... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
گزشتہ روز سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ اور ن لیگ کے ممبر قومی اسمبلی حنیف عباسی کی آپس میں منہ ماری ہوئی تو دونوں نے ایک دوسرے کو خوب سنائی۔ عباسی نے کاکڑ کو چور کہا تو جواب میں کاکڑ نے اسے فارم 47 پر شرمندہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حقیقت بتا دی تو منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ ابھی یہ دونوں ذمہ داران ایک دوسرے کو چور چور کا خطاب دے ہی رہے تھے کہ ایک اچھی خبر بھی سننے کو ملی کہ پہلا پاکستانی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر چاند پر روانہ ہوگیا۔ یہ وہ رکا ہوا سفر تھا جو ہم نے1962میں شروع کیا تھا ۔ہماری خوش قسمتی اور پھربدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ ترقی کا جو سفر ہم نے قیام پاکستان کے بعد شروع کیا تھا،اس میں پاکستان کے اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کا خلائی سفر بھی تھا۔ اس وقت ہمارے سب ہی ادارے انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کا سفر شروع کررہے تھے اور دنیا حیرت سے پاکستان کی طرف دیکھ رہی تھی اس وقت دنیا کا عالم کیا ہوگا جب سپارکو نے پہلا راکٹ رہبر ون 7 جون 1962 کو لانچ کیا رہبرـI دو مراحل والا ٹھوس ایندھن والا راکٹ تھا رہبرـ1 جب 7 جون 1962 کو لانچ کیا گیا تو اس سے قبل نو ماہ کی مدت میں پاکستانی ٹیم کا قیام عمل میں آیا ان کی تربیت امریکی تنصیبات میں مکمل ہوئی ۔راکٹ رینج کے آلات اور آلات کی خریداری سمیت سائنسی پے لوڈز کا انتخاب سونمیانی میں راکٹ رینج کی تعمیر مکمل ہوئی اور پہلا راکٹ کامیابی سے لانچ ہوا یہ ایک انوکھا کارنامہ تھا جس نے ناسا کے ماہرین کو بھی حیران کر دیا ۔پاکستان تمام ترقی پذیر (برازیل، چین اور بھارت سمیت) اور اسلامی ممالک میں پہلا ملک تھا جس نے سائنسی راکٹری پروگرام کیا۔ رہبر I کامیاب لانچ میں 80 پاؤنڈ سوڈیم کا پے لوڈ تھا اور یہ تقریباً 130 کلومیٹر فضا میں پھیل گیا ۔رہبرـI تمام ٹھوس پروپیلنٹ موٹرز کے ساتھ دو مراحل کا راکٹ تھا۔ رہبر I کی پہلی لانچنگ 7 جون 1962 کو سونمیانی میں ہوئی۔ رہبر راکٹ سیریز ایک تجرباتی راکٹ پروگرام تھا جس نے بعد میں پاکستان کے میزائل پروگرام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا 1960 کی دہائی کے دوران اور 1970 کی دہائی کے اوائل تک سپارکو نے تجرباتی سیٹلائٹ کے مختلف پے لوڈز کا استعمال کرتے ہوئے 200 سے زیادہ راکٹ لانچ کیے تھے۔ رہبرـ1 کی لانچنگ کے ساتھ ہی پاکستان ایشیا کا تیسرا ملک، جنوبی ایشیا کا پہلا ملک، اسلامی دنیا کا اور پوری دنیا کا دسواں ملک بن گیا جس نے خلا میں جہاز بھیجا ۔اس کے بعد 1962 میں رہبرـII کی کامیاب لانچنگ ہوئی ۔رہبر راکٹ پروگرام کا آخری لانچ 8 اپریل 1972 کو ہوا تھا پاکستان کی طرف سے 1962 سے 1972 کے درمیان تقریباً 200 بار مختلف آواز والے راکٹ ماڈل لانچ کیے گئے۔ ان میں سے چوبیس پروازیں رہبر سیریز میں تھیں ۔رہبر سیریز کی پروازوں میں کم از کم تین اور ممکنہ طور پر چار مختلف آواز دینے والے راکٹ استعمال کیے گئے۔ استعمال شدہ راکٹ سینٹور، جوڈی ڈارٹ،نائکی کیجون اور ایک نائکی اپاچی تھے۔ پاکستان کے زیر استعمال دیگر آواز والے راکٹ ڈریگن 2B، پیٹریل اور سکوا تھے ۔ رہبر ساؤنڈنگ راکٹ اب سپارکو کی خدمات میں نہیں ہیں۔ رہبر کا لفظی مطلب ہے “راستہ کرنے والا”۔ 1960 میں صدر جان ایف کینیڈی نے امریکی سائنسدانوں کو چیلنج کیا کہ وہ ایک امریکی کو چاند پر اُتاریں اور اسے بحفاظت زمین پر واپس لائیں، اس سے پہلے کہ دہائی ختم ہو جائے۔ NASA اس موقع پر کھڑا ہوا اور 1969 میں اپالو 11 کی چاند پر لینڈنگ کے ساتھ یہ حیران کن کام حاصل کیا۔1961 میں NASA نے محسوس کیا کہ بحر ہند کا خطہ اوپری ماحول کی ہوا کی ساخت سے متعلق ڈیٹا کا ایک بلیک ہول تھا جس کی ناسا کے سیٹلائٹ/اپولو پروگراموں کے لیے بری طرح ضرورت تھی۔ ناسا نے بحر ہند کے ساحل پر موجود تمام ممالک کو راکٹ رینج قائم کرنے میں مدد کی پیشکش کی تاکہ اس طرح کا ڈیٹا ناسا کے ساتھ مکمل طور پر شیئر کرنے کی شرط پر حاصل کیا جا سکے۔ اس وقت کے صدرپاکستان ایوب خان اپنے چیف سائنسی مشیر پروفیسر عبدالسلام کے ہمراہ اس وقت امریکہ کے سرکاری دورے پر تھے اور پاکستان نے اس پیشکش کو قبول کرلیا ۔پروفیسر عبدالسلام نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) کے سینئر انجینئر طارق مصطفی کو ستمبر 1961 میں ناسا حکام کے ساتھ ملاقات میں شرکت کی دعوت دی تاکہ انتظامات کو حتمی شکل دی جا سکے کیونکہ پاکستان اس پیشکش کو قبول کرنے والا پہلا ملک تھا ۔رہبر ساؤنڈنگ راکٹ پروگرام امریکی نائیکیـکیجون/اپاچی راکٹوں کے ارد گرد بنایا گیا تھا جو سوڈیم بخارات لے جاتے ہیں اور اوپری فضا میں ہوا کی رفتار اور ہوا کی قینچی کی پیمائش کے لیے تجربات کرتے ہیں اس اہم پروگرام کی ذمہ دار 5 رکنی ٹیم کی قیادت طارق مصطفی نے کی اور اس میں سلیم محمود اور سکندر زمان بھی شامل تھے۔ یہ دونوں بعد میں سپارکو کے چیئرمین بھی بنے ۔اسکے بعد ہماری بدقسمتی بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ہم نے اپنی ترقی کا گلا خود ہی گھونٹ دیا۔ سب سے پہلے ہم نے 16دسمبر 1971کو شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو ماننے سے انکار کردیا جیسے ابھی ہم نے قیدی نمبر 804عمران خان کی پارٹی کے ساتھ کیا ہے ۔ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگا کر پاکستان کو دو ٹکڑوںمیں تقسیم کردیا۔ ہماری بربادی کا سفر یہی پر ہی ختم نہیں ہوا بلکہ بھٹو کی سربراہی میں بننے والی حکومت نے ترقی کے سفر میں شریک تمام اداروں کو قومی تحویل میںلیکر انکی تباہی و بربادی کا سامان پیدا کردیااور آج ایک بار پھر ان سب اداروں کو فروخت کیا جارہا ہے ملک دشمن طاقتوں کے آلہ کار بننے والوں نے نہ صرف پاکستان کی چلتی ہوئی گاڑی کو پٹری سے اتار دیا تھا۔ بلکہ واپسی کا گیئر لگا کر 1947 کے دور میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی ابھی تو صرف گندم اسکینڈل ہی منظر عام پر آیا ہے جس سے نگرانوں سمیت موجود حکمرانوں کی چیخیں نکلنا شروع ہوچکی ابھی تو آنے والے دور میں اور بھی بہت سے اسکینڈل منظر عام پر آنے والے ہیں۔ اب تحقیقاتی کمیشن بھی رپورٹ دبا نہیں سکے گا کیونکہ پہلے جب بھی کبھی کوئی اسکینڈل منظر عام پر آتا تھا تو اسکی تحقیقات کے لیے کمیشن بنا دیا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتا رہا لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا کیونکہ اب کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ انہی ڈاکے اور چوریوں کی وجہ سے ہم نے اپنا وہ سفر ختم کردیا تھا جو رہبر -١ سے شروع ہوا تھا۔