وجود

... loading ...

وجود

''مزہ۔دور''

بدھ 01 مئی 2024 ''مزہ۔دور''

علی عمران جونیئر
دوستو،آج دنیا بھر میں مزدوروںکا عالمی دن منایا جاتا ہے، آج کے دن مزدوروں کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں نکالی جاتی ہیں، ان کے حق میں بیانات دیئے جاتے ہیں، تقاریر کی جاتی ہیں، اخبارات کے صفحات سیاہ کیے جاتے ہیں، ملک بھر میں عام تعطیل کی جاتی ہے لیکن مزدور کو چھٹی پھر بھی نہیں ملتی، اس ملک میں ”مزدور” بے چارہ ”مزہ۔دور” بن کر رہ گیا ہے، یعنی دنیا کی تمام نعمتوں اور آسائشوں سے دور ، روزانہ گڑھا کھود کر پانی بھرتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتا ہے، جس روز دیہاڑی پر نہ جائے تو گھر والے فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔۔آج کی باتیں ایسے ہی اپنے احباب کے نام جن کی زندگیاں مزدوری اور ”مزہ۔دوری” میں گزر گئیں۔۔
پورا ملک ہی طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ پچھتر سال سے مسلسل ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ ملک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس دوران صرف کراچی میں یوپی موڑ، ناگن موڑ، کریلا موڑ، انڈا موڑ سمیت نجانے کتنے نئے ”موڑ” سامنے آچکے۔۔ہمیں بھی سیاحت کا بہت شوق ہے، تین صوبے یعنی سندھ ،پنجاب اور خیبرپختونخوا پورا گھوم چکے ہیں، بلوچستان میں صرف گوادر کو ہی ٹھیک سے دیکھا ہے، لیکن ہم حلفیہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہیں بھی ” نازک موڑ” نہیں دیکھا۔۔ جس طرح ملک طرح طرح کے مسائل کا شکار ہے، اسی طرح اس قوم کو بھی ہزارہا مسائل کا سامنا ہے۔باباجی کہتے ہیں کہ ۔۔دنیا کا سب سے سستا مزدور، شوہر ہوتا ہے۔۔۔جس سے زندگی بھر اس بھرم میں رکھا جاتا ہے کہ وہ پورے گھر کا مالک ہے۔۔۔شیخ صاحب اپنے شہ زور ٹرک پر بیٹھ کر شہر کے چوک میں پہنچے اور لگے وہاں بیٹھے مزدوروں کو آوازیں دینے: کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر، دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا۔پہلے پہل تو لوگ شیخ صاحب پر خوب ہنسے، پھر اسے سمجھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے کہ۔۔۔ جناب والا، آجکل مزدور کی دیہاڑی ایک ہزار روپے سے سے کم نہیں ہے۔ کیوں آپ ظلم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، کوئی نہیں جائے گا آپ کے ساتھ۔ نہ بنوائیے اپنا مذاق۔۔شیخ صاحب اپنے موقف پر ڈٹے اور سُنی ان سُنی کر کے مزدوروں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دیتے رہتے۔ شور کم ہوا اور بہت سارے مزدور تھک کر واپس جا بیٹھے تو تین ناتواں قسم کے بوڑھے مزدور، جن کے چہروں سے ہی تنگدستی اور مجبوری عیاں تھی، شیخ صاحب کی گاڑی میں ا کر بیٹھ گئے اور بولے۔۔ شیخ صاحب، چلیئے ہم کرتے ہیں مزدوری۔ اس بے روزگاری سے بہتر ہے کہ آپ کے پاس مزدوری کر کے، چلو کچھ کما لیں اور گھر کے لئے دال روٹی بنا جائیں۔۔شیخ صاحب نے ان تینوں کو ساتھ لے جاکر ایک یوٹیلیٹی ا سٹور پر روکا، تینوں کو ایک ایک تھیلا بیس کلو کے آٹے کا، پانچ پانچ کلو چینی اور پانچ پانچ کلو گھی لیکر دیا، تینوں کی ہتھیلی پر پانچ پانچ سوروپیہ بھی رکھا اور اجازت دیتے ہوئے کہا۔۔ بس آپ کا اتنا ہی کام تھا، آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔۔۔دوسرے دن شیخ صاحب دوبارہ اپنا شہ زور ٹرک لیکر اسی جگہ پہنچے اور آوازلگانا شروع کی۔۔ کون کون جانا چاہتا ہے میرے ساتھ مزدوری پر۔ دو دو سو روپے دیہاڑی دونگا سب کو۔ مزدور تو گویا تیار ہی بیٹھے تھے، سب سے پہلے چڑھنے کیلیئے ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے سب ٹرک پر سوار ہو گئے۔سنا ہے شیخ صاحب نے سب کو مغرب تک کام کرا کے پورے دو دو سو روپے مزدوری دیکر چھٹی دی تھی۔۔۔
معروف مصنف بابااشفاق احمد حسب ِمعمول اپنے بابا نور جی کے پاس موجود تھے۔عکسی مفتی کو بھی ساتھ گھسیٹ لائے تھے جو بطور ڈرائیور کے استعمال ہوتے رہتے تھے۔ڈیرے کی روایت کے مطابق انہیں شلجم گوشت پیش کیا گیا۔دونوں کھانے لگے کہ دفعتاً ایک مکھی اشفاق احمد کی ہانڈی پر منڈلانے لگی،اشفاق صاحب اسے بار بار ہٹاتے وہ پھر بھنبھاتی پہنچ جاتی۔اس کشمکش کو دیکھ کر عکسی مفتی مسکرا رہے تھے کہ بابا جی بولے ۔۔ پت، مکھی نہیں ماری دی، جتھے آندی اے اوہ گند صاف کری دا (پتر مکھی نہیں مارتے، وہ گندگی صاف کرتے ہیں جس پر وہ آتی ہے) بقول عکسی مفتی، اشفاق احمد کے تو قمقے روشن ہو گئے،وہ ٹھٹھک کر ساکت ہو گئے۔بعدازاں اسی جملے پر انہوں نے ایک دو ڈرامے بھی لکھ مارے۔آپ اشفاق احمد کو جو مرضی سمجھیں، وہ ہر حوالے سے ایک enigmatic آدمی تھا،آپ بابا جی کو فراڈ بھی سمجھ سکتے ہیں مگر بات کی سچائی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ذرا غور نہ بھی کریں تو بالکل واضح ہے کہ رمضان میں بلکہ عبادات میں، ہم مجموعی طور پر مکھیاں ہی مارتے رہتے ہیں، گند صاف نہیں کرتے۔اسی لئے ہر برس مکھیوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے۔اسی طرح معروف ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمن قمرایک جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ،ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا۔۔ ”اوئے خیلے اے کوٹ کتھو لیا ای”(اوئے خلیل یہ کوٹ کہاں سے لیا ہے؟)میں نے کہا۔۔ ”سوایا ہے چاچی”(سلوایا ہے چاچی) لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا۔ خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔۔ پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈرائی کلین کیا ہوا، لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے۔۔ ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے ،تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے اسٹیچنگ وی کمال اے”مَیں نے بِنا کوئی شرم محسوس کرتے ہوئے کہا۔ ”بھائی جان لنڈے چوں لیا اے” لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھائی پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجائے ہنسنے لگ گیا تھا۔۔سچ ہے ،یہ معاشرہ بڑا منافق ہے، غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔”اگر تم کسی کی مدد کرتے وقت جوابی مدد کی اُمید رکھو گے تو یہ کاروبار ہو گا نیکی نہیں”خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر