... loading ...
ریاض احمدچودھری
گزشتہ ماہ اپریل میں بی جے پی نے سوشل میڈیا پر ایک مہم کی جھوٹی ویڈیو شائع کی جس میں متشدد اور لالچی مسلمان مرد حملہ آوروں کو قرون وسطیٰ کے ہندوستان پر حملہ کرنے اور اس کی دولت لوٹنے کی تصاویر دکھائی گئیں۔ مودی سرکار مختلف سازشی نظریات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان بھارت پر کنٹرول حاصل کرلیں گے، ماضی میں مذہبی منافرت مودی کی فطرت کا حصہ رہی ہے۔ بھارتی مصنف نیلنجن مکوپادھیائے نے کہا ہے کہ ”بی جے پی اور مودی نے بھارتی جمہوریت کو بری طرح تباہ کیا ہے”
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی جنوبی ریاست تلنگانہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب تک زندہ ہیں، کسی بھی قیمت پر دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ ذاتوں کے لیے بھارتی آئین کے تحت دیے جانے والے کوٹے کو مسلمانوں میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘کانگریس پارٹی اور اس کے شہزادے (راہل گاندھی) اپنے ووٹ بینک کی سیاست کے لیے پچھلے دروازے سے مسلمانوں کے لیے کوٹہ لا کر پسماندہ طبقات کے حقوق چھین کربھارتی آئین کو پامال کر رہے ہیں۔’ ‘یہ وہ لوگ ہیں جو پارلمیان چلنے نہیں دینا چاہتے، یہ وہ لوگ ہیں جو الیکش کمیشن پر سوال اٹھاتے ہیں اور اب اپنے ووٹ بینک کے لیے آئین کو بدنام کرنے کے لیے نکلے ہیں۔’ ‘لیکن کانگریس والے سن لیں، جب تک مودی زندہ ہے، میں دلتوں کا کوٹہ، قبائلیوں کا کوٹہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو نہیں دینے دوں گا۔’اسی طرح مغربی ریاست مہاراشٹر میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ آج بھارت ڈوزئیر نہیں بھیجتا بلکہ گھر میں گھس کر مارتا ہے۔کانگریس کے دور میں اخبارات سرخیاں ہوا کرتی تھیں کہ بھارت نے ممبئی کے دہشت گردانہ حملے پر ایک اور ڈوزیئر پاکستان کو سونپا۔ ہمارے میڈیا کے لوگ بھی تالیاں بجاتے تھے کہ ڈوزیئر بھیج دیا گیا لیکن آج بھارت ڈوزئیر نہیں بھیجتا بلکہ گھر میں گھس کر مارتا ہے۔’
بھارتی الیکشن کمیشن نے ابھی تک مودی کی انتہاپسند سرگرمیوں کے خلاف شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ کانگریس کے رکن اسمبلی پرمود تیواری نے کہا کہ مودی نے وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو بدنام کیا ہے اور یہ الفاظ کبھی بھی ایک بھارتی وزیر اعظم کے الفاظ نہیں ہوسکتے ہیں۔مودی کے نفرت انگیز ریمارکس نے مسلمانوں پر تشدد کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ بی جے پی ہندو توا نظریے کے تحت کام کر رہی ہے جو کہ خود آر ایس ایس کے نظریے کی پیروکار جماعت ہے۔مودی سرکار کی دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلم مخالف سرگرمیاں اور بیانات اس امر کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی صرف ہندو انتہا پسند جماعت ہے۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی مسلمان مخالف بیانیے سے عوام میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟’یہ پوری طرح سے غلط بیانی ہے۔ اس کے پس پشت ان کی واضح حکمت عملی ہے۔ کانگریس نے 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی بات کہی تو اس سے یہ پیغام گیا کہ وہ آئین کو بدلنا چاہتے ہیں کیونکہ آئین کو بدلنے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی اور آئین ایک ایسی چیز ہے جو کہ پسماندہ طبقے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
مودی سرکار انتخابات میں جیت کیلئے مسلم مخالف منشور کو مہرہ بنا کر انتہا پسند ہندوؤں کی ہمدردیاں بٹور رہی ہے۔ نام نہادجمہوریت بھارت میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلمان اور دیگر اقلیتیں انتہا پسندی اور نفرت کا شکار ہیں ۔ مودی سرکار ہندوتوا نظریے کا پرچار کرتے ہوئے ”اکھنڈ بھارت ”کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔بی جے پی اور مودی کے مسلم مخالف بیانیے پر انتخابات میں جیت کے حوالے سے بین القوامی ذرائع ابلاغ نے ایک رپورٹ شائع کی کہ ‘مودی سرکار مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مہم کے تحت انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے، مودی سرکار جہاد کے لفظ کا استعمال کر کے بھارتی عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔ مودی کی مسلم مخالف سوچ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری جسمانی تشدد کو ہوا دے رہی ہے جو بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔’حال ہی میں سماج وادی پارٹی کی ایک مقامی رہنما ماریہ عالم نے مسلمانوں سے کہا کہ “وہ ووٹ کا جہاد کریں”جس پر بی جے پی نے شدید نفرت کا اظہار کیا۔ ایک انتخابی مہم کے دوران مودی نے مسلمانوں کو دراندازوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والوں سے تشبیہ دی مگر حقیقت میں مسلمان قومی آبادی کے 15 فیصد سے بھی کم رہ گئے ہیں۔اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی نمائندگی میں تقریباً 20 ہزار شہریوں نے مودی سرکار کی طرف سے نفرت انگیز تقریر کے الزامات کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو خط لکھا۔
ا