وجود

... loading ...

وجود

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

جمعرات 16 مئی 2024 پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

زریں اختر

(یومِ معلم کی مناسبت سے)
یہ خاکہ نہیں ، کالم ہی ہے اور اسے ‘یوم معلم’ کی مناسبت سے سمجھ لیا جائے یا نہ بھی سمجھا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے اپنے ان استاد کے بارے میں کچھ باتیں کرنی تھیں سو وہ کر رہی ہوں۔ شعبہ ابلاغِ عامہ جامعہ کراچی میں پہلا دن ،خبر نگاری کی پہلی کلاس پروفیسر صاحب نے اسی دن تفویضہ (اسائمنٹ )بھی دے دیا کہ اس میقات (سمسٹر) میں دس مرتبہ آپ کا نام اخبار میں چھپنا چاہیے، اس وقت لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ایک من چلے طالب علم نے کہا کہ سر تلاشِ گم شدہ کے اشتہارچلیں گے ، نام تو اس میں بھی چھپ جاتاہے، جس پر پروفیسر صاحب خوش مزاجی سے ہنس دیے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری پہلی تحریر بعنوان ”اقتدار کی میوزیکل چیئر کا گیم ” (یہ عنوان ایک روز نامہ کے مدیر نے دیا تھا) چھپی تو میں خوشی سے اخبار پروفیسر صاحب کو دکھانے لے گئی ، انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ پہلی تحریر چھپنے کی خوشی مٹھائی کے ساتھ سناتے ہیں، تب طالب علم اس وقت چار آنے میں ملنے والی ٹافی مٹھائی کے طور پر لے جاتے تھے ۔
وہ بھی پہلا سمسٹر ہی تھا کہ پروفیسر صاحب کی کلاس کے وقت ہم ایم اے پریو ئیس کے طالب علموں سے ہم جماعت بی ایس سال سوم کہ وہ جامعہ میں دو سال گزار چکے ہوتے ہیں کہا کہ آج کلاس کی ٹیم کا کرکٹ میچ ہے ،وہاں جانا ہے ، ہم چلے گئے ، ہماری ٹیم جلد ہی ہار گئی ، جب واپس آئے تو پروفیسر صاحب نیوز لیب کے سامنے ٹہل رہے تھے ، طالب علموں کو آتا دیکھ کروہ اپنے کمرے میں چلے گئے ،چہرے پر خفگی سے زیادہ برہمی کے تاثرات تھے ، ہم تو ڈر گئے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ، ہمیں کیا پتا ، کلاس کے طالب علم جو میچ ہار کر آئے تھے ان کے ساتھ ہم بھی استاد محترم کے کمرے میں گئے ، وہ ناراض تھے کہ مجھے بتایا نہیں اور کلاس کے وقت پر پوری کلاس خالی ، اس دوران ہماری کلاس فیلو سمیراسر کے کمرے میں ایسے جھانک رہی تھی جیسے کوئی بچہ شرارت کرنے کے بعد دادا کے کمرے میں جھانکتاہے۔ اِس وقت اس کا جھانکتا ہوا چہرہ یادوں کے جھروکوں سے جھانک رہا ہے۔
ہر استاد کا زندگی کے دیگر معاملات میں جیسا مزاج اور نظریہ ہوتاہے یا جو کرداری خصوصیات ہوتی ہیں ، ممکن نہیں کہ وہ ان کی زندگی کے اس اہم ترین کردار میں غالب نہ ہوں اور استاد بھی’ جامعہ’ کی سطح کاجسے فارسی زبان میں’ دانش گاہ’ کہا جاتاہے۔ نظریاتی اعتبار سے بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اس شعبے سے متعلق یہ رائے عام تھی کہ’ وہاں جمعیت کا ہولڈ ہے’ ، یہی رائے شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی سے متعلق بھی سننے میں آتی تھی ۔ پروفیسر صاحب کا واضح نظریاتی جھکائو جماعت کی طرف تھا اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ وہ ہفت روزہ تکبیر میں اداریے بھی لکھتے تھے ۔ لکھنے میں کتنی ذہنی مشقت کے ساتھ برداشت بھی چاہیے اس کے لیے انہوں نے اپنی ابتدائی صحافتی زندگی کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ کچھ لکھ کر اپنے استاد کے پاس لے گئے ،استاد محترم اس وقت وضو بنا کر تشریف لا رہے تھے ،انہوں نے چٹکی سے تحریر پکڑی ،اچٹٹی ہوئی سی نظر ڈالی ،اپنے بازو پونچھے اور انہیں واپس کردی ، یہ حسن سلوک ایک بار نہیں بلکہ ایک بار میں تین سے چار بار روا رکھاگیا، پروفیسر صاحب اپنے پنوں کے رومال بننے پر کبیدہ خاطر نہ ہوئے ،انہوںنے دوبارہ اور سہ بارہ لکھا، تب ہی وہ جامعہ کی سطح پر بہ حیثیت پروفیسر طالب علموں کو نہ صرف لکھنے بلکہ دل چھوٹا نہ کرنے کے گُر بھی سکھا رہے تھے۔
سلسلہ جو روایات، اقدار، ثقافت اور تہذیب کی نسل در نسل منتقلی کا ہے ۔ ایک دن پروفیسر صاحب نے کلاس میں کہا کہ ان کے استاد نے ان سے کہا تھا کہ ‘من بھر پڑھو گے تو چھٹانک بھر لکھنے کے قابل ہوں گے۔’ کلاس روم لیکچر اپنی نوعیت کا ایک منفرد اظہاریہ ہوتاہے ۔ کئی مرتبہ موضوع کی مناسبت سے جب یاد آیا پروفیسر صاحب کی یہ بات دہرائی اور اس طرح کہ ہمارے استاد نے کہا کہ ان سے ان کے استاد نے کہاتھاکہ۔۔۔ابھی چند دن پہلے بی ایس سمسٹر دوم (ضمنی) کی کلاس میں میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب ایک طالبہ نے اپنے رجسٹر پر لکھے جملے پر انگلی رکھ کر کہا کہ میڈم یہ آپ نے بتایا تھانا کہ آپ کے استاد نے یہ بتایا تھا تو یہ میں نے لکھ لیا۔
پروفیسر صاحب نے جس طرح ہمارے پہلے میقات کا پرچہ لیا وہ بھی اپنی نوعیت میں زندگی کا پہلا اور آخری واقعہ ثابت ہوا۔ انہو ں نے کہا کہ طالب علم اپنی امتحانی کاپی میں سوالات پورے نہ کرنے سے متعلق یہ عذر ِ لنگ پیش کرتے ہیں کہ وقت ختم ہوگیا تھا ۔ میں آپ کو کھلا وقت دے رہا ہوں ۔ جتنا وقت چاہیں لیں ۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پرچہ شام پانچ بجے تک چلا بلکہ اس میں پروفیسر صاحب کی طرف سے چائے بھی پلائی گئی ۔ کینٹین سے بڑی سی تھالی جس میں ڈھیر سارے چھوٹے چھوٹے کپ تھے کینٹین والا اٹھا کے لایا اور ہماری ہم جماعت اختر النساء کے منہ سے بے ساختہ واہ نکلا۔
کچھ استاد بس اپنے مضمون سے سروکار رکھتے ہیں ، لیے دیے بھی نہیں رہتے لیکن سمجھ میں آجاتا ہے کہ کتنی بات کرنی ہے اور وہ کتنی بات کریں گے ۔ پروفیسر صاحب کا یہ انداز نہیں تھا۔ ان کے لیے شعبہ جیسے دوسرا گھر انہ تھاتب ہی زندگی گزارنے کے سنہری اصول بھی بتائے۔ ایک دن کلاس میں کہاکہ” ہمیشہ رشتے جوڑنے والی بات کرو ،رشتے توڑنے والی نہیں”۔ یہ باتیں تب زیادہ سمجھ میں آتی ہیں جب ایسے معاملات سے واسطہ پڑتاہے کہ کس نے بات رشتے جوڑنے اور مضبوط کرنے والی کی اور کس کا کردار رشتے توڑنے اور کمزور کرنے والا رہا۔ یہ زندگی میں آسان نہیں بلکہ بڑے دل گرفتہ معاملات ثابت ہوتے ہیں جن کا سہنا کٹھن ہو جاتاہے۔
وہ ایک شفیق استاد تھے اور ہم بس بک دینے والے ۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ سر جو سوالات میں آپ سے کرتی ہوں ، بعد میں آپ کے جوابات میرے ذہن سے نکل جاتے ہیں اورسوالات اپنی جگہ موجود رہتے ہیں ۔یہ حقیقت تھی لیکن شاید کہنے والی نہیں تھی ۔وہ دنیا کو جس عینک سے دیکھتے تھے اور دنیا بھی ان کی سمجھ میں آتی تھی مجھے اس عینک سے دنیا سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن جب وہ عینک ٹوٹ گئی تو جیسے ایک دم آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا، سر چکرانے لگا ،زمین ہی گھوم گئی ، وہ چھبیس واں روزہ اور ستائیسویںشب ،مجھے آج بھی اپنے کانوں میں امی کی آواز آتی ہے کہ دیکھو عبادت کی رات ہے اور یہ سو رہی ہے ۔ وہ مضبوط نظریاتی بنیادیں جو سب کا اثا ثہ نہیں رہتیں۔
پروفیسر صاحب سے وہ مکالمہ جو واضح طور پر نظریاتی بُعد کا باعث بنا ، یہ سب آج سمجھ میں آتاہے ۔ اس وقت بوسنیا ہرزیگونیا اور چیچنیا کا مسئلہ سامنے آیا اور وہی دور تھا جب تتسی اور ہوتو قبائل کے جھگڑے بھی عالمی سیاست کا موضوع بنے۔ پروفیسر صاحب نے کلاس میں بوسنیا کی بات کی ،جب میں نے ان کی توجہ تتسی اور ہوتو قبائیل کے درمیان خوں ریز تصادم کی طرف دلائی تو انہوں نے جواب دیا یہ غیر مسلم ہیں۔ اس وقت اگرچہ کہ میری عینک سلامت تھی لیکن نظر پھر بھی نہیں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر