... loading ...
زریں اختر
(یومِ معلم کی مناسبت سے)
یہ خاکہ نہیں ، کالم ہی ہے اور اسے ‘یوم معلم’ کی مناسبت سے سمجھ لیا جائے یا نہ بھی سمجھا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے اپنے ان استاد کے بارے میں کچھ باتیں کرنی تھیں سو وہ کر رہی ہوں۔ شعبہ ابلاغِ عامہ جامعہ کراچی میں پہلا دن ،خبر نگاری کی پہلی کلاس پروفیسر صاحب نے اسی دن تفویضہ (اسائمنٹ )بھی دے دیا کہ اس میقات (سمسٹر) میں دس مرتبہ آپ کا نام اخبار میں چھپنا چاہیے، اس وقت لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ایک من چلے طالب علم نے کہا کہ سر تلاشِ گم شدہ کے اشتہارچلیں گے ، نام تو اس میں بھی چھپ جاتاہے، جس پر پروفیسر صاحب خوش مزاجی سے ہنس دیے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری پہلی تحریر بعنوان ”اقتدار کی میوزیکل چیئر کا گیم ” (یہ عنوان ایک روز نامہ کے مدیر نے دیا تھا) چھپی تو میں خوشی سے اخبار پروفیسر صاحب کو دکھانے لے گئی ، انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ پہلی تحریر چھپنے کی خوشی مٹھائی کے ساتھ سناتے ہیں، تب طالب علم اس وقت چار آنے میں ملنے والی ٹافی مٹھائی کے طور پر لے جاتے تھے ۔
وہ بھی پہلا سمسٹر ہی تھا کہ پروفیسر صاحب کی کلاس کے وقت ہم ایم اے پریو ئیس کے طالب علموں سے ہم جماعت بی ایس سال سوم کہ وہ جامعہ میں دو سال گزار چکے ہوتے ہیں کہا کہ آج کلاس کی ٹیم کا کرکٹ میچ ہے ،وہاں جانا ہے ، ہم چلے گئے ، ہماری ٹیم جلد ہی ہار گئی ، جب واپس آئے تو پروفیسر صاحب نیوز لیب کے سامنے ٹہل رہے تھے ، طالب علموں کو آتا دیکھ کروہ اپنے کمرے میں چلے گئے ،چہرے پر خفگی سے زیادہ برہمی کے تاثرات تھے ، ہم تو ڈر گئے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ، ہمیں کیا پتا ، کلاس کے طالب علم جو میچ ہار کر آئے تھے ان کے ساتھ ہم بھی استاد محترم کے کمرے میں گئے ، وہ ناراض تھے کہ مجھے بتایا نہیں اور کلاس کے وقت پر پوری کلاس خالی ، اس دوران ہماری کلاس فیلو سمیراسر کے کمرے میں ایسے جھانک رہی تھی جیسے کوئی بچہ شرارت کرنے کے بعد دادا کے کمرے میں جھانکتاہے۔ اِس وقت اس کا جھانکتا ہوا چہرہ یادوں کے جھروکوں سے جھانک رہا ہے۔
ہر استاد کا زندگی کے دیگر معاملات میں جیسا مزاج اور نظریہ ہوتاہے یا جو کرداری خصوصیات ہوتی ہیں ، ممکن نہیں کہ وہ ان کی زندگی کے اس اہم ترین کردار میں غالب نہ ہوں اور استاد بھی’ جامعہ’ کی سطح کاجسے فارسی زبان میں’ دانش گاہ’ کہا جاتاہے۔ نظریاتی اعتبار سے بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اس شعبے سے متعلق یہ رائے عام تھی کہ’ وہاں جمعیت کا ہولڈ ہے’ ، یہی رائے شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی سے متعلق بھی سننے میں آتی تھی ۔ پروفیسر صاحب کا واضح نظریاتی جھکائو جماعت کی طرف تھا اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ وہ ہفت روزہ تکبیر میں اداریے بھی لکھتے تھے ۔ لکھنے میں کتنی ذہنی مشقت کے ساتھ برداشت بھی چاہیے اس کے لیے انہوں نے اپنی ابتدائی صحافتی زندگی کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ کچھ لکھ کر اپنے استاد کے پاس لے گئے ،استاد محترم اس وقت وضو بنا کر تشریف لا رہے تھے ،انہوں نے چٹکی سے تحریر پکڑی ،اچٹٹی ہوئی سی نظر ڈالی ،اپنے بازو پونچھے اور انہیں واپس کردی ، یہ حسن سلوک ایک بار نہیں بلکہ ایک بار میں تین سے چار بار روا رکھاگیا، پروفیسر صاحب اپنے پنوں کے رومال بننے پر کبیدہ خاطر نہ ہوئے ،انہوںنے دوبارہ اور سہ بارہ لکھا، تب ہی وہ جامعہ کی سطح پر بہ حیثیت پروفیسر طالب علموں کو نہ صرف لکھنے بلکہ دل چھوٹا نہ کرنے کے گُر بھی سکھا رہے تھے۔
سلسلہ جو روایات، اقدار، ثقافت اور تہذیب کی نسل در نسل منتقلی کا ہے ۔ ایک دن پروفیسر صاحب نے کلاس میں کہا کہ ان کے استاد نے ان سے کہا تھا کہ ‘من بھر پڑھو گے تو چھٹانک بھر لکھنے کے قابل ہوں گے۔’ کلاس روم لیکچر اپنی نوعیت کا ایک منفرد اظہاریہ ہوتاہے ۔ کئی مرتبہ موضوع کی مناسبت سے جب یاد آیا پروفیسر صاحب کی یہ بات دہرائی اور اس طرح کہ ہمارے استاد نے کہا کہ ان سے ان کے استاد نے کہاتھاکہ۔۔۔ابھی چند دن پہلے بی ایس سمسٹر دوم (ضمنی) کی کلاس میں میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب ایک طالبہ نے اپنے رجسٹر پر لکھے جملے پر انگلی رکھ کر کہا کہ میڈم یہ آپ نے بتایا تھانا کہ آپ کے استاد نے یہ بتایا تھا تو یہ میں نے لکھ لیا۔
پروفیسر صاحب نے جس طرح ہمارے پہلے میقات کا پرچہ لیا وہ بھی اپنی نوعیت میں زندگی کا پہلا اور آخری واقعہ ثابت ہوا۔ انہو ں نے کہا کہ طالب علم اپنی امتحانی کاپی میں سوالات پورے نہ کرنے سے متعلق یہ عذر ِ لنگ پیش کرتے ہیں کہ وقت ختم ہوگیا تھا ۔ میں آپ کو کھلا وقت دے رہا ہوں ۔ جتنا وقت چاہیں لیں ۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پرچہ شام پانچ بجے تک چلا بلکہ اس میں پروفیسر صاحب کی طرف سے چائے بھی پلائی گئی ۔ کینٹین سے بڑی سی تھالی جس میں ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے کپ تھے کینٹین والا اٹھا کے لایا اور ہماری ہم جماعت اختر النساء کے منہ سے بے ساختہ واہ نکلا۔
کچھ استاد بس اپنے مضمون سے سروکار رکھتے ہیں ، لیے دیے بھی نہیں رہتے لیکن سمجھ میں آجاتا ہے کہ کتنی بات کرنی ہے اور وہ کتنی بات کریں گے ۔ پروفیسر صاحب کا یہ انداز نہیں تھا۔ ان کے لیے شعبہ جیسے دوسرا گھر انہ تھاتب ہی زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی بتائے۔ ایک دن کلاس میں کہاکہ” ہمیشہ رشتے جوڑنے والی بات کرو ،رشتے توڑنے والی نہیں”۔ یہ باتیں تب زیادہ سمجھ میں آتی ہیں جب ایسے معاملات سے واسطہ پڑتاہے کہ کس نے بات رشتے جوڑنے اور مضبوط کرنے والی کی اور کس کا کردار رشتے توڑنے اور کمزور کرنے والا رہا۔ یہ زندگی میں آسان نہیں بلکہ بڑے دل گرفتہ معاملات ثابت ہوتے ہیں جن کا سہنا کٹھن ہو جاتاہے۔
وہ ایک شفیق استاد تھے اور ہم بس بک دینے والے ۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ سر جو سوالات میں آپ سے کرتی ہوں ، بعد میں آپ کے جوابات میرے ذہن سے نکل جاتے ہیں اورسوالات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں ۔یہ حقیقت تھی لیکن شاید کہنے والی نہیں تھی ۔وہ دنیا کو جس عینک سے دیکھتے تھے اور دنیا بھی ان کی سمجھ میں آتی تھی مجھے اس عینک سے دنیا سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن جب وہ عینک ٹوٹ گئی تو جیسے ایک دم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا، سر چکرانے لگا ،زمین ہی گھوم گئی ، وہ چھبیس واں روزہ اور ستائیسویںشب ،مجھے آج بھی اپنے کانوں میں امی کی آواز آتی ہے کہ دیکھو عبادت کی رات ہے اور یہ سو رہی ہے ۔ وہ مضبوط نظریاتی بنیادیں جو سب کا اثا ثہ نہیں رہتیں۔
پروفیسر صاحب سے وہ مکالمہ جو واضح طور پر نظریاتی بُعد کا باعث بنا ، یہ سب آج سمجھ میں آتاہے ۔ اس وقت بوسنیا ہرزیگونیا اور چیچنیا کا مسئلہ سامنے آیا اور وہی دور تھا جب تتسی اور ہوتو قبائل کے جھگڑے بھی عالمی سیاست کا موضوع بنے۔ پروفیسر صاحب نے کلاس میں بوسنیا کی بات کی ،جب میں نے ان کی توجہ تتسی اور ہوتو قبائیل کے درمیان خوں ریز تصادم کی طرف دلائی تو انہوں نے جواب دیا یہ غیر مسلم ہیں۔ اس وقت اگرچہ کہ میری عینک سلامت تھی لیکن نظر پھر بھی نہیں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔