... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
اقوام متحدہ کے زیراہتمام ہر سال 3مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد آزادی صحافت کی اہمیت کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے شہید ہونے والے صحافیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ غزہ میں گزشتہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک 141صحافی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 34ہزار سے زائد معصوم شہری اسرائیلی جنگی جنون کا نشانہ بنتے ہوئے شہید ہوچکے ہیں ان شہیدوںمیں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دنیا کو دکھانے پرصحافیوں کو یا تو شہید کردیا جاتا ہے یا انھیں نام نہاددہشت گردی ایکٹ کے تحت قید کردیا جاتا ہے۔
برصغیرمیں اُردو کے پہلے شہید صحافی علامہ سید باقر دہلوی تھے جنھیں مولوی محمد باقر کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔مولوی محمد باقر سن 1780 میں دہلی میں پیدا ہوئے،آپ اردو زبان کے مشہور ادیب اور شاعر محمد حسین آزاد کے والد تھے۔ مولوی محمد باقر شہیدصحافت میں آنے سے پہلے دلی کالج میں استاد تھے ، اردو،انگریزی،فارسی اورعربی زبان پر عبور حاصل تھا۔آپ کی علمی قابلیت سے متاثر ہوکر شاہجہاں آباد کے کلکٹر”مٹکاف” نے آپ کو استاد سے سرکاری عہدہ دیتے ہوئے بطور کلکٹر تعینات کردیا اور کچھ ہی عرصہ بعد مزیدترقی دے کر دہلی کا تحصیلدار بنا دیا۔ ہندوستان میں جب انگریزوں کے مظالم مسلمانوں پر حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو مولوی محمد باقر نے تحصیلدار کی سرکاری نوکری چھوڑ دی اورانگریز حکومت کے خلاف قلم اُٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سن 1837میں اُردو کا پہلا باقاعدہ اخبار” اخبار دہلی” کی اشاعت شروع کی۔ ”اخبار دہلی” ایک ہفت روزہ اخبار تھا جس کی ماہانہ قیمت اس دور میں دو روپے تھی۔ہندوستان میں یہ اُردو کا پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جس میںانگریز حکومت کی خبروں کے علاوہ بادشاہ اور شہزادوں کی خبریں بھی شائع کی جاتی تھیں جس کی وجہ سے اخبار کو ایک منفرد حیثیت حاصل تھی۔اخبار میں” حضوروالا” کے عنوان سے مغل بادشاہ اورشہزادوں کی خبریں اور” صاحب کلاں” عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں شائع کی جاتی تھیں ۔ اخبار میں دیگرسیاسی و تعلیمی سرگرمیوں، مذہبی مضامین ، ادبی تحریریں اور معروف شعراء مومن، ذوق، غالب، بہادر شاہ ظفراور زینت محل کا کلام بھی شائع کیا جاتا تھالیکن اخبار کا بنیادی مقصد ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانا تھا۔ 10 مئی 1840کو اخبار کا نام ”اخبار دہلی ”سے تبدیل کرکے ”دہلی اُردو اخبار” رکھ دیاگیا ۔اخبارانگریزوں،شاہی دربار اورہندوستانی عوام میں مقبول ہونے لگا اور مولوی محمد باقر ہندوستان کے ایک مشہورو معروف صحافی بن گئے۔
سن1857 میں جب ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندووں نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا اعلان کیا تو اس اخبار کا نام ”اخبار الظفر” رکھ دیا گیا تاکہ تحریک آزادی کوبادشاہ بہادر شاہ ظفر کی مناسبت سے تقویت مل سکے۔’یہ پہلا موقع تھا جب ”اخبار الظفر” میں انگریز سرکار کے خلاف کھل کر بغاوت اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی حمایت کی جانے لگی۔اخبار میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے مظالم کا پردہ چاک ہونے لگااور تحریک آزادی زور پکڑنے لگی توانگریزوں نے گھناؤنی سازشیںکرکے ہندو مسلم فساد پیدا کرنا شروع کردیں ادھرمولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں تحریروں اور رپورٹنگ کے ذریعے سازشوں کو ناکام بنا نا شروع کردیا۔ دہلی میں جب تحریک آزادی کو عروج ملا تو انگریزوں نے خفیہ سازش کے تحت مسلمانوں کی جانب سے ہندوؤں کے خلاف جہادکے اشتہار چھپوا کرگلی کوچوں میںلگوادیئے تاکہ ہندو مسلم فساد پیدا ہوجائے اور تحریک آزادی اس میں دب جائے۔اس موقع پرمولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں تحریروں کے ذریعے انگریزوں کی سازش کو سب کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے ہندو مسلم فساد کو پیدا ہونے سے روکا۔ ایک مرتبہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے عید الضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی پر پابندی لگادی تاکہ انگریز اس پر بھی سازش کرکے ہندو مسلم فساد برپا نہ کروادیں۔
مولوی محمد باقر اپنے اخبار میں وہ آزادی کی جنگ کے تمام تر حالات و واقعات کی رپورٹنگ(آنکھوں دیکھا حال) اور قلمی نام سے ہندستانیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے مضامین شائع کرتے رہتے جس کی وجہ سے انگریز سرکاربوکھلاہٹ کا شکارہونے لگی ۔آہستہ آہستہ انگریزمولوی محمد باقر کے سخت خلاف ہوگئے اوران کو جان سے مارنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے ۔بدقسمتی سے جب انگریزوں کا دہلی پر دوبارہ قبضہ ہوگیا تو انھوں نے سب سے پہلے تیارکردہ سازش کے تحت مولوی محمد باقرکو ایک ایسے انگریز کے قتل کے جرم میں گرفتار کرلیاجو عوامی تشدد کا نشانہ بن کرہلاک ہوگیا تھا۔مولوی محمد باقر کو جب فرنگی محکمہ جاسوس کے انچارج کیپٹن ہڈسن کے سامنے پیش کیا گیاتو اس نے انگریز سرکار کی سفارش پر مولوی محمد باقر کو توپ کاگولا مار کرسزائے موت کاحکم سنایا۔مولوی محمد باقر کی سزائے موت سے قبل ان کا بیٹا آزاد حسین جب بھیس بدل کر اپنے والد کا آخری دیدار کرنے گیا تو اس وقت مولوی محمدباقر عبادت میں مشغول تھے،نماز ادا کرنے کے بعد جب باپ کی نظر بیٹے پر پڑی توخاموش رہے اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کردیئے جوبیٹے کے لئے اس بات کا اشارہ تھا کہ اب ہماری آخری ملاقات ہوگئی ہے اس لئے چلے جاو ،کہیں انگریز تمھیں بھی ناحق سولی پر نہ چڑھا دیں۔ بیٹا دل میں خون کے آنسو بہاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔16ستمبر 1857 کو مولوی محمد باقرکو دہلی میں خونی دروازے کے سامنے میدان میںباندھ کر کھڑا کردیاگیا اور پھر نشانہ لے کر توپ کا گولہ ان کے جسم پر داغ دیا،مولوی محمد باقر نے کلمہ پڑھا اور شہید ہوگئے ۔ مولوی محمد باقر کواردو صحافت کا پہلاشہیدصحافی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔