... loading ...
ریاض احمدچودھری
ہمارے دفتر خارجہ نے خطے میں بھارت کے جارحانہ کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے بدترین عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔بھارت شیطان کا وہ روپ ہے جس کی شر انگیزیوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ اور نہتے کشمیریوں کو جس بربریت سے ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔پاکستانی سرحدوں پر بھارتی دراندازی اس کی جنگی جنون اور سفاکیت کو ظاہر کرتاہے۔ لداخ میں بھارت افواج کو بدترین ہزیمت کا سامنا کرنے کیساتھ بھارتی سورماؤں کاغرور بھی خاک میں مل گیاہے۔پوری دنیا میں رسوا ہونے کے باوجود بھارت اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آیا۔ن کی طرف سے منہ کی کھانے کے بعد ضروری ہے کہ پاکستان کی جانب سے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں ہندوستان کا مذموم کردار عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا اعلان ہندوتوا کے مکروہ عزائم کی عکاسی ہے،نام نہاد عالمی قوتوں اور اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔
بھارت داخلی انتشار کے سبب اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔بھارت کے اندر زور پکڑتی ہوئی علحیدگی پسند تحریکیں بھارت کی سالمیت کے خاتمے کا سبب بنے گا۔ بھارت کی تقسیم کا آغاز ہو چکا ہے تاہم بھارت اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینے کی بجائے پڑوسی ممالک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ بلوچستان میں بھارتی خفیہ اداروں کی پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد منظر عام پر آچکے ہیں۔ان حقائق کے باوجود مودی کی حکومت اپنی بدمعاشی پر اٹل ہے۔ بھارت ایک بزدل دشمن ہے جو ہمیشہ پیٹھ پیچھے وار کرتا ہے۔ملک کے ہر دشمن کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کے زیر قیادت بھارت کو تبدیل کرنے کا سفر تیز تر انداز میں جاری ہے۔ مودی کے زیر قیادت بیرونی دنیا میں بھارتی معیشت کے کچھ نئے پہلو وا کیے گئے ہیں۔ یہ بھی ہندوتوا کے علمبردار مودی ہی کے بدولت ہوا ہے کہ دنیا میں بھارتی’ را ‘ کی اس شناخت سے پہلے صرف پاکستان شناسا تھا مگر اب پاکستان سے ہٹ کر کینیڈا، قطر اور امریکہ کو بھی براہ راست اندازہ ہو گیا ہے اور ‘فائیو آئیز’ میں شامل ملکوں کے علاوہ دوسرے مغربی ملکوں کو بھی سمجھ آنا شروع ہو گئی ہے کہ جنوبی ایشیا میں صدیوں سے ‘ بغل میں چھری۔۔۔۔ والا محاورہ کیوں زبان زد عام رہا ہے۔لیکن اصل تبدیلی کی مودی مہم میں تیزی بھارت کے اندرونی محاذ پر ہے۔ سافٹ وئیر کی دنیا میں نام پیدا کرنے والے بھارت کے گاندھی اور نہرو کے دور کے بھارت کا سافٹ ویئر بھی نشانے پر ہے۔ بھارتی سافٹ ویئر تبدیلی کی ‘پراسیسنگ’ کے کئی پہلو ہیں۔ بھارت کا ذات پات اور چھوت چھات کا نظام تو شروع سے ہی بہ حیثیت مجموعی بروئے کار رہا ہے۔
اب اس سے بھی اگلے مرحلے کا غیر علانیہ کام شروع ہو چکا ہے۔ اس کے تحت ہر بھارتی کو بالعموم اور بھارتی اقلیتوں بشمول دلتوں کو بالخصوص ‘گاؤ ماتا’ سے بھی نیچے کے درجے کی مخلوق اب ریاستی طور پر منوانا ہو گا۔ ظاہر ہے جس گائے کا پیشاب ہندو صرف پاکیزہ اور پوترہی نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک پوتر اور صحت افزاء مشروب سمجھتے ہوں، اس کو ان غیر ہندوؤں پر اولیت ہی ملے گی جنہیں چھونے یا جن کے چھو لینے سے ہندو خود کو ‘بھرشٹ’ یعنی ناپاک ہو جانا تصور کرتے ہوں۔ ‘ہندوتوا’ میں دلت اچھوت ہیں جبکہ گائے متبرک اور مقدس ہے۔ حتیٰ کہ گائے کا پیشاب اور گوبر بھی۔
نریندر مودی حالیہ انتخابات میں اگر ایک بار پھر کامیاب ہو گئے تو گائے اور اس کے مقام و مرتبے کے تحفظ کو اسی طرح تقدس اور حرمت ملنے کا امکان ہے جس طرح یہودیوں کے حوالے سے ‘ہولو کاسٹ’ کا ہے۔ اب اس ہندو کاسٹ سسٹم سے بھی زیادہ معتبری ‘گاؤ ماتا’ کے درجے پر پہلے سے فائز گائے پہلے اسرائیل کا ‘ہولو کاسٹ’ سسٹم تھا اور بھارت میں ‘ہندو کاسٹ’ سسٹم تھا۔ اب وشنو دباد ایسے ‘گاؤ رکھشک’ مودی سرکار کے تعاون اور سرپرستی میں ‘گاؤ ماتا’ کو اس سے بھی اونچا مقام دلوانے کی تحریک چلا رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں جس طرح یہودیوں کے احترام میں کوئی ‘ہولو کاسٹ’ پر بات نہیں کر سکتا اور اسے چیلنج نہیں کر سکتا اسی طرح ‘گاؤ کاسٹ’ پر بھی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے اور اسی طرح گائے کو ذبح کرنا تو درکنار اس کے لیے مقام ومرتبے پر سوال بھی نہ اٹھائے۔ اس ‘گاؤ ماتا’ کے تحفظ کے لیے قصبات اور شہری سطح پر گروہ منظم کرچکے ہیں۔ ایسے ہی ایک گروہ کے سرغنہ کا نام ‘وشنو دباد’ ہے۔
وشنو دباد اپنے گروہ کے ارکان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے کارکنوں کے پاس لاٹھیوں، چاقوؤں، درانتیوں، اور پتھروں جیسے ہتھیار ہوتے ہیں۔ یہ کارکن اس کے علاوہ سڑکوں پر کیل بچھا کران گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے خیال میں گائے سے لدی ہوتی ہے اور گائے کی اسمگلنگ میں بروئے کار ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔