وجود

... loading ...

وجود

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اتوار 28 اپریل 2024 جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اس کے برعکس جناح اس وقت کیا کرنے میں مصروف تھے ؟ کانگریس اور گاندھی سے مایوس ہونے کے باوجود جناح ہندو مسلم اتحاد کے لئے کوشاں تھے ۔1927ء میں سری نواس آیئنگر کانگریس کے صدر منتخب ہوئے ان دنوں جناح مسلم لیگ کے صدر تھے ۔ ساتھ ہی دونوں مرکزی اسمبلی کے ممبر تھے ۔ دونوں کی آپس میں ڈسکشنز ہوتی تھیں کہ کیسے اس بات کو ممکن بنایا جائے کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو اور ساتھ ہی ہندوؤں کا یہ شکوہ بھی دور کیا جائے کہ جداگانہ طرز انتخاب فساد کی جڑ ہے ۔
20 مارچ 1927کو جناح کی دعوت پر ہندوستان کے 30 بڑے مسلمان لیڈر دہلی کے ویسٹرن ہوٹل میں اکٹھے ہوئے جن میں مہاراجہ محمود آباد ، سر عبدالقیوم، ڈاکٹر انصاری، سر محمد شفیع اور مولانا محمد علی بھی شامل تھے ۔طویل بحث مباحثے کے بعد اس کانفرنس میں مسلمانوں کی طرح سے کچھ تجاویز پیش کی گئیں ان کی قبولیت کی صورت میں مسلمانوں کی طرف سے مخلوط انتخابات کے نظریہ کو قبول کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔ یہ تجاویز ، ”تجاویز دہلی” کے نام سے مشہور ہوئیں۔
1 ۔سندھ کو احاطہ بمبئی سے الگ کرکے ایک جدا صوبہ بنادیا جائے۔
2 ۔شمال مغربی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں دیگر صوبہ جات کی طرح اصلاحات رائج کردی جائیں۔
3 ۔مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی ایوان کی ایک تہائی تعداد سے کم نہ ہو۔
4 ۔پنجاب اور بنگال کی مجالس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے مقرر کی جائے۔
5 ۔ مسلمانوں کی اقلیت کے صوبوں میں ان کا ویٹیج برقرار رکھا جائے ۔
29 مارچ 1927 کو جناح نے ان تجاویز پر بات کرتے ہوئے ایک اخباری بیان میں فرمایا کہ ”ہماری اس پیشکش کی تمام شقیں ایک
دوسرے سے ملحق اور لازم و ملزوم ہیں اگر فریق ثانی اس پیشکش کو قبول کرتا ہے تو کلی اور مجموعی حیثیت سے قبول کرے اور اگر رد کرتا ہے تو بھی کلی اور مجموعی حیثیت سے رد کرے ”۔ جناح کا مزید کہنا تھا کہ ” میں یہ بتاتا چلوں کہ اس پیشکش کی جو دور رس نتائج کی حامل ہے ایک بہت ہی قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جداگانہ طریقہ انتخاب سے ”لو اوردو” کے اصول کو مکمل طور پر اپنا کر ہی گلوخلاصی کرائی جاسکتی ہے ۔ مجھے اعتماد ہے کہ اس پر رواداری کے جذبہ کے تحت تنقید کی جائے گی۔ جداگانہ اور مخلوط انتخاب کا مسئلہ بالآخر ایک طریقہ ہے اور ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ۔ پیش نظر مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اکثریت کی جانب سے کسی بھی ظالمانہ کارروائی کے خلاف محفوظ و مامون ہیں اور انہیں قومی حکومت کے ارتقا کے عبوری دور میں اس بات سے خوفزدہ ہونے کی
ضرورت نہیں کہ اکثریت اس پوزیشن میں ہوگی کہ وہ اقلیت کو دبا یا ڈرا دھمکا سکے گی”۔
پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے صدر سر شفیع جب واپس لاہور پہنچے تو پنجاب کے اہم مسلمان لیڈران میاں فضل حسین اور اقبال نے
جداگانہ طرز انتخاب سے دستبرار ہونے کی مخالفت کی۔اقبال کو جب بتایا گیا کہ کانگریس اپنے اجلاس میں تجاویز دہلی کو منظور کرلے گی تو اقبال نے حکیم محمدحسن قرشی سے کہا کہ
”مجھے یقین نہیں آتا کہ ہندو کبھی سمجھوتے پر رضامند ہوسکیں، بلکہ میرا تو خیال ہے کہ اگر مسلمان زعماء ہندولیڈروں کی سب شرطیں مان لیں اور بلا شرط مفاہمت کی پیشکش کریں ، جب بھی ہندو اس سے انحراف کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنے کی سعی کریں گے” ۔
15 مئی 1927ء کو سری نواس آیئنگر کی صدارت میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس بمبئی میں ہوا جہاں ”تجاویز دہلی”کو منظور کرلیا گیا بعد میں کانگریس کے مدراس کے اجلاس عام میں بھی ان تجاویز کو منظور کرلیا گیا البتہ ہندو مہا سبھا نے تجاویز دہلی کی سخت مخالفت کی۔
سری نواس آیئنگر نے ان تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ” عرصہ دراز کے بعد یہ موقع پیش آیا ہے کہ ہندوستان کے سربرآوردہ
مسلمان رہنماؤں نے پہلی مرتبہ اس دلی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہندوستان میں حقیقی اور پائیدار بنیاد وں پر قومی زندگی استوار کی جائے ۔ یہ تجاویز جو اب تجاویز دہلی کے نام سے ہمارے ملک میں مشہور ہوچکی ہیں، ہمارے مسلمان احباب کی اسی خواہش کی آئینہ دار ہیں۔ ان تجاویز پر بعض حلقوں میں نظری اعتراض کیے جارہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تجاویز اس وقت ہمارے درمیان ایک نہایت محفوظ اور معقول مفاہمت کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ جس پر آگے چل کر مستقبل میں مکمل و مستحکم قومیت کی عمارت کھڑی کی جا سکے گی”۔
موتی لال نہرو کا کہنا تھا کہ ” ملک میں اس وقت جو افسوسناک فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوچکی ہے اس کو دور کرنے کے لئے ان تجاویز
سے بہتر اور کوئی نسخہ نہیں ہے ”۔
سروجنی نائیڈو نے کہا ”کانگریس نے مسٹر جناح کی، جنہیں مسٹر گوکھلے ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر کہا کرتے تھے ، تجاویز منظور کرکے ثابت کردیا ہے کہ یہ جماعت ہندوستان کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے میں بجا اور مخلص ہے ۔ میں متحدہ قومیت ہند کی طرف سے کانگریسی لیڈروں کی خدمت میں ان کے اس کارنامے پر ہدیہ تشکر و تہنیت پیش کرتی ہوں”۔
اس موقع پر مولانا محمد علی کا کہنا تھا ”دہلی کے ویسٹرن ہوٹل میں مسلمان رہنماؤں کی جو کانفرنس ہوئی تھی اس میں ہر نوع کا سیاسی
عقیدہ رکھنے والے لوگ شامل تھے ۔ جب آخر تک تصفیہ کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ہم نماز مغرب کے لیے اٹھے ۔اور بارگاہ ربی میں میں خلوص دل سے دعا کی کہ اس وقت فرقہ وارانہ کشیدگی سے ملک میں جو تاریکی چھا رہی ہے اس میں ہمیں منزل مقصود کا صحیح راستہ دکھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قبولِ دعا کی گھڑی تھی کیونکہ نماز کے فوراً بعد جب ہم دوبارہ جمع ہوئے تو مرکزی اسمبلی کے نائب صدر ( سر محمد یعقوب) کی تحریک پر مخلوط انتخاب کی تجویز منظور کرلی گئی۔اور یوں اس قضیئے کا فیصلہ ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والی نسلیں ہمارے اس فیصلے پر ہمیشہ فخر کریں گی”۔
بعد میں تجاویز دہلی کا کیا ہوا، مسلم لیگ کی تقسیم، سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ پر نظر اگلی قسط میں ڈالیں گے۔(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر