... loading ...
جاوید محمود
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کو بیدار کرنے میں اور دلوں کو بدلنے میں رب العالمین کو ایک لمحہ لگتا ہے۔ 18اپریل سے امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہروں نے شدت اختیار کر لی ہے ۔یہ مظاہرے امریکہ کی معروف یونیورسٹی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ ہار ورڈ اور ییل یونیورسٹی سمیت سمیت آئیوی لیگ یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کے مختلف ریاستوں کی یونیورسٹیوں تک پھیل گئے جن میں امریکہ بھر کی کم از کم 50 یونیورسٹیوں نے شرکت کی ۔ طالب علموں کا مطالبہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں مستقل جنگ بندی کی جائے۔ اسرائیل کو امریکی فوجی امداد کی بند کی جائیں اور ان کی یونیورسٹیوں سے ایسے تحقیقی پروگرام کے لیے فنڈنگ ختم کی جائے جو اسرائیل کی جنگی کوششوں میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسی طرح کے مظاہرے تیزی سے بیرون ملک پھیل گئے۔ کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی اور کون کوریٹا یونیورسٹی برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن اور ایڈنبرا یونیورسٹی آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی اور یونیورسٹی آف میلبورن اور فرانس کے شہر پیرس میں سائنس ہو جیسی یونیورسٹیوں میں بھی اس طرح کے مظاہرے ہوئے۔
یو ایس اے ٹوڈے کی اطلاع کے مطابق لندن سے یورپ بھر میں یونیورسٹی آف کیمپس میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں کئی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی بڑی ریاستوں کے شہروں میں اور یونیورسٹیوں میں فری فری فلسطین فری فری فلسطین کے نعرے گونج رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جمعہ کی نماز کے خطبے میں بھی فلسطین کے حوالے سے تفصیلی طور پر بتایا گیا اور زور دیا گیا کہ طالب علموں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہرہ ایک پرانی روایات ہے۔ اپریل 1968 میں ویتنام جنگ کے خلاف کولمبیا کے طالب علموں کے بڑے پیمانے پر احتجاج نے امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج کی لہر کو جنم دیا جس نے امریکی معاشرے کی جنگ مخالف آواز کو عروج پر پہنچا دیا اور آخر کار اس وقت کے امریکی صدر جانسن نے صدارتی انتخابات سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ شاید یہی وہ چیز ہے جو براہ راست امریکی سیاسی حلقوں کی دردناک یادوں کو بیدار کرتی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبہ اور فیکلٹی ممبرز کے پرامن اجتماعات کے سامنے امریکی حکومت نے( جس نے ہمیں ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کا پرچار کیا ہے) غیر متوقع طور پر کریک ڈاؤن کیا اور سینکڑوں طلبہ اور فیکلٹی ممبرز کو گرفتار کر لیا ۔کولمبیا کی خاتون پروفیسر کو زمین پر پھینکا گیا اور انہیں ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا گیا اور امریکی پولیس نے متعدد یونیورسٹیوں میں مظاہرین کو بھگانے کے لیے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا اور پولیس کی جانب سے طلبہ پروفیسرز اور یہاں تک کہ میڈیا رپورٹرز کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی تصاویر امریکہ کے مین ا سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ امریکی کانگرس کے اسپیکر مائک جانسن نے جنگ مخالف مظاہروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے لیے خود کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا نیشنل گارڈ کو بھیجنے کی دھمکی دی اور مظاہرین کو یہود مخالف قرار دے دیا۔طلبہ نے دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے فری فری فلسطین کے نعرے بھرپور طریقے سے لگائے اور فرام ریور ٹو سی فلسطین وِل بھی فری( دریا سے سمندر تک فلسطین آزاد ہوگا) اس کے علاوہ اکوپیشن نو مور یعنی قبضہ مزید نہیں اور لندن ٹو غزہ لونگ لیو انتفادہ یعنی لندن سے غزہ تک انتفادہ زندہ بادکے نعرے لگائے گئے۔
امریکہ میں یہود مخالف انتہائی حساس لفظ ہے اور یہ اسرائیل کے لیے بھی مستقل تشویش کا باعث ہے ۔اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نے امریکی طالب علموں کو ٹھگ قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔ انٹیلی جنس موساد نے مظاہروں میں شریک طلبہ کو ان کی ڈگریوں اور ملازمتوں سے محروم کرنے کی براہ راست دھمکی بھی دی۔ امریکہ کے مین اسٹریم میڈیا نے احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی حمایت کا اظہار کیا۔ لوگ یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتے کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کہاں ہے؟ آزادیٔ اظہار اور انسانی حقوق کا تحفظ کہاں ہے؟ عالمی میڈیا نے ان خبروں کی تصدیق کی ہے کہ تقریبا 35 ہزار سے زائد ہلاکتوں اور 80 ہزار سے زائد زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ سینیٹر نے اسرائیلی وزیراعظم کو متنبہ کیا کہ وہ امریکیوں کی انٹیلی جنس کی توہین نہ کریں اور یہود مخالف ٹوپیاں پہنا کر امریکی طالب علموں کی توہین بند کریں۔ دوسری جانب احتجاج کرنے والے طلبہ کا منظم انداز امریکی سیاستدانوں کے لیے ایک بہانہ فراہم کرتا ہے جو الزام تراشی بیان بازی کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کانگریس کے ریپبلکن رکن کارلوس گیمز نے نیوز ویک کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ چین امریکی کالج کیمپس میں مظاہروں کی حمایت کر رہا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں تو وہ کوئی واضح جواب دینے سے قاصر تھے۔ ادھر امریکی کانگریس کی سابق ا سپیکر نینسی پلوسی نے ان دنوں یہ دعویٰ کیا کہ یہ روس ہی ہے جو فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی میں امریکی طالب علموں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس پر روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جواب دیا کہ اسے صرف امریکیوں اور جمہوریت کی توہین کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکی یونیورسٹی میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ ازادی اظہار انسانی حقوق اور اخلاقی انصاف پر ہمیشہ فخر کرنے والا امریکہ اب کمزور اور غیر پر اعتماد ہے۔ انسانی فطرت کی بیداری اور سیاسی حساب کتاب کے درمیان مقابلے میں امریکی معاشرہ زیادہ تقسیم کا شکار بن گیا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے مظاہرے سادہ انسانی شعور سے ہوئے تھے۔ اگر زبردستی کے ساتھ چین سے منسلک کرنا ہے تو وہ یہ ہے کہ چین ہمیشہ امن اور انصاف کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ نہ صرف چین کا انتخاب ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کی بھاری اکثریت کا اتفاق رائے بھی ہے جس کی عکاسی نہ صرف 25 مارچ کو منظور کی گئی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2728میں ہوئی ہے، بلکہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں نظر آتی ہے۔ راستبازوں کے لیے مدد زیادہ جبکہ ظالموں کے لیے مدد کم ملتی ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل انسانی معاشرے کے مخالف نہ بنیں،اپنے عوام سمیت عالمی برادری کی آواز پر توجہ دیں۔ فوری طور پر جنگ بندی کریں ۔فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کریں کیونکہ مشترکہ طور پر بین الاقوامی انصاف اور عالمی امن کو برقرار رکھنا ہی انسانیت کے لیے صحیح راستہ ہے۔
امریکہ کی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکی ریاستوں کے بڑے بڑے شہروں اور 50سے زیادہ بڑی یونیورسٹیوں میں کھلے عام ”فری فری فلسطین، فری فری فلسطین ”کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اتنی مرتبہ یہ نعرے سنتے ہیں کہ رات سوتے ہوئے بھی میرے کان میں یہ گونجتے ہیں ۔