... loading ...
سمیع اللہ ملک
جانتاہوں کہ امیدپرقائم ہے یہ دنیا۔امیدہی توامنگ ہے جینے کی،امیدہی توخوشخبری ہے اورامیدہی آمادہ کرتی ہے انسان کو ۔۔۔ شکست دیتی ہے مایوسی کو۔میرے رب کاحکم ہے کہ مجھ سے امیدکادامن تھامے رکھو۔میں کروں گاتمہاری مرادوں کوپورا،میں ہی توکرسکتاہوں تمہاری آرزوں کی تکمیل،میں ہی توکرسکتاہوں،تمہیں آسودہ اورمفلسی سے بھی میں ہی نکال سکتاہوں،میں ہی تمہاے حالات بدل سکتا ہوں،میں ہی تومخلوق کے دلوں کوتبدیل کرسکتاہوں،میں ہی توکارسازِحقیقی ہوں،میں ہی ہوں دلوں کو پھیرنے والاچراغِ محبت روشن کرنے والا،تمہارے دوستوں کوبڑھاوادینے والااورتمہارے دشمنوں کے چہروں کوخاک آلودکرنے والا،انہیں نابودکردینے والا۔میں ہی ہوں ہرشے پرقادر،قادرِمطلق … . . ……سب ہیں میرے محتاج،میں توکسی کابھی محتاج نہیں ہوں ۔ مجھ سے کون پوچھ سکتاہے؟میں جسے عزت دیناچاہوں کون اس کی تذلیل کرسکتاہے؟اورمیں ہی کسی کوذلیل کردوں توکون ہے جواس کی تکریم کرے؟ہاں جومیرے لیے ذلت برداشت کرے تب اس کامقام بلندہے،جومیرے لیے ٹھکرادیاجائے۔اس کاکیاکہنا،جو میرے لیے محروم کردیاجائے ، اس کی شان مت پوچھو۔
رب امیدہے اورشیطان ناامیدی۔تم جانتے ہوشیطان کانام ابلیس ہے۔ابلیس مایوس کردینے والا،مایوسی کوپھیلانے والا،تنہاکردینے والا، خوف دلانے والا،وسوے پیداکرنے والا،ہرطرح کاخوف۔۔رزق کاخوف،موت کاخوف،بھوک وپیاس کاخوف،جب نام ہی ابلیس ہے تومایوسی پھیلائے گاناں،مگربندگانِ رب کبھی مایوس نہیں ہوتے،کسی بھی حزن میں خوف کاشکارنہیں ہوتے۔توبس بندہ رب بن اور شیطان ابلیس کودھتکاردے،سچے دل اورمجھ پرکامل یقین کے ساتھ لعنت بھیج اس پر۔
مجھے اس غریب پر بڑادکھ اورحیرت ہوتی ہے،بہت رحم آتاہے جوغریب ہوکربھی رب کی طرف نہ پلٹے،رب کادامن نہ تھامے۔ امیر کا تو سمجھ میں آتاہے کہ وہ دولت کے نشے میں مدہوش ہوکربھول جائے رب کو،غریب کیوں نہیں رب سے مانگتا،کیوں نہیں اپنے رب کا در پکڑتا،کیوں آہ وزاری نہیں کرتا؟مجھے حیرت ہے ایسے غریب پر،ہاں مجھے یاد ہیں ان کی باتیں،آبِ زرسے لکھی ہوئی باتیں،میرے اردگردبھی حالات بہت بگڑگئے ہیں۔زمین نے اناج اگاناچھوڑدیاہے،آسمان نوربرسانے سے انکاری ہوگیا،میرے دریاپا نی کوترس گئے،خاک بسرروٹی ڈھونڈرہے ہیں۔۔۔رشتے ناتے ٹوٹ گئے،دلوں کی دنیااجڑگئی،موت کاہرکارہ ہرطرف گھوم رہاہے۔بم دھماکے ہو رہے ہیں،نوجوان مایوس ہیں،میری بچیاں گھروں میں بیٹھی ہوئی بوڑھی ہورہی ہیں،نام ونمودعام ہے، میری آنکھوں کاپانی مر گیا ہے، گھر میں رہتے ہوئے بھی اجنبی ہوگئے سب۔۔۔کسی سے مسئلہ پوچھوتووہ”یہ میراذاتی مسئلہ ہے”کہہ کربیٹھ جاتاہے اوروہ بتاتااس لیے نہیں کہ اعتبارہی نہیں رہا۔بندہ اعتبارکرے بھی توکس پر؟اندرکچھ باہرکچھ۔کتنے بڑے عذاب میں آگئے ہم،کتنے دکھی ہو گئے،تنہاہوگئے،بے یارومددگارہوگئے،بے دست وپاہوگئے۔۔۔ہمارے شہراجڑگئے،بستیاں ویران ہوگئیں ۔۔۔اداسی اورتنہائی اوڑھے ہوئے ہیں ہم،اتنے بڑے ہجوم میں ہرایک تنہا۔سب اپنے اپنے کمروں میں دبکے ہوئے،لاکھ آوازن دو،چیخ وپکارکرکے بلاتوبھی جواب ندار۔۔لیکن جونہی وائی فائی کنکشن ختم کیاتوسب ہی پریشان حالت میں دوڑتے ہوئے اس کاسبب پوچھنے کیلئے موجودہوتے ہیں اوران کے بدلے ہوئے چہروں سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایسی دنیاکے باسی بن گئے ہیں جہاں ماں باپ کے ساتھ گفتگوکرنابھی ان کیلئے محال ہے۔
میرے بابانے بتایاتھا:یہ سب کچھ رحمت ہے۔یہ سب اس لیے ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ جائیں۔اپنے مالک ِحقیقی کوپہچان لیں،اسے منائیں،آہ وزاری کریں۔۔۔ ہم سے بہت بڑاظلم ہوگیا،ہم گمراہ ہوگئے تھے،ہم سے گناہ عظیم ہوگیاتوہمیں معاف کردے، ہمارے گناہوں کونہ دیکھ اپنی رحمت کودیکھ،اپنے پیارے حبیب ۖکے صدقے اپنی رحمت کے طفیل ہمیں معاف کردے،ہم سے درگزرفرمادے،ہم بے سہاراہیں،بس توہی توہے ہماراسہارا،اوردیکھ توہمیں معاف نہیں کرے گاتوہم ظالموں میں سے ہوجائیں گے ہم پررحم کردے۔یادرکھیں:
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گارکہ تقصیرہوگئی
ہاں ہمیں وعدہ کرناچاہئے تھاکہ آئندہ نہیں ہوگا،اس طرح،ہم نہیں چھوڑیں گے تیرادامن،ہم دردرکے بھکاری بن گئے،اپنے غیبی خزانے ہم پرکھول دے،ہمیں رسوانہ کر،ہاں ہم آئندہ تیرادر نہیں چھوڑیں گے۔لیکن کتنے دکھ کی بات ہے،کتنی محرومی ہے کہ ہم اس مصیبت میں بھی اسے بھول گئے ہیں۔ہم کیاکررہے ہیں،دردرکی بھیک مانگ رہے ہیں۔۔۔ہماری مددکردوآئی ایم ایف والو، امریکاوالو! ہمارا پانی چھوڑدومہربانی ہوگی،ہمارے مزدوروں کوروزگاردے دو،گندم دے دو،روٹی دے دو،ہم پربمباری نہ کرو!دہشتگردوں کی اعانت بندکردو۔تمہیں یادہے کہ ہم نے تواپنی عزت تمہارے ہاں گروی رکھ کراپنے ہوائی اڈے تمہارے حوالے کردیئے تھے جہاں سے تم نے خوداپنی رپورٹ میں عالمی میڈیاکو بڑے تفاخرسے بتایاکہ ہم نے پاکستانی ہوائی اڈوں سے افغانستان پر دوہفتوں میں 57ہزارفضائی حملے کرکے ایک عالمی ریکارڈقائم کیاہے،اس رسوائی کے بعدہم نے یہ پیغام بھی بھیجاکہ ہم خوداپنے لوگوں کوماریں گے ،ان کوزندہ گرفتارکرکے تمہارے حوالے کریں گے،بس ہمیں ڈالردے دو۔۔۔یہی کیاناں تم نے بلکہ بے شرمی سے اپنی کتاب میں اس بے غیرتی کاذکرکیاکہ کس کے بدلے میں کتنے ملین ڈالرموصول کئے۔کیااس سے انکارکی کوئی گنجائش بچی ہے؟قوم کی بچی عافیہ صدیقی کی آہوں سے کیسے بچ پاؤ گے؟آخراس طرف تمہاری توجہ کیوں نہیں جاتی کہ ان تقصیروں کی گڑگڑاکرمعافی مانگنے کی ضرورت ہے،قبولیت اگرہوگئی توتب ہماری عزت بحال ہوگی۔
پاکستان کے ایک بہت بڑے صحافی اورشاعرآغا شورش کشمیری نے سید ابوالاعلی مودودی کوایک خط لکھاجس میں انہوں نے کہامولاناتاریخ انسانی میں ہمیشہ باطل کی فتح ہوئی ہے۔مولانانے اس خط کے جواب میں جولکھاوہ سننے کے لائق ہے۔
حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خودحق،ہے،وہ ایسی مستقل اقدارکانام ہے جوسراسرصحیح اورصادق ہے۔اگرتمام دنیااس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے کیونکہ اس کاحق ہونااس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیااس کو مان لے،دنیاکاماننانہ ماننا سرے سے حق وباطل کے فیصلے کامعیارہی نہیں ہے۔دنیاحق کونہیں مانتی توحق ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیاہیجس نے اسے نہ مانا اور باطل کوقبول کرلیا.ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انہیں ردکردیااورباطل پرستوں کواپنارہنمابنایا۔اس میں شک نہیں کہ دنیامیں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اوروہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں، لیکن لوگوں کاردوقبول ہرگزحق وباطل کامعیارنہیں ہے۔ لوگوں کی اکثریت اگراندھیروں میں بھٹکنااورٹھوکریں کھاناچاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اورٹھوکریں کھاتی رہے۔ہماراکام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلاناہی ہیاورہم مرتے دم تک یہی کام کرتے رہیں گے۔ہم اس سیاللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکنے یابھٹکانے والوں میں شامل ہوجائیں۔اللہ کایہ احسان ہے کہ اس نے ہمیںاندھیروں میں چراغ جلانے کی توفیق بخشی۔اس احسان کاشکریہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں۔
مجھے یادآیاکہ ایک پروگرام میں مجھ سے سوال کیاگیاکہ آخرآزمائش اورعذاب میں فرق کیسے کریں؟کیسے پتاچلے کہ یہ آزمائش ہے یا عذاب؟ بہت ہی آسان ہے یہ معلوم کرنا۔ میرے اس فقرے کی وضاحت مانگناشروع کردی گئی:جب کوئی مصیبت کوئی آفت کوئی بیماری تنگ دستی تجھے تیرے رب سے قریب کرتی چلی جائے توخوش ہوناکہ یہ آزمائش ہے ، دعاکرناکہ اے بارالہہٰ:ہمیں اس آزمائش میں پورا اتار۔ میرے مالک تیری رضامیں ہماری رضاہے۔بس توخوش رہنا،اورجب کوئی دکھ،تکلیف،مصیبت،تنگ دستی تجھے اپنے رب سے بھی دور کرتی چلی جائے توسمجھ لینایہ عذاب ہے،دھتکارہے،پھٹکارہے۔
مجھے جوکچھ کہناتھاکہہ دیا۔ میرے مالک عذاب سے بچالے،میرامولا! تنہااوربے یارومددگارنہ چھوڑ،پروردگار! ہم پررحم کرواور مجھے یہ سمجھ دے کہ میں تیری عنائت کردہ نعمتوں کا شکربجالاؤں۔گڑگڑاکردعامانگیں کہ میرے مالک،مجھے دنیاوآخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما دے۔ میرے مالک تیری بادشاہی میں رہ کرتجھ سے بغاوت کے مرتکب رہے جس پر نادم ہیں۔میرے مالک اس جاری عذاب سے نجات دے۔میرے مالک ہمیں تنہا اوربے یارومدد گارنہ چھوڑ،مالک ہم پررحم کردے اورمجھے یہ سمجھ دے ،یہ توفیق دے کہ مالک ِحقیقی کو پہچانوں، زمینی خداؤں کاانکارکردوں اورحقیقی رب سے اپنارشتہ جوڑلوں جس کے احسانات کامیں شماربھی نہیں کرسکتا۔
دوپل کاجیناہے اورپھراندھیری رات سجنو۔کچھ بھی توباقی نہیں رہے گا،بس نام رہے گااللہ کا۔مجھ کواپنادوست بنالے،ایساایک اشارے پرجوسب کچھ دھردے کانوں کومہمل کلمہ سننے کا،اورمیرے دل کوخواہش سے مفردے تجھ کوسوچ سکوں،وہ ذہن عطا کرتجھ کودیکھ سکوں میں،ایسی نظردے میں بھی عذاب گہہ دنیاسے دورہوجاؤں میرے مولا!مجھ پررحم کر دے،بس رحم کردے، نہیں تومیں کہیں کانہیں رہوں گا۔مجھے توبتہ النصوح کی توفیق عنایت فرما ۔۔اللھم آمین۔
فوج حق کوکچل نہیں سکتی
فوج چاہے کسی یزیدکی ہو
لاش اٹھتی ہے پھرعلم بن کر
لاش چاہے کسی شہید کی ہو