... loading ...
میر افسر امان
فتح علی ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادیِ وطن کا ایک نشان اور ایک استعارہ ہے۔ ٹیپو سلطان1760ء میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ٹیپو سلطان کے آبائو اجداد کا تعلق مکہ کے ایک معزز قبیلے قریش تھا جو مغلوں کے دور حکومت میں ہجرت کر کے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی میں آ کر آباد ہو گیا تھا۔ ٹیپو سلطان کے والدنواب حیدر علی بے مثال جوان مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں کئی جنگی معرکوں کے بعد1762 ء میںمیسور کی سلطنت قائم کی۔ 20 سالہ حکمرانی کے بعد1782ء میں وفات پائی۔ اس کے بعد ٹیپو سلطان ریاست میسور کے سلطان بنے۔ ٹیپو سلطان سولہ سترہ سال حکمران رہے۔ مگر اس چھوٹی اورکم عمر ریاست میسور کے حکمران ٹیپو سلطان نے اپنی جرأت اور بہادری سے ایسی تاریخ مرتب کی، جسے تا قیامت سنہری حروف کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام کی نذر ہو گیا۔ ٹیپو کو ورثہ میں جنگیں، سازشیں اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، مگر پھر بھی ٹیپو نے ریاست میں صنعتی، تعمیراتی، زرعی، سماجی طور پر ریاست میسور کو مضبوط کیا۔ اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے۔ بحریہ کی بنیاد رکھی۔ بحری اڈے تعمیر کیے۔ بحری چوکیاںبنائیں۔بحری جہاز تیار کیے۔ اس زمانے میںفرانسیسیوں اور انگریزوں میں ہندوستان پر قدم جمانے پر مقابلہ ہو رہا تھا۔ بعد میں انگریز فرنسیسیوں پر غالب آئے۔ ٹیپو نے حکمت عملی سے انگریزوں کے مخالف فرانسیسیوں کو اپنا مدد گار بنا لیا۔ فرانس کے نپولین بونا پارٹ کے علاوہ، عرب ممالک، افغانستان، ایران اور ترکی سے رابطے قائم کیے۔ ٹیپو نے ریاستی سطح پر امن وامان قائم کیا۔ انصاف اور برابری کو فروخ دیا۔ میسور میں ہندوئوں کی آبادی زیادہ تھی۔ اس لیے مسلمان کے ساتھ ساتھ ہندو بھی فوج میں زیادہ تھے۔ٹیپو نے فرانسیسیوں کی مدد سے فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا ۔ٹیپو اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند ، جنگجو، شمشیر زن تھا۔ علمی ادبی، مذہب سے لگائو، ذہانت، حکمت عملی، دور اندیشی سے مالا مال تھا۔ وہ ایک سچا، مخلص، مہربان طبیعت، مسلمان بادشاہ تھا۔ رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشورں کی قدر کرتا تھا۔ مطالعے کاشوقین تھا۔اُردو زبان کو فروغ دیا۔ دنیا کا سب سے پہلا فوجی اخبار جاری کیا۔
ٹیپو کی سلطنت قلیل مدت سولہ سترہ سال قائم رہی۔ ٹیپو سکہ سازی اور ایک نئے ریوینو سسٹم کی وجہ سے بھی مشہور ہوا۔ اس کے دور میں ریشم کی صنعت میں بہت ترقی ہوئی۔ ریاست میسورمیں اُجرتیں اور معیار زندگی بلند تھا۔ انگریز مغل سلطنت میں تجارت کی راہ داری حاصل کر کے ہندوستان میں ایک جنگی چال کے طور پر آیا اور ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔مغل سلطنت جو اس وقت دنیا کا ستائیس فی صد جی پی ڈی کما کر دیتی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مختلف جنگوں سے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ ٹیپو سلطان کی حکومت ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی جنگی طاقت تھی ۔ٹیپو نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف پہلی دفعہ راکٹ کاا ستعمال کیا تھا۔بعد میں ایسے دوراکٹ جن پر دو تیزدھار بلیڈلکھے تھے، سرنگا پٹم میں انگریزوں کے ہاتھ لگے ،جو لندن کے رائل آرٹلری میوزم میں اب بھی موجود ہیں۔ نپولین بونا پارٹ انگریزوں کے خلاف ٹیپو کا اتحادی تھا۔ ٹیپو کی فوج میں بحریہ میں72 توپوں والے بیس جنگی جہاز تھے۔ 26 توپوں والے فریگیت شامل تھے۔ ٹیپو نے ہمسایہ حکمرانوں سے بھی کئی جنگیں لڑیں۔ جن میں مراٹھا میسور جنگ مشہور ہے۔ ٹیپو انگریزسے پہلے تین جنگیں لڑ چکے تھے۔ انگریزوں اور میسور کی چوتھی جنگ کے دوران برطانوی ٰ فوجوں نے نظام حیدر آباد اور مراٹھوں کے ساتھ مل کر ٹیپو کو شکست تھی۔ ٹیپو1799ء مئی میں شہید ہوا۔ٹیپو کی شہادت کی وجہ جرنیل میر صادق کی غداری سے منسوب کی جاتی ہے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق محاصرے کے دوران جرنیل میر صادق نے میسور کی فوج کا ایک بڑا حصہ میدان جنگ سے نکال لیا تھا۔ جس وقت گھسان کی جنگ ہو رہی تھی۔ سپاہیوں سے کہا گیا کہ وہ جا کر اپنی تنخواہیں وصول کر لیں۔ اس سے ٹیپو کا دفاع کمزور ہوا اور اس کے نتیجے میں انگریزی فوج سرنگا پٹم کے مضبوط قلعے میں شگاف ڈالنے میں کامیا ب ہو گئی۔ ٹیپو دوسرے محاذ پر تھا۔ یہ خبر ملنے پر وہاں پہنچا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے زور دار حملے کیے۔ انگریز سپاہیوں کو ٹیپو سلطان کی لاش تلاش کرنے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ ڈر رہے تھے۔ بالا خر ٹیپو کی لاش میسور کے دارالحکومت سرنگا پٹم سے مل گئی۔ ٹیپو سے لڑنے والی فوج برٹش ایست انڈیا کمپنی کے چھبیس ہزار سپاہیوں چار ہزار یورپیوں اور ہندوستانیوں پر مشتمل تھی۔ ان کے علاوہ نظام حیدر آباد نے دس بٹالین فوج اور سولہ ہزار گھڑ سوار بھیجے تھے۔ اس طرح انگریز فوج پچاس ہزار سے زیادہ تھی۔ ٹیپو کے پاس تقریباً تیس ہزار سپاہی تھی۔جس وقت انگریز فوج سرنگا پٹم قلعے کی دیواریں توڑ کر اندر داخل ہو چکی تھیں تو فرانسیسی مشیروں نے ٹیپو کو مشورہ دیا کہ وہ قلعہ کے خفیہ راستے نکل جائے۔ اس طرح مزید ایک دن لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔لیکن ٹیپو سلطان شیر میسور نے جواب دیا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ حید آباد ریاست کی ٹیپو سلطان کے خلاف انگریز کے اتحادی بننے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کی مسلم یا ہندو ریاستیں اپنی اپنی حکومتیں بچانے کے لیے انگریزوں کے ساتھ مل گئیں تھی۔ جس وجہ سے ہندوستان پر انگریز قابض ہوا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز کا ہندوستان پر مکمل قبضہ ہوا تھا۔انگریزکو پھر سو سال بعد1947، میں بسترگول کر کے واپس برطانیہ جانا پڑا۔ جب کہ مسلمان حکمرانوں نے ہندورعایا کے ساتھ رواداری ، مذہبی آزادی اور برابری برتنے پر محمد قاسم ثقفی سے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک بارہ سو سال ہندوستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا۔1857ء کی جنگ آزادی میں اپنے وطن ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے آزادی پسند ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ہو کر انگریز سے لڑے تھے۔اسی سے شاید متاثر ہو کر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا:۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم اس کی بلبلیں ہیں وہ آشیاں ہمارا
یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اس سے آج کے متعصب بھارتی ہندوئوں اور ہٹلر صفت مودی کو ہم نے اپنے ایک کالم ،جس کا عنوان تھا
” مسلمانوں نے ہندوستان پر بارہ سو سال حکومت کی ہے تم سوسال تو پورے کرو” یہ تب ہوا تھا کہ مسلمانوں کی اقلیت نے اپنی رعایا ہندو اکثریت سے رواداری، مذہبی آزادی اور برابری کا مقام دیا تھا۔ آج بھارت کی متعصب ہند و جماعت آر ایس ایس اور ہٹلر صفت حکمران مودی مسلمان اقلیت کو ختم کرنے کا اعلان کر رہا ہے۔مودی ظلم کی جتنی چائے چکی چلا لے۔ یاد رکھے کہ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد” اگر ٹیپو سلطان کی بات کی جائے تو اس کی حکومت میں وزیر خزانہ ہندو برہمن ”پورنیا” تھا۔ سلطان کا معتمد خاص” لالہ مہتاب رائے سبقت” نامی ایک ہندو برہمن تھا۔ میسور جنکی فوج کا افسر اعلیٰ ہری سنگھ تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ہندو سلطان کی حکومت میں شامل تھے۔ انگریز مورخ ولیم ڈیل رمپل نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ٹیپو سلطان ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مزاحمت کرنے والا سب سے بڑا ہندوستانی تھا۔ اس نے ایسٹ اندیا کمپنی کے ساتھ کبھی بھی اتحاد نہیں کیا۔
1970ء میںخود قوم پرست تنظیم راشڑیہ سویم سیوک سنگھ نے کنٹر زبان میں ہندوستان کی تاریخ سے متعلق” بھارت بھارتی” کا کتابی سلسلہ شائع کیا تھا اس میں ٹیپو سلطان کی تعریف کی گئی اور انہیں محب وطن قرار دیا گیا تھا۔چندن گوڑا کے مطابق دائیں بازو کی ہندو جماعتوں کے مؤقف میں تعصب کی وجہ سے تبدیلی آ گئی ہے۔ وہ ٹیپو پر بے جا الزام لگاتے ہیں کہ اس نے کورگ میں ہزاروں ہندوئوں کو قتل کرایا۔ ہندوئوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔مورخ محب الحسن 1950ء میں لکھی گئی اپنی کتاب” ہسٹری آف ٹیپو سلطان” میں ان الزامات کی تردید کی۔بلکہ ٹیپو کی فوج میں ہندو اکثریت میں تھے۔اس نے کئی مندر تعمیر کرائے۔میسور میں ہندو تہوار دسہرا عظیم الشان انداز میں منایا جاتا۔ مندروں کو شاہی خزانے سے بڑی رقوم عطیہ کیں۔ بار بار حکومت کی مخالفت کی وجہ سے لوگوں کو سزائیں ضرور دیں۔ یہ سب باتیںانگریز نے پھیلائیں۔ مورخ ولیم رمپل نے بھی لکھا ہے کہ ٹیپو نے ہندوئوں کے مندروں کی سرپرستی کی۔ رمپل لکھتا ہے اس دور میں مذہب کا سیاست میں کردار ایسا نہیںتھا ،جیسا کہ آج کے دور میں ہے۔اس دور میں مرہٹوں کی فوج میں مسلمان، ٹیپو کی فوج میں اکثریت ہندوئوں کی تھی۔ ٹیپو کے زیادہ تر قریبی مشیر ہندوتھے۔ اس کے دربار میں ایک برہمن نجومی بھی ہوتا تھا۔پروفیسر رام پنیانی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ٹیپو کی ایک متوازن تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیپونے سب سے پہلے پیش بینی کر لی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ ٹیپو اس کے خلاف مزاحمت کے بانیوں میں سے ہے۔2017ء میں کرناٹک اسمبلی میں صدر مملکت بھارت، رام ناتھ کوند نے ٹیپو کی تعریف کی۔ ممبئی کی ایک سڑک ٹیپو کے نام کرنے کی میونسپل کونسل نے منظوری دی۔
ہٹلر صفت مودی نے 2018ء میں ایک اسکالرز کی کمیٹی تشکیل دی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ہندوستان کے ابتدائی باشندے ہندو ہیں ۔ جبکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ آریا کے ہندوستان آنے سے پہلے اس کے اصل باشندے دراوڑ ہیں ۔ اب متعصب مودی مسلم دور کے تمام نام تبدیل کر کے مسلمانوں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی ابتدا کی ہے۔ٹیپو سلطان کی تلوار جو محل کے نجی کوارٹر سے ملی جسے تمام ہتھیاروں میں سے زیادہ عظیم ا لشان کہا جاتا ہے۔ یہ تلوارجو 40 لاکھ پائونڈ میں نیلام ہوئی۔یہ بھی کہا گیا کہ تلوار کا تخمینہ اس سے سات گناہ زیادہ ہے۔ ٹیپو نے اٹھارویں صدی میں کئی جنگوں میں فتح حاصل کی۔ مرہٹوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔دشمنوں نے مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہوئے 1799ء میں جب ٹیپو انگریزوں سے جنگ کی تیاری کر رہا تھا تو عین اس وقت نماز جمعہ پڑھ کر مساجد سے نکلنے والے سادہ مسلمانوں کے سامنے منادی کی گئی کہ اے مسلمانوں ! سنو، میسور کے صوفی بادشاہ حیدر علی کا بیٹا فتح علی ٹیپو وہابی ہو گیا ہے۔ جبکہ ٹیپوسلطان کی ذاتی لائبر یری میں صوفی ازم پر115 کتابیں نکلی تھیں۔ یہ انگریز کا پھیلایا ہوا وہ بے ہودہ پروپیگنڈہ تھا۔چناچہ عام مسلمان ثواب کی خاطر ٹیپو سے لٹرنے پہنچ گئے۔کہیں یہ بھی اعلان ہوا کہ ٹیپو شیعہ ہو گیا۔ عرب میں بھی عثمانی ترک اور انگریز جنگ میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے انگریز دشمن ”شیخ عبدالوہاب” کو بدنام کرنے کے لیے وہابی کا پروپیگنڈا گھڑا کیا تھا۔ یہی حربہ ہندوستان میں مسلم سپاہیوں کو عثمانی ترکوں سے لڑنے کی لیے انگریزوں نے استعمال کیا۔ علمائے سو سے فتویٰ لیا گیا کہ ترکوں کو مقامات مقدسہ کے نظم ونسق کا استحقاق نہیں، یہ شریف مکہ کو ہے۔ عبرت کا مقام ہے کہ جب برطانوی لشکر القدس میں داخل ہوا تو ہندوستان کے مسلم سپاہی اس میں پیش پیش تھے۔ ٹیپوسلطان وہ ہے جس نے سلطنت عثمانیہ کو لکھا کہ فرات سے نجف تک نہر کھودیں، اس کا خرچ ریاست میسور دے گی۔ تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے۔ آج القدس کی آزادی اور فلسطین اپنا وطن آزاد کرنے کے لیے فلسطینی لڑ رہے ہیں اور58 ملکوں کے مسلمان حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ تاریخ ہمیشہ بہادروں کو یاد رکھتی ہے۔ ٹیپوسلطان آج بھی زندہ ہے۔ اس کی قبر کے کتبے پر لکھا ہے کہ” ٹیپو بنا دین محمد شہید شد”۔ ٹیپو سلطان کی سلطنت میسور کے خزاے کے سکوں کے نام، سب سے قیمتی سکہ سرور دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر احمدی تھا، دوسرا سکہ صدیقی، تیسرا فاروقی، چوتھا عثمانی اور پانچوں حیدری کے نام کا تھا۔علمائے سونے عالمی ہیرو اور جنگجو ٹیپوسلطان کے خلاف نئے نئے فتوے جاری کیے۔ اے کاش کہ مسلمان تاریخ دان یہ لکھنے کے لیے قلم اُٹھائیں کہ ”ٹیپو بنام دین محمد شہید شد”۔