... loading ...
حمیداللہ بھٹی
معاشی سرگرمیوں کے لیے امن ناگزیر ہے مگر جنوبی ایشیا میں کئی ایسے گروپ یا تنظیمیں اب بھی مصروف ہیں جو دہشت گردی میں اِس لیے ملوث ہیں تاکہ خطے میں جاری معاشی ترقی کی کوششوں کو سبوتاژ کیا جائے ،یہ گروپ امن کے قیام میں اصل رکاوٹ ہیں۔ اِن کی طاقت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ انھیںریاستی سرپرستی و معاونت حاصل ہے ۔اِسی لیے کوششوں کے باوجود خطے سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی منزل توحاصل نہیں ہو سکی ۔البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ استعداد میں کسی حدتک کمی آئی ہے ابھی مکمل بیخ کنی کی منزل دورمحسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ برس جون میں پاکستان ،چین اور ایران کاایک مشترکہ اجلاس بیجنگ میں ہوا جس میں انسدادِ دہشت گردی اور سلامتی کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کیے گئے ایک اہم ترین فیصلہ دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق تھا لیکن ایک برس کے دوران ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی رفتار توقع سے بہت کم رہی۔ علاوہ ازیں مشترکہ کوششوں پر اتفاق عملی طورپر بھی نظر نہ آیاجس کا امن دشمن قوتوں نے فائدہ اُٹھایا اور اِس دوران کارروائیوں سے اپنی موجودگی کا یقین دلاکر ثابت کردیاکہ وہ کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی قوت رکھتے ہیں۔ اگر سہ فریقی تعاون عملی طورپر ہوتا تو امن دشمن عناصر کوحالات یوں سازگار نہ ملتے بلکہ اب تک دبوچنے کا ہدف حاصل ہونے کے قریب ہوتا۔اچھی بات یہ ہے کہ اب اِ س کا احساس کر لیا گیا ہے تینوں ممالک ایک بارپھر ایسی سہ فریقی بڑی بیٹھک کی تیاریوں میں ہیں جس میں نہ صرف گزشتہ اجلاس کے فیصلوں پرہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیاجا سکے بلکہ اِس امر کی بھی توقع ہے کہ سہ فریقی کارروائیوں کا بھی طریقہ کار طے کر لیا جائے۔ اگر امن قائم کرنے کے لیے طریقہ کار بنا لیا جاتاہے تو یہ امن کے لیے خوش آئند بیٹھک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اِس طرح نہ صرف دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ معاشی ترقی کی منزل حاصل کرنا بھی سہل اوریقینی ہو سکتاہے۔
کئی دہائیوں سے ایران کے بھارت سے اچھے روابط ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے وہ چین کے بھی قریب آیا ہے ظاہرہے اِس کی وجہ امریکی پابندیاں ہیں مگر یہ توقع رکھنا کہ ایران نے بھارت سے دوری اختیار کر لی ہے ایسا تصورکرنا حقائق کو جھٹلانے مترادف ہو گا کیونکہ آج بھی ایران اور بھارت میں قریبی تعاون فروغ پذیر اور بھارت کی ایران سے نہ صرف تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ سرمایہ کاری کے عمل کا دائرہ کاربھی وسیع ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کو ایران میںہونے والی بھارتی سرمایہ کاری پر اعتراض نہیں لیکن اِس آڑ میں دہشت گردوں کو معاونت وسہولت کاری کرنے پر اعتراض ہے ۔کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور دہشت گردی کی سرپرستی کا اعتراف اِس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ایران سے روابط کی آڑمیں بھارت اپنے ہمسائے پاکستان کوغیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے۔ اب جبکہ سہ فریقی دوسری بیٹھک کا انعقاد ہونے والا ہے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارتی سازشوں کو مدِ نظررکھتے ہوئے کوئی ایسا موثر اور مناسب طریقہ کار بنایا جائے جس کی بدولت بھارت کسی ملک کے خلاف اپنے حمایتی شرپسندوں کو استعمال نہ کر سکے اور اگر ایسا ہو تو تینوں ممالک مل کرمنہ توڑ جواب دیں لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب سہ فریقی بیٹھک میں تعاون کادائرہ کار وسیع ہو اور معلومات کے تبادلے کا عمل تیزتر۔
پاکستان اور ایران کا شمار چین کے دوست ممالک میں ہوتا ہے جبکہ افغان طالبان سے بھی چینی روابط کسی سے پوشیدہ نہیں چین نے کابل میں سفارتی نمائندے کا تقرر بھی کر رکھا ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جوخطے میں چین کے سوا کسی اور طاقت کو حاصل نہیں جس کا تقاضا ہے کہ چین اپنے دوست ممالک سے تعاون معاشی وتجارتی حوالے تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ قیامِ امن کے لیے ایسی مشترکہ کاوشوں پر اتفاقِ رائے کویقینی بنائے جن سے علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بننے والے گروپوں کاجلدخاتمہ ہوتاکہ چینی کردار کومزید وسعت ملے گی متوقع سہ فریقی بیٹھک خطے میں چین کے بڑھتے کردار کی علامت ہے کیونکہ اِس کا مقصدکئی اہم امور پر چاہے اپنے پڑوسیوں کو اکٹھا کرنا اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف مشترکہ کاوشوں کومربوط بنانا نیز بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹومنصوبے کی رفتار میں کمی لانے کی سازشوں پر نظر رکھنا ہے مگر جب تک تینوں ممالک ہدف حاصل کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں نہیں کرتے تب تک سیکورٹی صورتحال اور علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردگروپوں اورتنظیموں کی سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ۔اِس میں شائبہ نہیں کہ خطے میں امن کو لاحق خطرات کے خاتمے میں چین گہری دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ پاکستان ،ایران اور افغانستان کی مشترکہ سرحدیں چینی مفادات کو نشانہ بنانے والے گروپوں کی اِس وقت خاص طورپر آماجگاہ ہیں یہاں سی پیک کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا بلوچ تنظیم کا خود کش ونگ مجید بریگیڈ سرگرم ہے وہ کئی حملوں کی زمہ داری بھی قبول کر چکا ہے جس سے چینی قیادت کے اذہان میں راسخ ہوا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان قریبی تعاون ہی دہشت گردی کے خطرات کو بے اثر کر سکتا ہے اِس کے باوجود مشترکہ کاروائیوں کافقدان اور امن کا ہدف حاصل کرنے میں دشواریاں موجود ہے جو امن دشمن عناصر پر نظر رکھنے ،معلومات کے تبادلے اور ایسی مشترکہ کاروائیوں سے ہی ممکن ہے جن میں طالبان قیادت بھی پورے خلوص سے شامل ہولیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ چین سے تعلقات کے باوجود وہ امن عمل سے لاتعلق اور غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں حالانکہ بظاہر وہ امن عمل میں ساتھ دینے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جب تک افغان سرزمین دہشت گرد استعمال کرتے رہیں گے وہ لاتعلق اور غیر سنجیدہ ہی قرار پائیں گے ۔
چین کی سرمایہ کاری پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک چینی سرمایہ کاری سے مستعفید ہورہے ہیںلیکن ہمسایہ ممالک کی اپنی ہی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ ہمسایہ ممالک کا اعتماد قومی سلامتی کیے اہمیت کاحامل ہوتاہے مگر جنوری میں اُس وقت دھماکہ خیزصورتحال پیداہو گئی جب پاکستان اور ایران نے ایک دوسرے پر میزائل حملے کردیے یہ صورتحال غیر متوقع تھے نہ صرف دوطاقتور اسلامی ممالک میں ٹکرائو کا خدشہ پیداہو گیا تھا بلکہ چینی مفادات کے لیے بھی خطرات بڑھ گئے تھے مگر کشیدگی کے باوجود پاک ایران قیادت نے اپنے تحفظات جیسے مسائل دوراندیشی سے حل کرنے کی تیزی سے کوشش کی اِس دوران چینی قیادت نے بھی مسلسل ربطہ رکھا اور تنائو ختم کرانے میں سہولت کار کا کردارادا کیا جنوری میں ایرانی وزیر خارجہ نے دورے میں جن مثبت خیالات کا اظہارکیااُسے کا فائدہ یہ ہواکہ دونوں ممالک میں اعلٰی فوجی
حکام کی باہمی تعیناتی کے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ ہموارہوئی اِس کے مطابق ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک آفیسر کو بہتر سہولتکاری کے لیے بلوچستان کے علاقے تربت جبکہ پاک فوج کے ایک کرنل رینک کے آفیسرکو سیستان کے علاقے زاہدان میں تعینات کیا گیاہے یہ اعتماد سازی کی طرف ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ یہ عارضی نہیںبلکہ مستقل تعیناتی ہے دونوں ممالک میں سیکورٹی معاہدے پر بات چیت کاتسلسل بھی منقطع نہیں ہوابلکہ جاری ہے جہاں بات چیت کا عمل ختم نہ ہووہاں کشیدگی نہیں رہتی بلکہ تصفیے کی راہ ہموار ہوتی ہے اگر سرحدی علاقے میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگانے پر پاک ایران قیادت اتفاق کر لیتی ہے اور افغان سرزمین سے دہشت گردوں کے اڈے ختم ہو جاتے ہیں تو معاشی سرگرمیاں بڑھنے کے ساتھ چینی مفادات کا تحفظ بھی بہتر اندازمیں ممکن ہے ایران سے سیکورٹی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا رواں ماہ تہران کا جو دورہ متوقع ہے یہ نہ صرف امن کے قیام کی کلید ثابت ہو سکتا ہے بلکہ چینی سرمایہ کاری کے لیے بھی صورتحال مزید سازگار ہو سکتی ہے لیکن سہ فریقی مزاکرات میں افغان قیادت کو امن عمل کی بحالی میں شامل کر نے سے زیادہ بہتر طریقے سے دہشت گردوں کی بیخ کنی کے ساتھ امن کو لاحق خطرات کوختم کیا جا سکتاہے ۔