... loading ...
سمیع اللہ ملک
اللہ تعالی کے محبوب مرسل حضرت محمد مصطفی ۖ کی والدہ ماجدہ کوماں ہونے کابلندمرتبہ عطاہواتوسچ مچ ماں کی عظمت اوروقاربلندیوں کوچھونے لگیں کہ مامتاکاپاکیزہ رشتہ ایسا عروج وکمالات سے مالامال ہواکہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے قراردی گئی،والدہ ماجدہ کی شان کوبھلاکون پہنچ سکتاہے۔سرکاردوعالمۖنے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکے بطن اقدس سے جنم لیااوران کی آغوش میں پروان چڑھے۔اس لحاظ سے بی بی آمنہ رضی اللہ عنہاتمام عالم کی خواتین میں ایک ممتازمقام رکھتی ہیں کہ خاتم الانبیاۖکوجنم دینے اور پالنے کاشرف آپ کے حصے میں آیا۔
بی بی آمنہ رضی اللہ عنہاکاتعلق عرب کے معززترین قبیلہ بنوقریش سے تھا۔آپ کے والدوہب بن عبدمناف بن کلاب تھے اور والدہ بربنت عبدالعزی بن کلاب تھیں۔آپ نہایت پرہیزگاراورپاکبازخاتون تھیں۔آپ کانکاح حضرت عبدالمطلب کے پیارے بیٹے حضرت عبداللہ سے ہوا۔نکاح کے کچھ عرصہ بعدحضرت عبداللہ تجارت کیلئے شام کوروانہ ہوئے ۔ وہاں پہنچ کرآپ بیمارہو گئے اوربیماری کی حالت میں واپس آرہے تھے کہ یثرب سے گزرتے ہوئے والدکے ننھیال میں ٹھہرگئے اوروہیں وفات پائی۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے کچھ ہی عرصہ بعداس عالم میں بیوگی کاصدمہ اٹھایاکہ امام الانبیاۖان کے بطن مطہرمیں پرورش پارہے تھے۔
20/اپریل571ء بروزپیرصبح کے وقت اللہ تعالی نے حضرت آمنہ کووہ بیٹاعطاکیاجسے آگے چل کرتمام عالم کی فلاح کی ذمہ داری اٹھاناتھی۔حضرت عبدالمطلب نے پوتے کی خوشی میں قربانی کیلئے اونٹ ذبح کئے اورسارے عرب میں غریبوں کوکھاناکھلایا۔اس موقع پر تمام قبائل کے بڑے بڑے سرداروں نے بچے کودیکھااورحضرت عبدالمطلب کومبارکباد دی۔اس موقع پرآپ کے داداحضرت عبدالمطلب نے بچے کانام محمدۖیعنی بہت تعریف کیاگیارکھا۔
حضورۖکی ولادت کے وقت عرب میں یہ رواج تھاکہ پیدائش کے بعدشرفااپنے دودھ پیتے بچے کواچھی تربیت اورپرورش کیلئے صحرا یا دیہات میں دایہ کے حوالے کردیتے تھے تاکہ بچے باہرکی کھلی اورصحت بخش ہوامیں پرورش پاسکیں۔جب حضورۖکی عمرمبارکہ چھ ماہ ہوئی توآپ کوقبیلہ بنی سعد کی حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپردکردیاگیا۔کچھ عرصہ بعد حضرت حلیمہ آپۖکوواپس مکہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائیں مگرشہرمیں وباپھیلی ہوئی تھی اس لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہانے اپنے نورِنظرکودوبارہ حضرت حلیمہ کے سپردکرکے واپس بھیج دیا۔جب حلیمہ دوبارہ حضوراکرمۖکوواپس لائیں توان کی عمرمبارک تقریباچھ سال تھی۔آپ بڑے تواناوتندرست تھے گویاجس مقصد کیلئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہانے اکلوتے فرزندکی جدائی کاصدمہ سہاتھاوہ پوراہوچکاتھا۔اب آپۖاپنی والدہ کے ہمراہ رہنے لگے۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکواپنے پیارے بیٹے کابڑا خیال تھا۔وہ آپۖکوہمیشہ اپنے ساتھ رکھتیں،آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی تھیں۔حضرت عبداللہ کے انتقال کے بعدحضرت آمنہ رضی اللہ عنہاہرسال ان کی قبرکی زیارت کو مدینہ تشریف لے جاتیں۔ ساٹھ سترہزارکامجمع…….آخری حج کے سفرپررواں دواں……اونٹنی کارخ ماں کی قبرکی طرف پھیردیایعنی ابوا کی طرف (جوکہ مدینہ سے 249کلومیٹردورمکہ کی جانب واقع ہے ) یہ ایک پتھریلاعلاقہ ہے جوایک پہاڑی کاہموارحصہ ہے۔چشم تصورمیں اپنے آقاۖکاوہ منظر یاد آگیاجب میرے آقابچپن میں اپنی والدہ محترمہ کاہاتھ تھامے اپنے والدکی قبرکی زیارت کیلئے تشریف لے گئے تھے۔تاریخ بتاتی ہے کہ جناب آمنہ بنت وہب حضرت عبداللہ کی قبرکی زیارت کیلئے مدینہ گئی تھیں وہاں انھوں نے ایک ماہ قیام کیا،جب واپس آنے لگیں توبمقام ابواپر25سال کی عمرمیں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں اوروہیں دفن ہوئیں آپ کی خادمہ ام ایمن،آپۖکولے کرمکہ آئیں (گویا والد محترم اوروالدہ محترمہ دونوں 25سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے)۔(روض الاحباب1ص67)
میرے آقاۖ(جن کے روضہ اقدس پرجہاں ملائکہ،جن وانس کاایک ہجوم رہتاہے)وہ آج اپنی ماں کی قبرپریوں حاضری دے رہے ہیں کہ باپ عین عالم شباب میں 25سال کی عمرخالق حقیقی سے جاملے اورماں بھی عین جوانی میں دریتیم کوسات سال کی عمر میں چھوڑ کراپنے شوہرنامدارکوملنے کیلئے اپنے رب کے ہاں حاضرہوگئیں۔میرے آقاۖکووہ تمام مناظرازبرتھے کہ صرف تین افرادکایہ قافلہ تھا۔ والدہ محترمہ نے اپنے لال کاتھ تھاماہواتھااورخادمہ ام ایمن بھی ہمراہ تھیں۔اچانک طبیعت ایسی خراب ہوئی کہ اسی پتھریلی زمین پرلیٹ گئیں،جسم پسینے میں شرابوراوربولانہیں جارہاتھا،باربارکروٹ بدل رہی تھیں۔شائداپنے معصوم بچے کے سامنے اپنی تکلیف کوچھپانے کا عمل ہوکہ بیٹا پریشان نہ ہو جائے۔آپ سہمے ہوئے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ نجانے اب کیاہوگا۔
پھراس عظیم ماں کی زبان سے آخری کلمات اداہوئے…..”کل حیی میت وکل جدید بعد…..لبیک”ہرزندہ نے مرناہے اورہر جوانی نے ڈھلناہے،لبیک میراآخری وقت آگیاہے۔”ولقدولدالطحرا”میں نے ایک پاکیزہ ہستی کوجنم دیا ہے۔ اس کے بعدوہ پاکیزہ شمع بجھ گئی۔میرے آقاۖنے جب ماں کورخصت ہوتے دیکھاتوبے ساختہ رقت اورہچکیوں کے ساتھ روناشروع کر دیا۔اپنے ہی سینے سے منہ لگائے اس قدرروئے کہ سینہ مبارک ترہوگیا۔ہائے ہائے…….اس وقت آنسوپونچھنے والاکوئی بھی نہ تھا، بڑی دیر تک درِیتیم ماں کی قبرکے سرہانے بیٹھے اپنے آنسوؤں کاخراج پیش کرتے رہے۔قبرکے اردگردپتھرجوڑکرنیچے اترے ہی تھے کہ فورابے ساختگی سے دوڑکردوبارہ قبرپرپہنچ گئے۔ام ایمن یہ منظردیکھ کرپیچھے دوڑیں۔جب قریب آئیں توکیادیکھتی ہیں کہ میرے آقاۖاپنی ماں کی قبرکے ساتھ چمٹ کراس کے اوپرلیٹے ہوئے یہ فرمارہے تھے”بے تحاشہ محبت کرنے والی ماں!تجھے توخبرتھی کہ اس دنیامیں تیرے سوا میراکوئی نہ تھا۔مجھے چھوڑکرتم کہاں چلی گئی ہو؟”
یوں لگ رہاتھاکہ میرے رب نے چودہ صدیوں کے تمام پردے الٹ دیئے ہیں،میری اپنی حالت اس قدرغیرہوگئی کہ کھڑے ہونے کی سکت نہیں رہی اورمیں بھی بے اختیار آنکھیں بندکرکے بیٹھ گیااورچشم تصورمیں اپنے آقاۖکے بچپن کے تمام مناظرمیری آنکھوں کے سامنے آنے شروع ہوگئے۔میں بے اختیارسوچنے لگا،اے ارض وسماکے مالک !جسے تونے اپنا حبیب اورتمام جہانوں کیلئے رحمت العالمین بنایا، اسے اتنے بڑے دکھ اورصدمے میں مبتلاکردیا……..باپ دیکھانہیں،کوئی بھائی اوربہن نہیں جواس صدمے میں سینے سے لگاکرتسلی اور حوصلہ دے اورمیرے آقاۖکے ان آنسوؤں کواپنے دامن میں سمیٹ لے…..اگریہ واقعہ مکے میں رونماہوتاتوچلووہاں محبت کرنے والادادا، خاندان کے دوسرے عزیزواقارب اس گھڑی میں غم بانٹنے کیلئے اردگردموجودہوتے۔بیاباں جنگل،پتھریلے پہاڑوں اورصحرامیں یہ غم دیکھنے کوملا……….دل سے ایک ہوک اٹھی،یامیرے رب!توواقعی بے نیازہے۔ام ایمن نے اپنے بازؤں میں لیتے ہوئے التجا کی، اٹھوبیٹا،میرے آقاۖنے اپنے آنسوؤں سے ترچہرہ سے جواب دیاکہ”نہیں،میں نہیں جاؤں گا ،مجھے اپنی ماں کے پاس ہی رہنے دو ” ام ایمن فرماتی ہیں کہ میں زبردستی اس ننھے شہزادے کوقبرسے اٹھاکرلائی۔
میرے آقاۖآخری حج کے سفرمیں اپنے رب کے حضورمناجات کیلئے تشریف لے جارہے ہیں،شدیدگرمی کامہینہ،آپ نے اپنی اونٹنی کامنہ ابواکی طرف موڑدیااور70 ہزارکا قافلہ اپنے آقاکے پیچھے رب کی تسبیح بیان کرتے ہوئے گامزن ہے۔ 57برس گزرگئے،اتنابڑازخم اورصدمہ نجانے کیسے بھراہوگا۔کہاں وہ بچپن کاچھٹاسال اورآج میرے آقا ۖ63 سال کی عمر میں،میرے آقاۖاپنی ماں کی قبرکے سرہانے تشریف لائے،اونٹنی کوبھی فاصلے پربٹھادیا،اس عظیم ہستی کی آخری آرام گاہ کی پتھریلی زمین پردوزانوہوکر ، سرگھٹنوں میں جھکاکربیٹھ گئے جس طرح بچپن میں اپنی ماں کے پاس بیٹھے تھے جب وہ انتہائی تکلیف میں بے چین ہوکرکروٹیں بدل رہی تھیں۔ یقیناوہ سارے مناظریادآگئے تو بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کراسی طرح روناشروع کردیاجس طرح وہ بچپن میں اپنی والدہ مرحومہ کواپنے ہاتھوں لحدمیں اتارتے ہوئے بیتاب ہوئے تھے،جس طرح بے تابی میں ام ایمن کاہاتھ چھڑاکردوڑکرقبرسے چمٹ گئے تھے۔آج ایک مرتبہ پھران مبارک آنسوؤں کی برسات ریش مبارک کوترکرتی ہوئی سینہ مبارک پرطوفان برپاکررہی تھیں اورآج بھی کوئی چپ کرانے والانہ تھاکہ صحابہ کرام کی پوری جماعت حزن وملال کے اس مناظرمیں ماں بیٹے کی ملاقات میں حائل نہیں تھے اورادب کی بناپرایک فاصلے پربیٹھے اپنے آقاۖ کی اس جذباتی اوررومانوی کیفیت کودیکھ کربے چین ہورہے تھے۔کافی دیرتک نجانے اپنی والدہ محترمہ سے کیاباتیں کرتے رہے کہ بچپن میں ماں کوابھی جی بھرکردیکھابھی نہیں ہو گا، لاڈوپیارکاوہ سارازمانہ اب آنکھوں کے سامنے آرہاہوگاجس کی بناپرحزن وملال کی کیفیت بے چین کررہی تھی،دائمی جدائی کے تمام مناظرآج یکجاہوکرمیرے آقا ۖکو مضطرب کررہے تھے۔طبیعت اس قدربے چین ہوئی کہ آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کوارشادفرمایا:میں آج رات یہاں ہی قیام کروں گااوروہاں نہیں گئے جہاں قیام کیلئے بندوبست کیاگیاتھا،اپنی ماں کے سرہانے ساری رات قیام فرمایا۔
حضورنبی کریمۖبڑے مضبوط دل اورحوصلہ مندانسان تھے۔مشکل سے مشکل وقت اورکڑے سے کڑے حالات میں بھی آپ صبروضبط کادامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ آپ ۖنے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کوصبروتحمل،شجاعت اورمردانگی کاسبق دیا لیکن ان کی زندگی میں بھی چندمواقع ایسے آئے جب ان کی مبارک آنکھیں بے اختیار اشک بارہوگئیں۔ان میں سے ایک موقع وہ تھاجب غزوہ احدمیں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدآپ ان کے گھرتشریف لے گئے ان کے بچوں کوپیارکیااوران کی شہادت کی خبران کی رفیقہ حیات کودی۔اس موقع پرآپۖکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ایک موقع وہ تھاجب آپۖکے ڈیڑھ سالہ فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے۔اس وقت بھی ہزار ضبط کے باوجود آپ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں اورایک موقع وہ تھاجب غزوہ بدرسے آپۖفارغ ہونے کے بعد اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہاکی قبرمبارک پر حاضرہوئے جواسی نواح میں تھی۔وہاں آپۖکی آنکھوں میں
آنسو آگئے۔یہ دیکھ کرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تعجب سے پوچھاکہ یارسول اللہۖ!آپ کی آنکھوں میں آنسو؟مطلب یہ تھاکہ آپ توفرمایاکرتے ہیں کہ مرنے والوں پررونانہیں چاہیے لیکن اب آپ جیسے جری اورمضبوط انسان کی آنکھیں بھی نم ناک ہیں۔
اس موقع پرآپۖنے جوکچھ فرمایااس کامفہوم یہ ہے کہ ایک بیٹے کی طرف سے اپنی والدہ محترمہ کی جناب میں نذرانہ عقیدت واحترام ہے۔ان آنسوں کوکم حوصلگی یاتھڑدلی سے کوئی تعلق نہیں۔یہ توبے اختیارآنسوہیں جواس حرم محترم میںحاضری کاخراجِ عقیدت ہے۔ یہ ماں کے ان قدموں میں،جن کے نیچے جنت ہوتی ہے،گلہائے عقیدت کے طور پرآنسوؤں کا گلدستہ ہے۔جن کے ہاتھ میں جنت کی کلیدہے اورجن سے پہلے کوئی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔آپۖ کاارشادگرامی ہے کہ سب نبیوں پرجنت حرام ہے جب تک میں جنت میں داخل نہ ہو جاؤں،وہ اپنی ماں کیلئے ایسے بے قرارہیں۔ سبحان اللہ!
ان دنوں ہم بھی مغرب کی تقلیدمیں پچھلے کئی برسوں سے”مدرڈے”کاتہوارمنانے میں بڑاتفاخرمحسوس کرتے ہیں۔چلے آج ایک چھوٹی سی کہانی پراس مضمون کوختم کرتاہوں جومجھے ایک پڑھی لکھی ماں نے سنائی جس کے بچے ان سے دور بیرونِ ملک میں مقیم تھے۔وہ ایک کالج کی پرنسپل رہ چکی ہیں۔ساری عمردرس وتدریس میں گزاردی۔اب بھی کئی غریب بچیوں کی کفالت انتہائی پردہ داری اورخاموشی کے ساتھ سرانجام دیتی ہیں۔ مجھے اس بات کاکبھی پتہ نہ چلتااگربوڑھاڈاکیا مجھے اس کی اطلاع نہ دیتا۔ایک دفعہ میں ان کے گھرکے سامنے سے گزررہاتھاتومجھے روک کرمیرے کل شام کے ٹی وی پروگرام پر تبصرہ فرمانے لگیں۔مجھے جہاں ان کی علمی گفتگونے حیران کردیاوہاں ان کی لاجواب یادداشت نے میرے دل ودماغ کے کئی چراغ روشن کردیئے۔میں جتنی دیرپاکستان میں رہتاہوں ان سے سیکھنے کیلئے جی بھر کر باتیں کرتاہوں، ان کی ڈھیر ساری باتیں سنتاہوں جووہ ساراسال میرے لئے جمع کرکے رکھی ہوتی ہیں۔یہاں سے میں جب ٹیلیفون پر ان کو سلام کرتاہوں توان کی خوش کلامی سے میرادل معطرہوکے رہ جاتاہے لیکن مختصرسی بات کرکے یہ کہہ کرختم کردیتی ہیں کہ تمہیں خواہ مخواہ اس کازیادہ بل آئے گا۔آؤگے توخوب باتیں کریں گے۔
دوران قیام ایک دن خودبخودمیرے پاں ان کے گھرکی سمت چل پڑے۔وہ مجھے باہرہی مل گئیں۔کیسی ہیں آپ ماں جی…..بہت شرمیلی ہیں وہ،مسکرائیں اورکہنے لگیں تم کیسے ہو؟ آج صبح سویرے ہی…..جی ماں جی آپ کو سلام کرنے آ گیا۔انہوں نے پھولوں کاایک گلدستہ تھام رکھاتھا۔میں نے ان پھولوں کی بابت پوچھاتوانہوں نے جواب دیاکہ میرے تینوں بیٹے امریکامیں مقیم ہیں،سب سے چھوٹے بیٹے نے یہ پھول بھیجے ہیں کیونکہ آج ”مدرڈے”ہے ناں!میں نے بھی انہیں مدرڈے کیلئے جب”وش”کیاتودعائیں دینے لگیں ”جیتے رہومیرے بچے،سداخوش رہو،خوشیاں دیکھو”۔ان کی آوازکے زیروبم،میں کیسے تحریرکروں اوران کے چھلکتے آنسوؤں پر ضبط کی ناکام کوشش کوکیسے صفحہ پربکھیروں۔تھوڑی دیرآسمان کی طرف ٹکٹکی باند ھ کردیکھتی رہیں،بالکل گم سم۔آپ ٹھیک توہیں ماں جی!میری آواز سن کرچونک سی گئیں اورواپس اسی دنیامیں لوٹ آئیں۔اب توتمہارے سرکے بالوں اورداڑھی میں کافی سپیدی آگئی ہے،کیاتمہارے پوتے پوتیاں تم سے کہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں؟جی ہاں،کبھی کبھار،وگرنہ آج کل تواسکول کاہوم ورک اوربعدمیں کمپیوٹرپربچوں کی مصروفیت کے بعددوستوں سے موبائل فون کی گپ شپ اورٹیکسٹ پیغامات نے توگھرمیں عجیب اجنبیت پیداکررکھی ہے کہ بچوں کے پاس اب بڑوں کے پاس بیٹھنے کی فرصت کہاں؟
تم نے مجھے”مدرڈے”پر”وش”کرکے ماں جی تومان لیااوراس میں کوئی شک بھی نہیں کہ میں تم سے عمرمیں کافی بڑی ہوں۔چلوآج ہم دونوں ایک بھولی بسری روائت کوقائم کرتے ہیں۔کہانی سنوگے؟انہوں نے اچانک مجھ سے یہ فرمائش کردی ۔”ضرور،کیوں نہیں،مدت ہوئی مجھے کوئی کہانی سنے ہوئے”۔انہوں نے موقع کی نسبت سے ایسی دلخراش کہانی سنائی کہ جس کو سن کرمیں بھی دل تھام کررہ گیا،آپ بھی سنیں:ایک شخص اپنی ماں کو پھول بھجوانے کاآرڈردینے کیلئے ایک گل فروش کے پاس پہنچا۔اس کی ماں دوسومیل کے فاصلے پررہتی تھی۔جب وہ اپنی کارسے نیچے اتراتواس نے دیکھاکہ دوکان کے باہرفٹ پاتھ پرایک نوعمرلڑکی بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔وہ شخص اس لڑکی کے پاس آیااوراس کے رونے کاسبب پوچھا۔لڑکی بولی:میں اپنی ماں کیلئے سرخ گلاب خریدنا چاہتی ہوں لیکن میرے پاس صرف ایک پاؤنڈہے جبکہ گلاب کی قیمت دوپاؤنڈہے۔یہ سن کر وہ شخص مسکرایا اوراسے دلاسادیتے ہوئے بولا،میرے ساتھ اندرچلو،میں تمہیں گلاب دلادیتاہوں۔اس نے بچی کوگلاب کے کئی پھول خرید کراپنی ماں کیلئے پھولوں کاآرڈربک کروایا۔دکان سے باہرآنے کے بعداس نے لڑکی کوگھرتک پہنچانے کی پیشکش کی۔یس پلیز!لڑکی نے جواب دیا،آپ مجھے میری والدہ کے پاس لے چلیں۔لڑکی کی رہنمائی میں وہ ایک قبرستان تک پہنچے۔لڑکی نے وہ سرخ گلاب کے پھول ایک تازہ بنی ہوئی قبرپررکھ کردعامانگنے لگی۔وہ شخص پلٹ کرگل فروش کے پاس پہنچااس نے اپنا آرڈرمنسوخ کرادیااورایک گلدستہ لے کرفوری اپنی ماں سے ملنے کیلئے روانہ ہوگیا اورسارے راستے میں اپنی نم آلودآنکھوں سے اس معصوم لڑکی کاشکریہ اداکرتارہاکہ اس نے بروقت اس کی بہترین رہنمائی کی۔جونہی وہ اپنی ماں کے پاس پہنچاتواس کی ماں کی آنکھوں میں جھلکتی خوشی کے آنسو اپنی زندگی سے بھی کہیں قیمتی نظرآئے گویاوہ اپنے رب کے عطاکردہ اس بیش بہاخزانے کوبرسوں سے پہچان نہ پایاتھاجس کاپتہ آج اس معصوم لڑکی نے بتادیا۔
آخری فقرہ کہتے ہوئے ان کی آوازکپکپانے لگی تومیں نے اپنی جھکی گردن اٹھاکران کے چہرے پرنظرڈالی توانہوں نے منہ پھیرلیاکہ میں ان کی آنکھوں کی چغلی نہ پکڑلوں۔”سنا ہے تم اخبارات میں لکھتے ہو؟لگتاہے جوبچے اپنی ماؤں سے ہزاروں میل دوررہتے ہیں،اب کیا وہ اپنی ماں کی قبرپرسرخ گلاب رکھ کرہی محبت کااظہارکریں گے؟کتنامشکل ہے اس طرح جینا…….!
اس سوال کاہے کوئی جواب آپ کے پاس!اگرنہیں توپھرجلدی کیجئے کہ ہمارے لئے توہردن ہرلمحہ ”مدرڈے”ہے اوریہی تعلیم میرے آقاخاتم النبینۖکی ہے۔