... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
پاکستان کا مستقبل اب نونہالوں پر ہے جو ہماری آبادی کا 40فیصد بنتے ہیں ۔ہم نے اپنے حصے کا جو کام کرنا تھا وہ کرلیا۔ہمارے بزرگوں نے بہت بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں یہ عظیم ملک لیکر دیا۔انہوں نے تعمیر وطن میں اپنا خون بھی پسینے کی طرح بہایا جسکے بعد ہی لازوال ملی نغمہ اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہوتخلیق ہوا ۔ مگر بدقسمتی سے ہم اپنی نئی نسل کوجو پاکستان دیکر جارہے ہیں وہ قرضوض کی دلدل میں دھنسا ہوا ، مصائب میں الجھا ہوا ،غربت کا مارا ہوا ،دھونس اور دھاندلی سے اجڑا ہوا ،بدمعاشوں ،چوروں ،اچکوں اور قبضہ گروپوں سے بھرا ہوا ، ٹھگوں، لٹیروں اور نوسربازوں سے جکڑا ہوا ،کہیں کچے کے ڈاکوئوں سے بھرا ہوا تو کہیں پکے ڈاکوئوں کا مارا ہوا ایک طرف دہشت گردی کا زخمایا ہوا تو دوسری طرف کرپشن سے دھندلایا ہوا ،غربت ،پسماندگی اور بے روزگاری سے تھکایا ہوا اور تو اور جعلی ،ملاوٹ اور دو نمبر اشیاء کی بھر مار والا ایسا پاکستان ہم اپنی آنے والی نسل کو دیکر جارہے ہے۔ جہاں ایک طرف خوراک کی کمی ہے تو دوسری طرف فاسٹ فوڈ کی بھر مار ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل بچپن میں ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہورہی ہے نظر کی کمزوری سے لیکر مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار ہے اور بہت کم لوگ ہیںجو اس طرف توجہ کیے ہوئے ہیں ان میںایک ایسا شخص ثناء اللہ گھمن بھی ہے جو بچوں کی صحت کے حوالے سے بہت پریشان ہیں ۔اسی حوالہ سے وہ کبھی اسلام آباد میںکبھی لاہور میںکبھی کہیں تو کبھی کہیں بچوں کی صحت کے حوالہ سے سیمینار کرواتے رہتے ہیں ،انکی ٹیم میں منور حسین جیسے ہیرے بھی موجود ہیں جو دنیا بھر میں بچوں کی صحت کے حوالہ سے اپنی ایک الگ ہی پہچان رکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کرنا کرانا تھا وہ کرلیا، اب انہی بچوں نے آکر ملک کو چلانا ہے لیکن ہم ان کو جو خوراک دے رہے ہیں، وہی بچوں میں اموات کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ایک طرف تو پاکستان میں موٹاپے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ پچھلے چند سالوں کے درمیان پاکستان میں بچوں میں موٹاپے کی شرح دوگنا ہو گئی ہے، اگر ہم نوجوان نسل اور بزرگوں کی بات کریں تو پاکستان اس وقت 3کروڑ 30لاکھ لوگوں کے ساتھ ذیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے لوگوں کا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جس تیزی سے اس مرض میں اضافہ ہو رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان دنیا بھر میں پہلے نمبر پرآجائے ان بیماریوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ موٹاپا اور غیر صحت مند خوراک ہے جس میں میٹھے کا زیادہ استعمال بھی ہے جو دل، ذیابیطس، گردوں اور کئی غیر متعدی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ہے میٹھے کا سب سے زیادہ استعمال میٹھے مشروبات کی صورت میں ہوتا ہے جس کے ایک چھوٹے گلاس میں 7سے 8چمچ چینی موجود ہوتی ہے۔ ان مشروبات میں سوڈا، جوسز، اسکوائشز اور فلیورڈ دودھ شامل ہیں بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے حکومت پنجاب نے پرائمری سکول کے بچوں کو ا سکولوں میں دودھ مہیا کرنے کا پروگرام بنایا ہے جو ایک انتہائی قابل ستائش عمل ہے جس کے لیے حکومت پنجاب تعریف کی مستحق ہے لیکن ہم ان کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ بچوں کو میٹھے ذائقہ دار دودھ کی بجائے سادہ دودھ مہیا کیا جائے کیونکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایات کے مطابق اس طرح کا میٹھادودھ بچوں کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے ۔اس سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو گا جس کی تصدیق سابق ڈائریکٹر جرنل ہیلتھ پنجاب ڈاکٹر فیاض رانجھا بھی کرچکے ہیں کیونکہ تحقیق سے ثابت ہے کہ ایسی خوراک جس میں چینی، نمک یا چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ وہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مضرہے میٹھے کا زیادہ استعمال ذیابیطس، موٹاپے اور کینسر سمیت بہت سی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ 4لاکھ سے زیادہ لوگ ذیابیطس اور اس سے ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں ۔روزانہ ایک میٹھا مشروب پینے سے ذیابیطس کا خطرہ 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ فلیورڈ دودھ بھی میٹھے مشروبات کی ایک شکل ہے۔ اس لیے ا سکول کے بچوں کو فلیورڈ دودھ ہر گز نہ دیا جائے جو ہمارے مستقبل کو معذور کردے گا ، جبکہ پاکستان میں پہلے ہی غیر متعدی بیماریوں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے موٹاپے، ذیابیطس اور گردوں جیسی بیماریوں میں مبتلاء ہو رہے ہیں اور ان بیماریوں کی بڑی وجہ میٹھے مشروبات کا استعمال استعمال ہے جس میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اسکول کے بچوں کو مضر صحت فلیورڈ ملک کی بجائے بغیر چینی ملا دودھ مہیا کیا جائے ۔ثناء اللہ گھمن کی پناہ اپنے ہم وطنوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے پچھلے 40سال سے سرگرم عمل ہے اور حکومتی سطح پر ایسی پالیسیز بنوانے کے لیے کوشاں ہیں جس سے ان وجوہات میں کمی لائی جائے جو ان بیماریوں کی وجہ بنتی ہیں۔ اس لیے بچوں کی صحت ہماری اولین ترجیع ہونی چاہیے کیونکہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں جنہوں نے آنے والے وقت میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنا ہے آخر میں چند باتیں بچوں کے وادلین کے حوالہ سے بھی جو اس وقت اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اور خوراک کے حوالہ سے سخت مشکلات کا شکار ہیں ۔ہماری زیادہ آبادی دیہاتی علاقوں پر مشتمل ہے جو نہ صرف ہمیں خالص خوراک مہیا کرتی ہے بلکہ ہمارے بچوں کے لیے خالص دودھ کا حصول ممکن بنارہے ہیں لیکن اس وقت ہمارے کسان بھائی سخت مشکل اور پریشانی میں مبتلا ہیں کہ حکومت نے ابھی تک انکی گندم خریدنا شروع نہیں کی۔ سارا سال کسان مٹی میں مٹی بنا ہوتا ہے کئی کئی سال اپنے کپڑے نہیں خریدتا بار بار ٹوٹنے والی جوتی کو کبھی خود تو کبھی موچی سے سلائی کروالیتا ہے ۔وہ خود کبھی کسی اچھے ریسٹورنٹ میں گیا اور نہ ہے اپنے اہل خانہ کو کسی فائیو سٹار ہوٹل میں عیاشی کروائی، ہمارا غریب کسان تو گھر کی سبزی ،اچار اور چٹنی سے روٹی کھا کر اپنے بچوں کو بڑی مشکل سے سرکاری سکول میں پڑھا پاتا ہے اور کسانوں کی خوشیوں کا دارومدار گندم کی فصل پر تھا جسے ہماری حکومت کے ناکام منصوبہ سازوں نے تباہ برباد کردیا ہے راتوں کو جاگ جاگ کر پانی لگانے والا ،آڑھتی سے ادھار بیج،کھاد اور سپرے لینے والا اللہ کا دوست غریب کسان اب اپنا آپ بھی بیچ کر اپنے بچوں کا مستقبل نہیں سنوار سکتا بلکہ کم قیمت پر گندم خریدنے والے مڈل مین بغیر کسی محنت اور مشقت کے عام کسان سے زیادہ منافع کما رہا ہے حکومت کی اس طرح کی پالیسیوں سے ہمارا مستبل جو پہلے ہی خراب ہے کہیں مزید خراب نہ ہوجائے۔ اس لیے ہمیں عام عادمی کے مسائل کو کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ سب کا پاکستان ہے اور اس پہ جان بھی قربان ہے ۔