وجود

... loading ...

وجود

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

جمعه 26 اپریل 2024 کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ریاض احمدچودھری

انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بھارتی وزیر اعظم نے مسئلہ کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں بھارت نواز کشمیری رہنما بھی مودی پر پھٹ پڑے اور مودی کے غیر قانونی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی۔ مقبوضہ کشمیر کے 14 سیاسی رہنماؤں کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ بیٹھک بے نتیجہ ثابت ہوئی، کشمیری قیادت نے مودی سے آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کیا، محبوبہ مفتی نے مسئلہ کے حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر زور دیا۔مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کا ایک اور ڈرامہ فلاپ ہوگیا، کشمیری قیادت کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم کی آل پارٹیز کانفرنس بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ ساڑھے 3 گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں شرکا نے آرٹیکل 370 کے خاتمہ پر بھارتی وزیر اعظم پر خوب تنقید کی جس پر مودی نے کہا کہ مناسب وقت پر مقبوضہ وادی کی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔میٹنگ میں آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے پانچ سالوں کے بعد مودی سرکار نے سرکار کے سیاسی لیڈروں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔
اے پی سی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ 5 اگست 2019ء سے مقبوضہ کشمیر کی عوام تکلیف میں ہے، بی جے پی نے 70 سال کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے کی جدو جہد کی۔ ہم بھی کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کروا کر دم لیں گے۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم سے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ مقبوضہ وادی میں بسنے والے کشمیریوں کے معاشی حالات بہتر ہوں۔جموں کے لوگ پانچ اگست کے بعد سے غصے اور صدمے میں ہیں۔ عمر عبد اللہ نے کہاکہ ہم پانچ اگست کے اقدام کو نہیں مانتے،ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے،ہم کورٹ میں لڑیں گے۔ آرٹیکل 370 کو بھارتی سرکار بحال کرے۔ ہماری لڑائی اس اقدام کی واپسی تک جاری رہے گی۔ لداخ یونین ٹیریٹری کا درجہ عوام نہیں چاہتے۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائیکا درجہ بحال کیا جائے۔ کشمیری رہنما غلام نبی آزاد نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے اور گرفتار رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا کرتے ہوئے کہاکہ جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ جلد واپس ملے اور اسمبلی انتخابات فورا کرائے جائیں۔ ڈومیسائل سے متعلق پرانے قوانین کو برقرار رکھا جائے۔ ریاست کی تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔
محترمہ محبوبہ مفتی نے اسلام آباد سرینگر ہائی وے پر غیر ضروری ناکوں اور جامہ تلاشیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی تلاشی لی جا رہی ہے، ان کے موبائل فون چھینے جا رہے ہیں اور انہیں من گھڑت الزامات کے تحت گرفتارکیا جارہا ہے۔ ظلم و زیادتی کے خلاف اپنی آواز بلند کرنا ان کا منشور ہے۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ایک دن ضرور آئے گا جب انہیں اپنے کئے پر پچھتاوا ہوگا، جنہوں نے کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم و زیادتی کی کیونکہ کشمیری لوگ خاموش ہیں لیکن مردہ نہیں۔ ان کے پارلیمنٹ میں جانا جموں کشمیر کے بے کس اور لاچار عوام کی آواز کو بلند کرنا ہے، اور اس بات کو اجاگر کرنا کہ 5 اگست 2019 کا فیصلہ یہاں کی عوام کو قطعی طور منظور نہیں ہے۔آج نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان لڑائی نہیں ہے اور نہ ہی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے درمیان کوئی سیاسی جنگ ہے، آج صرف جموں کشمیر کی عوام کو ظلم و زیادتی سے نجات دلانے کی لڑائی ہے۔ ان طاقتوں کو روکنے کے لئے یکجا ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے کہاہے کہ تنازعہ کشمیر کا حل ان کی پارٹی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے یہاں کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اوراس دوران بڑی تعداد میں بچے یتیم اور خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ دفعہ370اور جو کچھ اگست 2019میں ہم سے چھین لیا گیا تھا، سود کے ساتھ واپس لیں گے۔ ہمیں پائیدار امن اور استحکام کی خاطر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مل کر جمہوری جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے دفعہ 370 کی منسوخی کے پارلیمنٹ اور صدر مملکت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے بعد جموں و کشمیر کے سیاسی گلیاروں میں ایک بار پھر ہلچل دیکھی گئی ۔ سماجی رابطہ گاہوں، ویڈیو، آڈیو پیغامات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ بی جے پی کو چھوڑ کر تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ”با دل نخواستہ قبول” کر لیا ۔ جہاں جموں و کشمیر کے دو سابق وزراء اعلیٰ ـ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ ـ کو گھروں میں نظر بند کیے جانے کو جموں کشمیر لیفٹیننٹ گورنر اور ریاستی پولیس نے غلط قرار دیا ہے وہیں دونوں لیڈران نے مبینہ طور انہیں نظر رکھے جانے کی مذمت کی ہے۔ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہا: ”میرے ہم وطنو، سپریم کورٹ کا فیصلہ منزل نہیں بلکہ محض ایک پڑاؤ ہے۔ اسے منزل سمجھنے کی غلطی مت کرو۔ ہمارے مخالفین چاہتے ہیں کہ ہم دل برداشتہ ہو کر امید ہی چھوڑ دیں، تاہم ایسا ہمیں ہرگرز نہیں کرنا چاہئے۔”سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ دفعہ 370عارضی تھا، اسی لیے اس کو منسوخ کر دیا گیا۔ یہ کشمیریوں کی ہار نہیں بلکہ آئیڈیا آف انڈیا کی ہار ہے۔”


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر