... loading ...
جاوید محمود
تحقیق کے مطابق 2015 کے آخر تک 8.3 ارب ٹن پیدا کیے گئے پلاسٹک میں سے 6.3ارب ٹن ضائع کیا جا چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے میں سے زیادہ تر اب بھی موجود ہے جو یا خالی زمینیں بھرنے کے کام ا رہا ہے یا پھر ہمارے ماحول کو آلودہ کر رہا ہے ۔انٹارکٹیکا کی سمندری برف میں سمندر کی گہرائیوں میں رہنے والے جانوروں کی آنتوں میں اور دنیا بھر میں پینے والے پانی میں سے بھی پلاسٹک کے ذرات ملتے رہتے ہیں ۔درحقیقت پلاسٹک کا کچرا اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ محققین نے تجویز کیا ہے کہ اسے اینتھروپوسین کے ارضیا تی اشارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔واضح رہے امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک پلاسٹک کے شاپنگ بیگوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں اور متبادل کے طور پر کاغذ اور کپڑے کے بیگوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ جدید دور میں ترقی کے ساتھ جہاں انسانی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئی ہیں وہیں کئی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اس کی ایک مثال پولی تھین کے بنے ہوئے شاپنگ بیگ کا استعمال ہے۔ ان بیگ سے ماحولیاتی مسائل کے علاوہ انسانی صحت زراعت اور جنگلی حیات پر بھی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پابندی کے باوجود پلاسٹک اور پولی تھین کی تھیلیوں کا استعمال حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے ۔اسے سہل پسندی کہا جائے ماحولیاتی مسائل سے متعلق عدم آگہی غفلت یا لاپرواہی پولی تھین کے شاپنگ بیگز کھانے پینے سودا سلف کپڑے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء لانے اور لے جانے کے لیے انسانی زندگی کا لازمی جز اور ضرورت بن چکے ہیں ۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہم ہر سال 55 ارب پلاسٹک تھیلیاں استعمال کرتے ہیں اور ہر سال ان کی تعداد 15 فیصد بڑھ رہی ہے لگ بھگ چار دہائی گزرنے کے بعد ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ شاپر ہمارے جڑوں میں بیٹھ گیا ہے اور اس نے ہر سمت تباہی پھیلا دی ہے سب سے پہلے تو یہ پتہ چلا کہ شاپنگ بیگ کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل عمل ہے یہ پانی میں 10 تا 20 سال کے عرصے میں حل ہوتا ہے جبکہ زمین میں گلنے گھلنے میں 500 برس تک لگا سکتا ہے جب شہر اور جنگلوں میں ہر سال کھربوں پلاسٹک بیگ بننے اور سڑکوں پر بکھرے نظر آنے لگے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ شاپر ماحول کی صفائی ستھرائی اور خوبصورتی برباد کر دیتے ہیں۔ جب ندی نال شاپر سے بھر گئے اور بارشوں سے سڑکیں زیر آب آگئی ہیں یہ شاپر گٹر کی نالیوں میں پھنس جاتے ہیں جس سے سیوریج کا نظام تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ سڑک پر ہر طرف اڑتی پھرتی ہیں کراچی میں کچرا اٹھانے کے لیے کروڑوں روپے کا فنڈ ہڑپ کر جانے کے باعث کچرہ اٹھانے کا کم ہی رواج ہے۔ عمومی طور پر یہ سڑک ہی پر جلایا جاتا ہے۔ کچرے میں موجود پلاسٹک کی تھیلیاں جلنے سے زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے جو شہریوں کے لیے خوفناک بیماریوں کا باعث بن رہا ہے پنجاب نے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کئی سال پہلے لگائی تھی اور اس پر سختی سے عمل بھی ہوا۔ سندھ میں قانون پر عمل درآمد بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔اس لیے پورے ملک کے لیے پلاسٹک کی تھیلیاں یہیں سے سپلائی ہوتی ہیں ۔2000 میں بنگلہ دیش میں شدید بارشوں نے تباہی مچا دی تھی، تب سے سیوریج میں شاپر بیگ پھنس جانے کی وجہ سے بنگلہ دیشی شہروں میں سیلاب آگیا اور بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے شاپنگ بیگز پر پابندی لگا دی تھی ،بنگلہ دیش پہلا ملک ہے جس نے شاپروں کا عام استعمال ممنوع قرار دیا ۔پاکستان میں وادی ہنزہ میں انتظامیہ نے پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کی تیاری اور فروخت پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کی ۔اب وادی میں جو شخص شاپر استعمال کرتے پکڑا جاتا ہے، اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اگر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ شاپر بیگ کا خاتمہ کرنا چاہیں تو ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر سندھ میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے کارخانے ہی بند کر دیے جائیں، تو مسئلہ 90فیصد حل ہو سکتا ہے۔ ہم کاغذ کی تھیلیوں کی مقامی صنعت کو فروغ دے سکتے ہیں ۔کپڑے کے تھیلوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی حکومت اپنے شہریوں کو بائیوڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ کے یونٹ لگانے کی خاطر مالی امداد دے رہی ہے۔ ان یونٹوں میں گنے کے پھوک آلو جیسی سبزی کی جڑوں اور دیگر نامیاتی مواد سے شاپنگ بیگ بنتے ہیں ۔یہ بیگ کئی بار استعمال ہو سکتے ہیں نیز جب ناکارہ ہو کر کوڑے میں پھینکے جائیں تو وہ دو تین ماہ بعد تحلیل ہو جاتے ہیں ۔پاکستان میں گنا اور گندم اہم فصلیں ہیں ۔ان کی تلچھٹ بھی شاپنگ بیگ بنانے میں کام آ سکتی ہے ،یوں شاپنگ بیگ بنانے والوں کو خام مال اپنے ملک سے میسر آئے گا بہت ساری کمپنیاں پلاسٹک کے کم سے کم استعمال کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ اب ماحول دوست بیگ تیار کیے جا رہے ہیں جو پانی اور مٹی میں جذب ہونے کے صلاحیت رکھتے ہیں ۔شاپنگ بیگ سے ماحول کے نقصان کو بچانے کے لیے سمجھدار قوموں نے شاپنگ بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے اور کئی ملکوں میں دُکانداروں کو پابند کیا گیا ہے۔ اس کا متبادل تلاش کرلیں پولی تھین بیگز کو چلانے سے سانس کی بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ اس کے دھوئیں سے لوگوں کو کینسر کا مرض بھی لاحق ہو رہا ہے جو ہماری آنکھوں جلد اور نظام تنفس پر بری طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ پولی تھین کا بے دریغ استعمال خواتین میں بڑھتے ہوئے بریسٹ کینسر کی اہم وجہ بھی بن رہی ہے۔ اس کے لیے اس کے استعمال کو ترک کرنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔