... loading ...
زریں اختر
سینیٹر فیصل واوڈا کے بیان پر مشتمل خبر پڑھی تو جذبات اور جذباتیت سے متعلق کئی خیالات آئے ۔ انسان کی تعلیم و تربیت کا اہم پہلو انسانی جذبات کی تہذیب ہے جو فطرت کی طرف سے ودیعت کیے گئے ہیںاور بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ غصّے کی کیفیت میںجذبات کو قابو میں رکھنا ایک بڑی اور اعلیٰ کامیابی ہے جو آدمی خودپر حاصل کرتاہے۔ فلسفے کے اُستاد ڈاکٹر منظور احمد کے گھر ہر مہینے کے آخری اتوار کی صبح دس تا ایک ہونے والی فکری نشستوں میں ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ‘برصغیر کے باشندوں کا ایک تجزیہ کیوں کہ یہ گرم و مرطوب خطّہ ہے ، یہ کیا جاتا ہے کہ یہاں بسنے والے جذباتی ہوتے ہیں، ایک اور جذباتیت کا پہلو ان کا مسلمان ہونا بھی ہے’۔اس بیان کے کئی پہلو ہیں ۔ عرب بھی گرم خطّہ ہے اور وہاں بھی جذباتیت زیادہ ہے ،یا یوں کہ کیا امریکہ میں ہم نے ستمبر گیارہ کے بعد بش کو جذباتی نہیں دیکھا۔یہ سب ہے لیکن اگر ہمیں دوسروں میں خامیاں تلاش کیے بغیر خود کو درست کرنا اور رکھنا ہے تو؟
کمرئہ امتحان میں میری ڈیوٹی تھی ۔ یہاں طالب علم کیا لکھوں کہ وہ نقل کرنا چاہ رہے تھے۔ مجھے وہاں سے ہٹا دیاگیا ،میں وہاں سے غصے میں ایک جملہ بولتی ہوئی نکلی جس پر اس وقت کے شعبہ انچارج (ٹی اے) کے چہرے پر ایک تاثر آیا لیکن انہوں نے کچھ کہا نہیں اور خود ڈیوٹی سنبھال لی۔ میں نے یہ واقعہ ڈاکٹر منظور احمد کو سنایا ، انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ کو جذباتی ہوکر کوئی جملہ بولنے کی ضرورت نہیں تھی ، وہ انچارج ہیں ،انہوں نے آپ کو ہٹایا ، آپ کو چاہیے تھا کہ خاموشی سے ہٹ جاتیں۔
ماحول اپنا کام کرتاہے ۔ ایسا بھی ہوتاہے کہ ہم ماحول کے زیر ِ اثر کوئی روّیہ اختیار کرلیتے ہیں اور بعد میں خود ہی شرمندہ ہوتے ہیں۔ اس کا حل ‘داستانِ فلسفہ ‘ کے مصنف وِل ڈیورینٹ (مترجم سید عابد علی عابد) نے یہ بتایا ہے کہ ‘اگر ماحول کے شخصیت پر بر ے اثرات پڑ رہے ہوں تو ماحول تبدیل کرلیں’۔یہ اتنا آسان کہاں؟کہاں چلے جائیں ؟ بھاگ کے کہاں جائیں؟
سیاست دانوں کے مزاج کی تربیت، کسی بین الاقوامی فورم پر کسی ملک کے نمائندے کا کوئی مسودّہ پھاڑنا کیسا ہے؟ انتظار حسین کا کالم بعنوان ‘تشدد کی زبان’میں انہوں نے سیاسی نمائندوں کی ٹیلی وژن کے مذاکراتی پروگراموں میں بولی جانے والی زبان پر بڑی تشویش کا اظہار کیاتھا ،ان کا موقف تھا کہ اگر سیاسی رہنما ٹی وی پر آکر ایسی زبان بولیں گے تو ان کے کارکنان سڑکوں پر کیا کریں گے؟
ایم اے کے بعد ابتدا میں جب اخبار میں رپورٹنگ کی تو سندھ کے گورنر نصیر اللہ بابر کے بیان کو من و عن لکھ دیا ۔ چیف رپورٹر نے کہا کہ یہ کیا لکھا ہے ، میں نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسے ہی کہا تھا، چیف رپورٹر نے جواب دیا کہ آپ یہ سمجھیں کہ انہیں زبان نہیں آتی ، آپ کو آتی ہے۔تو معروضیت کا کیاکریں؟ جیسی زبان کوئی بول رہا ہے ویسی ہی لکھ کر عوام کو یہ بتائیں کہ یہ ایسا بولتے ہیں تاکہ عوام سمجھیں کہ ایسا تو نہیں بولنا چاہیے یا نہ لکھیں کہ سیاست دان بولے سو بولے صحافی کو ایسا نہیں لکھنا چاہیے یا ایسا اخبارات میں نہیں چھپنا چاہیے یا اس لیے کہ ایسی زبان سے سیاسی جماعتوں کے کارکنان محفوظ رہیں ،لیکن وہ تو جلسوں میں جاکر سن لیں گے ،پھر ؟ صحافی اور صحافت اپنا دامن پاک رکھے ۔لیکن اب جب کہ فلموں بلکہ مزاحیہ پروگراموں میں گالیاں عام ہونے لگی ہیں تو سیاست دانوں کی زبان اور صحافتی زبان کی شائستگی کااللہ ہی مالک ہے ۔ ویسے عرصہ پہلے ایک وزیرِ اعظم کے منہ سے عوامی جلسے میںخطاب کے دوران( عادتاََنہ کہ قصدا)ََ سرکاری نشریاتی چینلوں کے ذریعے عوام تک تقریر کے ساتھ ‘گالی’بھی براہِ راست چلی گئی تھی ، بعد میں ان وزیرِ اعظم نے چاہا کہ وہ حذف کردی جائے لیکن اب کافی دیر ہوچکی تھی ۔
حد ہے کہ اس شخصیت پرست معاشرے میں بھی شخصیت سازی پر کوئی محنت نہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرما ن کہ بولو تاکہ پہچانے جائو۔ اوربقول غالب
پکڑے جاتے ہیں فرشتوںکے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
فیصل واوڈا صاحب آپ کے لیے وہ آدمی اوپر والے نے بھیج دیا ، صحافی ۔۔۔اس نے خبر دے دی ،مدیر نے لگادی ،اخباروں میں چھپ گئی ، عوام نے پڑھ لی ۔ہم انہیں نہیں دہرائیں گے ،ہم معروضیت کے اتنے بھی قائل نہیں،ہم تو بس سیاست و صحافت میں شستہ و شائستہ اور غیر جذباتی و مہذبانہ بیانیہ چاہتے ہیں ۔بس اتنا سمجھ میں آجائے کہ یہ بھٹو کی طرح پھانسی کیوں چاہتے ہیں؟ بھٹو بھٹو تھا،منتخب ، مقبول اور پھرمعزول وزیرِ اعظم ،اور پھانسی تو پھانسی ہوتی ہے ،اب ان کے لیے دوسرا ضیاء الحق اور تارا مسیح کہاں سے لائیں؟یہ خواہش ‘ناجائز’ ہے ۔
٭٭٭٭٭
وفاقی وزیر ِ داخلہ محسن نقوی فرما رہے ہیں کہ ‘میںاپنے پیسے سے جہاں چاہوں سرمایہ کاری کروں گا۔’پاکستان میں جس کو پیسہ بنانا ہو وہ سیاست کا رخ کرتاہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہوں ، ان کا پیسہ ہے، ان کی محنت ،ان کی قابلیت ؛عوام کا کیا؟ کون عوام اور کیسے عوام؟یہ شاہی مزاج کے شاہانہ زندگی کے خواب دیکھنے والے لوگ ہیں ۔ کہلاتے یہ عوامی نمائندے ہیںلیکن کہلانے اور ہونے میں زمین آسما ن کا فرق ہے ،پتا پانی کرنا پڑتاہے ۔ یہاں ہر کسی کی آنکھیں پیسے کی چمک کے آگے چندھیا جانے والی ہیں۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ اس سرزمین کوعوام کے ہم درد سیاست دان ،سرکار ی دفتروں کو عوام کے ہم پلّہ اشرافیہ اورسرحدوں کو ہوش مند فوجی دستے عطا فرمائے۔
سچ بتائوں! ہمیں سیاست سمجھ میں نہیں آتی ، یہ مفادات کے گر د طواف کرتی سیاست ۔