... loading ...
جاوید محمود
اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے خلاف کیے جانے والے طوفان الاقصیٰ نامی آپریشن کے حوالے سے اسرائیل اور مغربی دنیا کے گمراہ کن بیانیہ کے توڑ کی خاطر تنظیم کا متفقہ سرکاری بیانیہ جاری کیا ہے۔ حماس کے شعبہ نشر واشاعت نے اس بیانیہ کو دنیا بھر کی کئی زبانوں میں جاری کیا ہے۔ طوفان الاقصیٰ ہمارا بیانیہ کے عنوان سے جاری کردہ دستاویز 18 صفحات پر محیط ہے جس میں مختلف ابواب کے تحت اس صدی کے سب سے بڑی معرکے کی تفصیل، حقائق اور درست اعداد وشمار کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔
دستاویز کے مطابق غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ہمارے عوام نے اس دوران میں آزادی وقار اور جرأت کے ساتھ طویل ترین قبضے کے خلاف ثابت قدم رہنے کا بڑا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دوران میں انہوں نے بہادری شجاعت اور عزیمت کے بے مثال مظاہرے ہی نہیں کیے بلکہ اپنی تاریخ رقم کی ہے جس نے قابض فوجوں کو آگ اگلتی جنگی مشین اور جارحیت کا جواب اپنے حریت کردار سے دیا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے عوام اور دنیا بھر کی آزاد اقوام کے سامنے سات اکتوبر 2023 کی سچائی اور اس دن شروع کیے جانے والے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے مقاصد اس کے وسیع پس منظر اور حالیہ تناظر میں پیش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ سچ کو جھٹلانے کے لیے اسرائیلی ہتھکنڈوں کو بھی واضح کریں جن کا واحد مقصد فلسطینی جارحیت کو جھٹلانا اور ناجائز قبضے کو آگے بڑھانا ہے۔ حماس نے یہ بیانیہ جاری کر کے اسرائیل کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی برادری بالخصوص مسلمان کب تک اپنے بچوں بہنوں ماؤں کو اسرائیلی فوجوں کے ہاتھوں قیمہ بنتا دیکھیں گے۔ تصور کریں ان معصوم شہریوں کا کیا قصور ہے؟ کیا ہم یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دیے جائیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے آواز نہ اٹھا سکیں۔ اس سے بڑھ کے کمزوری کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ کے رسول کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہے جب جسم کے ایک حصے کا درد ہوتا ہے تو پورا جسم اس کو محسوس کرتا ہے کیا ہم اس احساس پر پورے اترتے ہیں یا بنیادی طور پہ ہم بے حس ہو چکے ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور نے اعلان کیا کہ جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس سے برآمد ہونے والی 392 لاشوں میں سے صرف 165 لاشیں شناخت ہو سکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اب تک سامنے آنے والی لاشوں سے پتہ چلا ہے کہ ان میں سے 20 کو اسرائیلی فوج نے زندہ حالت میں منوں مٹی کے نیچے دفن کر دیا تھا۔ یو این دفتر نے فلسطینی سول ڈیفنس کے حوالے سے کہا کہ بقیہ 227لاشوں کی شناخت نہیں ہو سکی کیونکہ زیادہ تر لاشوں کو مسخ کر دیا گیا تھا اور انہیں پلاسٹک کے تھیلوں میں دفن کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ گل سڑ گئی تھیں۔ انہیں زیر زمین تین میٹر کی گہرائی میں دفن کیا گیا تھا۔ واضح رہے ناصر میڈیکل کمپلیکس میں تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں ۔ایک مردہ خانے کے سامنے، دوسری اس کے پیچھے اور تیسری ڈائلیسس کی عمارت کے قریب سے ملی ہے جہاں 400 سے زائد لاشوں کو برآمد کیا گیا ۔ان میں بچوں اور خواتین کی لاشیں بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین کی کمشنر جنرل فلپ لازر نے انکشاف کیا کہ غزہ کی پٹی میں گرمی کے باعث کم از کم دو بچوں کی موت کی اطلاعات ہیں۔ لازرینی نے کہا کہ غزہ میں ان دنوں میں گرمی کی ایک غیر معمولی لہر سے گزرا ہے۔ جس نے زندگی کے غیر انسانی حالات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ 17اکتوبر سے اسرائیلی قابض فوج نے امریکی اور یورپی حمایت سے غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی مہم جاری جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس کے طیارے اسپتالوں اور عمارتوں ٹاورز اور فلسطینی شہریوں کے گھروں پر بمباری کر رہے ہیں اور انہیں ان کی رہائشیوں کے سروں کے اوپر سے تباہ کر دیا گیا ۔قابض ریاست نے غزہ کی پٹی کے عوام کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے انہیں پانی خوراک ادویات اور ایندھن جیسی بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پر قابض فوج کی مسلسل جارحیت کے نتیجے میں تقریبا 35 ہزار شہید اور تقریبا78 ہزار افراد زخمی ہوئے اس کے علاوہ پٹی کی آبادی سے تقریبا 1.7 ملین افراد بے گھر ہوئے ۔غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی بربریت میں بین الاقوامی امدادی تنظیم کے ساتھ کارکنوں کی شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے، ورلڈ سینٹر کچن کے کارکنوں کے شمالی غزہ کی طرف جاتے ہوئے حملے میں شہادت کے بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے اسرائیل اور اس کی پشت پناہ قوتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے ورلڈ کچن منسٹرین ورک ٹیم کے 7شہدا کے در ناک واقعے کے ساتھ بڑے پیمانے پر بحث شروع کی ہے۔ انہوں نے ان کو شہدا اور شہدائے انسانیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے عالمی قوتوں کی منافقت اور فلسطینیوں سے تعصب کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گھناؤنے جرائم اور بے گناہوں کا قتل عام بڑی طاقتوں جیسی مجرم عالمی دہشت گرد ریاستوں کی حمایت اور مدد سے ہو رہا ہے۔ امدادی کارکنوں کا خون بھی منافق ملکوں اور ان کی حکومتوں کے گردن پر ہے۔ سوشل میڈیا کے علمبرداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس واقعے نے تباہی کی جنگ کے نسل پرستانہ محرکات کا بھی انکشاف کیا جب قابض ریاست کے وزیر اعظم نتن یاہو کی جانب سے ان معصوموں کو قتل کرنے کے لیے معافی مانگنے کے بعد ایک ایسے وقت میں جب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ شہید زخمی اور لاپتہ کیا وہ معصوم نہیں ہیں؟ ان ممالک کی جانب سے خصوصی طور پران لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور اقدام گویا ان کا خون خالص سرخ ہے جبکہ غزہ کے باقی مظلوم اور بے گناہوں کا جن کا خون 7 ماہ کے عرصے کے دوران سیلاب میں بہایا گیا انکا خون کیوں سفید ہے ؟ مصنف اور سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حملہ آوروں کی جانب سے گلوبل کچن ٹیم کے ارکان کو ہلاک کرنے کے بارے میں دنیا کی چیخ پکار اس کی منافقت کا ثبوت ہے ۔ان کی تعداد اور تو صرف چار تھی اور وہ آسٹریلیا پولینڈ برطانیہ امریکہ کینیڈا سے تھے مگر ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد بھی صیہونی دشمن کی غزہ میں جاری جنگی مشین اور نہتے فلسطینوں کے قتل عام پر دنیا کیوں چپ ہے ؟ یہ حقیقت ہے کہ عرب ممالک کا کیا ایجنڈا ہے؟ وہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ وہ اپنی معیشت کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کرنے میں مصروف ہیں جبکہ فلسطینیوں کی نظریں پاکستان سمیت ان ممالک پر لگی ہیں جو ماضی میں ان کی مدد کرتے رہے ہیں ۔ان کی طرف سے خاموشی نے فلسطینیوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے اور وہ یہ سوال کرنے پہ مجبور ہیںکہ اگر ان کے بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے سامنے ڈال دیا جائے تو کیا وہ اسی طرح خاموش رہیں گے؟ یہ وقت آج ہم پہ آیا ہے کل آپ پہ بھی آ سکتا ہے یہ وہ سوال ہے فلسطینی مسلمان ممالک اور عالمی برادری سے چیخ چیخ کے کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ اس ہولناک حالت میں دنیا چپ کیوں ہے؟