... loading ...
جاوید محمود
پاکستان پچھلے 27 سالوں سے ایک ایٹمی قوت ہے اور یہ واحد اسلامی ملک ہے جو جو ایٹمی قوت کا مالک ہے مگر اس کی آبادی کی ایک بہت بڑی تعداد ابھی بھی غربت کی لکیر کے قریب یا اس سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ غربت کے اعداد و شمار میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 2018میں پاکستان کی آبادی 31.3 فیصد یعنی تقریبا سات کروڑ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے پر مجبور تھی۔ 2020 میں یہ تعداد بڑھ کر 40 فیصد تک یعنی آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی پچھلے دو سالوں میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر خصوصاً اشیاء خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔ اس لیے اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف پچھلے دو سالوں کے افراط زر کی وجہ سے تقریبا 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔ غربت کی وجہ سے شہروں میں آباد لوگوں کے صرف 13 فیصد بچے مڈل اسکول تک پڑھ پاتے ہیں جبکہ دہی علاقوں میں یہ شرح دو فیصد کے قریب ہے ۔اس طرح شہری علاقوں کے تین سال کی عمر کے قریب صرف 8.5 فیصد بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ یہ تعداد اس سے بھی کم ہے کیا پاکستان میں اس کمر توڑ غربت کا خاتمہ ممکن ہے ۔یقینا یہ ناممکن کوشش نہیں اور ہمیں اس میں پچھلے 76 سالوں میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہیں۔ مگر اس جہد مسلسل میں پچھلی دو دہائیوں میں وہ تسلسل دکھائی نہیں دیا جو اس سے پہلے حاصل کامیابیوں کو بھی خطرے میں ڈالے ہوئے ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے ہمیں سماجی منصوبوں میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے تین بنیادی میدانوں یعنی آبادی میں اضافے تعلیم اور ٹیکس وصولی کرنے کے نظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے پاکستان ا بادی میں اضافے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ آگے نظر آتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی خطرناک دو فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے اور 2050 میں پاکستان کی آبادی 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہوگی ۔اتنی بڑی آبادی کے لیے مختلف فلائی سہولتیں مہیا کرنا پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک کے لیے تقریبا ناممکن ہے ۔اس بڑھتی ہوئی آبادی سے نہ صرف غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا بلکہ جرائم کی تعداد بھی بڑھے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آبادی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے پوری ریاستی مشینری حرکت میں آئے اور سارے شراکت داروں کو ساتھ ملا کرآبادی کو بڑھنے سے روکنے کے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر عمل درآمد کرائے ۔کافی ترقی پزیر ممالک خصوصاً مسلمان ممالک جن میں بنگلہ دیش ،ایران، انڈونیشیا اور ملائشیا شامل ہیں نے ان منصوبوں پر کامیابی سے عمل کرتے ہوئے آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کو روک کر اپنے ممالک میں غربت میں نمایاں کمی لائے ہیں۔
پاکستان کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے پاکستان بھر میں .26.2 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں جو تشویش کا باعث ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسکول جانے والی عمر کے 39فیصد بچے اس وقت اسکول سے باہر ہیں جو کہ عالمگیر تعلیم کو یقینی بنانے میں ایک مستقل چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق نائجیریا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ بچے اسکولوں میں نہیں جا پاتے ۔ یہ ان پڑھ بچے بڑے ہو کر غربت بے روزگاری اور جرائم میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔ غربت میں اضافے کو روکنے کے لیے پاکستان میں اپنے ٹیکس جمع کرنے کے نظام میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ٹیکس جمع کرنے کے موجودہ فرسودہ اور بد عنوان نظام کی وجہ سے ریاست کو ضروری وسائل مہیا نہیں ہو پاتے جن کی وجہ سے مختلف فلاحی منصوبوں اور سماجی شعبوں میں مناسب سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی۔ پاکستان ٹیکس کا نظام غریبوں پر ٹیکس کا بوجھ امیروں سے زیادہ ڈالتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 80 فیصد زیادہ ٹیکسوں کی وصولی درمیانے اور غریب طبقے سے بجلی گیس موبائل فون پٹرول اور عام استعمال کی دیگر اشیاء پر عائد ٹیکسوں سے حاصل کی جاتی ہے جبکہ امیر ترین طبقہ صرف پانچ فیصد کے قریب ٹیکسوں کی صورت میں ادائیگی کرتا ہے۔ اس غیر منصفانہ نظام میں اصلاحات جن میں غریبوں پر ٹیکسوں میں کمی شامل ہو سے غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے اور کم آمدنی والے لوگوں کے لیے زندگی بہتر بنانے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جا سکتے ہیں۔ غربت میں کبھی پاکستان کے لیے اشد ضروری ہے ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے جلد ہی ہم ایک تشدد و سماجی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں غربت کی شرح میں تیزی میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اس شرح میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ عالمی بینک کی موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں محض ایک سال کے دوران غربت کی شرح 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.3 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یوں پاکستان میں 95 ملین افراد بنیادی ضروریات زندگی پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔معاشیات کے ماہرین کے مطابق دو قسم کی غربت ہوتی ہے ۔ایک مطلق اور ایک نسبتی یہاں یہ نسبتی غربت ہے اور اس میں اس وقت تک مسلسل اضافہ ہوگا جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوتا ۔معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ جب ملک میں غیر یقینی صورتحال ہو تو کوئی بھی سرمایہ کا ری کرنے کا رسک نہیں لے سکتا ۔امن و امان کی غیر یقینی صورتحال بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت کی شرح کو تقریباً 40فیصد پر برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشی نمو 1.8 فیصد تک محدود رہنے کا امکان ہے۔ تقریباً 10 ملین پاکستانی پہلے ہی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ 2018 میں سات کروڑ افراد غربت کی لکیرکے کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ پھر 2020میں یہ تعداد بڑھ کر آٹھ کروڑ 70 لاکھ کے قریب پہنچ گئی تھی ۔
ماضی اورحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ ہے۔