... loading ...
عماد بزدار
فضل حسین نے اس کے بعد اپنی تقریر میں یہ بتایا کہ گورنمنٹ کالج کے داخلے میں فرقہ وارانہ نیابت کو کیوں رائج کیا گیا؟ راجہ نریندر ناتھ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر چالیس فیصد سیٹیں مسلمانوں کے لئے گورنمٹ کالج لاہور میں غلط ہیں یہ سب کچھ قابل اعتراض ہے تو پھر آپ لوگ کیمبرج اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیوں میں ہندوستانیوں کے لئے خاص تعداد میں نشستیں محفوظ کرانے پر کیوں زور دیتے ہیں؟ اگر گورنمنٹ کالج لاہور میں مسلمانوں کے لئے مخصوص سیٹیں فرقہ واری ہے تو کیمبرج اور آکسفورڈ میں ہندوستانیوں کے لئے سیٹیں مخصوص کرنا کیا فرقہ واری نہیں ہے ؟
اپنی تقریر میں فضل حسین گورنمنٹ کالج میں داخلے کی شرائط پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب کوئی طالب علم وہاں داخلے کے لئے جاتا ہے تو داخلے کی پالیسی میں اس بات پر کیوں اصرار کیا جاتا ہے کہ کیا وہاں آپ کی کوئی سفارش ہے ؟ کیا سفارش ایک ذلیل قابل اعتراض بات نہیں ہے ؟
گورنمنٹ کالج میں داخلے کے لئے اس وقت ان چار چیزوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔
1۔ امیدوار کا کوئی رشتہ دار کالج میں اس وقت پڑھتا ہے یا پہلے پڑھتا رہا ہے۔
2۔ امیدوار کا باپ سرکاری ملازم ہے یا پنشن لے چکا ہے ؟
3۔ امیدوار نے سرکار کی کوئی خدمت کی ہے یا نہیں؟
4۔ امیدوار کسی بڑے آدمی کی سفارش لایا ہے یا نہیں؟
ان شرائط کا ذکر کرنے کے بعد فضل حسین کا کہنا تھا کہ مسلمان جو پہلے ہی انتہائی پسماندہ ہیں ، سرکاری نوکریاں ان کے پاس نہیں، تعلیم میں پیچھے ہیں ، بڑے آدمی کی سفارش کہاں سے لائیں؟ ان شرائط کی موجودگی میں مسلمانوں کے کالج میں داخلے کے کیا امکانات رہ جاتے ہیں؟
یہ تو تعلیمی اداروں کی بات ہوگئی ۔ عدالتوں کا کچھ احوال بھی پڑھ لیں ۔ سر ظفر اللہ خان نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کا احوال اپنی کتاب میں بیان کیا جس کا نام جسٹس بخشی ٹیک چند تھا۔ سر ظفر اللہ کے مطابق وہ بیس سال اس کرسی پر متمکن رہے اور ان کے مطابق جسٹس صاحب نے اپنے بیس سال ہندو قوم کو تقویت دینے اور مسلمانوں کو کمزور کرنے میں لگا دیے ۔ سر ظفر اللہ کے مطابق جب سر فضل حسین نے سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کی چالیس فیصد نشستیں محفوظ کرائیں تو بخشی صاحب جو ان دنوں پریکٹس کرتے تھے کہا کرتے تھے
فضل حسین چالیس فیصد مقدمات بھی مسلمان وکلا کو بھیجنے کا انتظام کریں۔
جسٹس بخشی ججی کی کرسی پر بیٹھتے گویا اس نے تہیہ کیا تھا کہ ان کی عدالت میں کوئی مسلمان فریق ہندو فریق کے خلاف مقدمہ نہ جیتے ۔ سر ظفر اللہ خود بھی پریکٹس کرتے تھے ان کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے بخشی ٹیک چند نے ایک سادہ اصول رکھا ہوا تھا ، جس پر وہ آخر تک کاربند رہے۔
1 ۔اگر فریق مقدمہ ایک جانب مسلمان اور دوسری جانب غیر مسلمان ہو تو فیصلہ غیر مسلمان کے حق میں ہوگا۔
2 ۔اگر دونوں فریق مسلمان ہوں اور ایک فریق کی طرف سے ہندو وکیل ہو اور دوسرے کی طرف سے مسلمان تو فیصلہ ہندو وکیل کے حق میں ہوگا۔
3 ۔اگر دونوں فریق مسلمان ہوں اور دونوں کے وکلا مسلمان ہوں تو فیصلہ اس فریق کے حق میں ہوگا جس کے وکیل کو دوسرے فریق کے وکیل کے مقابلے میں بخشی صاحب کم قابلیت کا سمجھتے ہوں
سر ظفر اللہ کے مطابق سر شادی لال ( چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) بھی کم متعصب نہیں تھے ، بخشی ٹیک چند کو یہی چیف جسٹس ہائی کورٹ میں لیکر آئے تھے لیکن مقدمات کے فیصلے میں وہ کھلے بندوں بخشی صاحب کی سی جرات اور حوصلے کے ساتھ انصاف کے گلے پر چھری نہیں پھیرتے تھے ۔ سر ظفر اللہ کے مطابق سر شادی لال کے فیصلوں میں ممکن ہے کچھ فیصلے ایسے مل جائیں جو بخشی صاحب کے وضع کردہ قوائد سے ہٹ کر ہوں ۔بیس کی دہائی میں تعلیمی اداروں اور عدالتوں جو کچھ ہورہا تھا اس کی ایک جھلکی آپ نے دیکھ لی آیئے چالیس کی دہائی پر ایک نظر ڈالتے ہیں جب پاکستان بننے کے بالکل قریب تھا۔یہ 1946 ہے اسمبلی ایک بار پھر پنجاب کا ہی ہے ۔ میاں افتخار
الدین ایک تقریر کرتے ہیں اس میں ہندوؤں کو مخاطب کرکے وہ کیا کہتے ہیں؟
” میں پورے زور کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان مسلمانوں کا منصفانہ مطالبہ ہے اور مسلم لیگ ان کی واحد جماعت ہے ۔ کوئی
شخص بھی اس مسلمہ حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہندو دوست ہمارے خلاف قوم پرست مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ وہ مولوی داؤد غزنوی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔میں اپنے قوم پرست دوست لالہ بھیم سین سچر ( وزیر خزانہ) سے پوچھتا ہوں کہ اس کی سن لائٹ آف انڈیا انشورنس کمپنی میں کتنے مسلمان ہیں۔ میں ڈاکٹر گوپی چند بھارگو سے پوچھتا ہوں کہ اس کی لکشمی انشورنس کمپنی میں کتنے مسلمان ہیں۔ میں ویرندر سے پوچھتا ہوں کہ تمھارے والد مہاشہ کرشن کے روزنامہ’ پرتاب’ میں کتنے مسلمان کام کرتے ہیں اور کھدر بھنڈار میں کتنے مسلمان اونچے عہدوں پر فائز ہیں” ۔
کیا ان حقائق کی روشنی میں یہ نہیں لگتا کہ تضاد ہمیشہ سے موجود رہا، اس سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی
مسلمان کس قدر پسماندہ تھے چاہے بیس کی دہائی ہو یا چالیس کی۔ کیا یہ سب جناح کا پیدا کردہ تھا؟ جناح جب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے تب بھی یہ مسئلہ موجود تھا تو جناح پر یہ الزام کیسے لگایا جا سکتا کہ وہ اچانک نفرت کی بنیاد پر ایک ملک کا مطالبہ لیکر اٹھے ؟ جہاں 55 فیصد کی آبادی کے لئے تعلیمی اداروں میں چالیس فیصد سیٹیں مختص کرنے پر میاں فضل حسین کو ہندوؤں کی طرف سے ہندو مسلم اتحاد کا دشمن قرار دیا جائے اور اسی بات کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف عدم اعتماد لایا جائے تو تنگ نظر کون تھا؟ کیا یہی کچھ کل ہند سطح پر ہندو لیڈر شپ کی طرف نہیں کیا جاتا رہا؟ جب جب مسلمان کچھ سیف گارڈز مانگتے انہیں یہی طعنہ سننے کو نہیں ملتا رہا کہ تم فرقہ پرست ہو انہی باتوں سے چِڑ کر جب جناح کو کہنا پڑا ”حضرات اگر میں اپنے فرقے کی حالت سدھارنے کے لیے جدوجہد کر رہاہوں اور ان کی معاشی ، معاشرتی تعلیمی اور سیاسی ترقی کے لیے کوشاں ہوں۔تو کیا یہ فرقہ پرستی ہے ؟ اگر فرقہ پرستی یہی ہے تو مجھے اس فرقہ پرستی پر فخر ہے”۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔