وجود

... loading ...

وجود

وقت کی اہم ضرورت !

هفته 18 مئی 2024 وقت کی اہم ضرورت !

جاوید محمود

تحقیق کے مطابق 2015 کے آخر تک 8.3 ارب ٹن پیدا کیے گئے پلاسٹک میں سے 6.3ارب ٹن ضائع کیا جا چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے میں سے زیادہ تر اب بھی موجود ہے جو یا خالی زمینیں بھرنے کے کام ا رہا ہے یا پھر ہمارے ماحول کو آلودہ کر رہا ہے ۔انٹارکٹیکا کی سمندری برف میں سمندر کی گہرائیوں میں رہنے والے جانوروں کی آنتوں میں اور دنیا بھر میں پینے والے پانی میں سے بھی پلاسٹک کے ذرات ملتے رہتے ہیں ۔درحقیقت پلاسٹک کا کچرا اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ محققین نے تجویز کیا ہے کہ اسے اینتھروپوسین کے ارضیا تی اشارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔واضح رہے امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک پلاسٹک کے شاپنگ بیگوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں اور متبادل کے طور پر کاغذ اور کپڑے کے بیگوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ جدید دور میں ترقی کے ساتھ جہاں انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں وہیں کئی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال پولی تھین کے بنے ہوئے شاپنگ بیگ کا استعمال ہے۔ ان بیگ سے ماحولیاتی مسائل کے علاوہ انسانی صحت زراعت اور جنگلی حیات پر بھی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پابندی کے باوجود پلاسٹک اور پولی تھین کی تھیلیوں کا استعمال حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔اسے سہل پسندی کہا جائے ماحولیاتی مسائل سے متعلق عدم آگہی غفلت یا لاپرواہی پولی تھین کے شاپنگ بیگز کھانے پینے سودا سلف کپڑے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء لانے اور لے جانے کے لیے انسانی زندگی کا لازمی جز اور ضرورت بن چکے ہیں ۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہم ہر سال 55 ارب پلاسٹک تھیلیاں استعمال کرتے ہیں اور ہر سال ان کی تعداد 15 فیصد بڑھ رہی ہے لگ بھگ چار دہائی گزرنے کے بعد ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ شاپر ہمارے جڑوں میں بیٹھ گیا ہے اور اس نے ہر سمت تباہی پھیلا دی ہے سب سے پہلے تو یہ پتہ چلا کہ شاپنگ بیگ کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل عمل ہے یہ پانی میں 10 تا 20 سال کے عرصے میں حل ہوتا ہے جبکہ زمین میں گلنے گھلنے میں 500 برس تک لگا سکتا ہے جب شہر اور جنگلوں میں ہر سال کھربوں پلاسٹک بیگ بننے اور سڑکوں پر بکھرے نظر آنے لگے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ شاپر ماحول کی صفائی ستھرائی اور خوبصورتی برباد کر دیتے ہیں۔ جب ندی نال شاپر سے بھر گئے اور بارشوں سے سڑکیں زیر آب آگئی ہیں یہ شاپر گٹر کی نالیوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے سیوریج کا نظام تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ سڑک پر ہر طرف اڑتی پھرتی ہیں کراچی میں کچرا اٹھانے کے لیے کروڑوں روپے کا فنڈ ہڑپ کر جانے کے باعث کچرہ اٹھانے کا کم ہی رواج ہے۔ عمومی طور پر یہ سڑک ہی پر جلایا جاتا ہے۔ کچرے میں موجود پلاسٹک کی تھیلیاں جلنے سے زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے جو شہریوں کے لیے خوفناک بیماریوں کا باعث بن رہا ہے پنجاب نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کئی سال پہلے لگائی تھی اور اس پر سختی سے عمل بھی ہوا۔ سندھ میں قانون پر عمل درآمد بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔اس لیے پورے ملک کے لیے پلاسٹک کی تھیلیاں یہیں سے سپلائی ہوتی ہیں ۔2000 میں بنگلہ دیش میں شدید بارشوں نے تباہی مچا دی تھی، تب سے سیوریج میں شاپر بیگ پھنس جانے کی وجہ سے بنگلہ دیشی شہروں میں سیلاب آگیا اور بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے شاپنگ بیگز پر پابندی لگا دی تھی ،بنگلہ دیش پہلا ملک ہے جس نے شاپروں کا عام استعمال ممنوع قرار دیا ۔پاکستان میں وادی ہنزہ میں انتظامیہ نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کی ۔اب وادی میں جو شخص شاپر استعمال کرتے پکڑا جاتا ہے، اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اگر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ شاپر بیگ کا خاتمہ کرنا چاہیں تو ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر سندھ میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے کارخانے ہی بند کر دیے جائیں، تو مسئلہ 90فیصد حل ہو سکتا ہے۔ ہم کاغذ کی تھیلیوں کی مقامی صنعت کو فروغ دے سکتے ہیں ۔کپڑے کے تھیلوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے شہریوں کو بائیوڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ کے یونٹ لگانے کی خاطر مالی امداد دے رہی ہے۔ ان یونٹوں میں گنے کے پھوک آلو جیسی سبزی کی جڑوں اور دیگر نامیاتی مواد سے شاپنگ بیگ بنتے ہیں ۔یہ بیگ کئی بار استعمال ہو سکتے ہیں نیز جب ناکارہ ہو کر کوڑے میں پھینکے جائیں تو وہ دو تین ماہ بعد تحلیل ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں گنا اور گندم اہم فصلیں ہیں ۔ان کی تلچھٹ بھی شاپنگ بیگ بنانے میں کام آ سکتی ہے ،یوں شاپنگ بیگ بنانے والوں کو خام مال اپنے ملک سے میسر آئے گا بہت ساری کمپنیاں پلاسٹک کے کم سے کم استعمال کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ اب ماحول دوست بیگ تیار کیے جا رہے ہیں جو پانی اور مٹی میں جذب ہونے کے صلاحیت رکھتے ہیں ۔شاپنگ بیگ سے ماحول کے نقصان کو بچانے کے لیے سمجھدار قوموں نے شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے اور کئی ملکوں میں دُکانداروں کو پابند کیا گیا ہے۔ اس کا متبادل تلاش کرلیں پولی تھین بیگز کو چلانے سے سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ اس کے دھوئیں سے لوگوں کو کینسر کا مرض بھی لاحق ہو رہا ہے جو ہماری آنکھوں جلد اور نظام تنفس پر بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ پولی تھین کا بے دریغ استعمال خواتین میں بڑھتے ہوئے بریسٹ کینسر کی اہم وجہ بھی بن رہی ہے۔ اس کے لیے اس کے استعمال کو ترک کرنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر