہم تو بس سیاست و صحافت میں شستہ و شائستہ اور غیر جذباتی و مہذبانہ بیانیہ چاہتے ہیں ۔بس اتنا سمجھ میں آجائے کہ یہ بھٹو کی طرح پھانسی کیوں چاہتے ہیں؟ بھٹو بھٹو تھا،منتخب ، مقبول اور پھرمعزول وزیرِ اعظم ،اور پھانسی تو پھانسی ہوتی ہے ،اب ان کے لیے دوسرا ضیاء الحق اور تارا مسیح کہاں سے لائیں؟یہ خواہش ‘ناجائز’ ہے ۔
٭٭٭٭٭
وفاقی وزیر ِ داخلہ محسن نقوی فرما رہے ہیں کہ ‘میںاپنے پیسے سے جہاں چاہوں سرمایہ کاری کروں گا۔’پاکستان میں جس کو پیسہ بنانا ہو وہ سیاست کا رخ کرتاہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہوں ، ان کا پیسہ ہے، ان کی محنت ،ان کی قابلیت ؛عوام کا کیا؟ کون عوام اور کیسے عوام؟یہ شاہی مزاج کے شاہانہ زندگی کے خواب دیکھنے والے لوگ ہیں ۔ کہلاتے یہ عوامی نمائندے ہیںلیکن کہلانے اور ہونے میں زمین آسما ن کا فرق ہے ،پتا پانی کرنا پڑتاہے ۔ یہاں ہر کسی کی آنکھیں پیسے کی چمک کے آگے چندھیا جانے والی ہیں۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ اس سرزمین کوعوام کے ہم درد سیاست دان ،سرکار ی دفتروں کو عوام کے ہم پلّہ اشرافیہ اورسرحدوں کو ہوش مند فوجی دستے عطا فرمائے۔
سچ بتائوں! ہمیں سیاست سمجھ میں نہیں آتی ، یہ مفادات کے گر د طواف کرتی سیاست ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر