... loading ...
ریاض احمدچودھری
بلاشبہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال برصغیر کے بہت بڑے شاعر، مفکرہیں۔ انہوں نے اپنے عظیم خیالات سے صرف علاقے کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ علامہ نے اردو ، فارسی اور انگریزی میں طبع آزمائی کی اور ہر زبان کو اپنے بلند خیالات و افکار کی بدولت اعلیٰ و ارفع کر دیا۔ انہوں نے شاعری کیلئے اردو اور فارسی کا انتخاب کیا لیکن مقالات اور خطبات کیلئے انگریزی کا سہارا لیا۔
ہمارے دوست ، مربی محترم ڈاکٹر وحید الزمان طارق کو کلام اقبال سے گہرا لگاؤ ہے جس پر وہ عبور بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کو صحیح انداز میں سمجھنے کے لئے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعر مشرق، حکیم الامت، حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعری ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس مشعل کو بجھنے نہ دیا جائے بلکہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو مزید بہتر انداز میں نسل نو تک پہنچایا جائے جس پر ہمارا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بہت موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری کا زیادہ تر حصہ فارسی پر مبنی ہے۔ جسے ہر کسی کے لئے پڑھنا اور سمجھنا آسان نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا میڈیا اگر علامہ اقبال کے فارسی و اردو اشعار اردو کے ساتھ دنیا شروع کردیں تو یہ ادب کی بڑی خدمت ہوگی اور علامہ اقبال کی پراثر شاعری سے عام لوگوں کو بھی مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔
اگرچہ علامہ اقبال نے پہلے اردو زبان میں مہارت پیدا کی لیکن ابتدائی جماعتوں سے ہی انہوں نے فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ان کی فارسی اور عربی کی تعلیم ابتداء سے اعلی درجہ تک ان کے قابل استاد سید میر حسن صاحب کی مرہون منت ہے۔ مولوی سید میر حسن صاحب مشن سکول میں پڑھاتے تھے جس کی وجہ سے انگریزوں کی طرز فکر اور جدید تعلیمی اصولوں سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اردو یا فارسی دونوں زبانوں میں شاعری میں اقبال نے اپنے نئے راستے نکالے۔ ہندوستان کا اقبال داں طبقہ آج بھی اقبال کو محض اردو کا بڑا شاعر مانتا ہے لیکن ان کی فارسی شاعری سے بے بہرہ ہے جبکہ علامہ اقبال کی دو تہائی شاعری فارسی زبان میں ہے اور صرف ایک تہائی اردو میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے تصورات پہلے فارسی میں پیش کئے گئے لیکن ایک زمانہ تک ان کی اردو شاعری میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا، جبکہ اقبال نے تصور خودی کو اپنی عظیم الشان مثنویوں اسرار خودی اور رموز بے خودی میں پیش کیا جو علی الترتیب 1915ء اور 1916ء میں شائع ہوئیں۔
ماہر اقبالیات بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزمان طارق کہتے ہیں کہ حضرت اقبال کبھی ایران نہیں گئے لیکن ان کی زیادہ شاعری فارسی زبان میں ہے۔حضرت اقبال کی فارسی شاعری اور جو اہمیت وہ ایران کو دیتے تھے، اس کی وجہ سے ایرانی قوم ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ایران میں حضرت اقبال کو اقبال لاھوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور لاہور کو بھی ایرانی انہی کے توسط سے پہچانتے ہیں۔ایران کا کوئی ایک بھی ایسا بڑا شہر نہیں ہے جہاں علامہ اقبال سے منسوب کسی چوک یا کالونی کا نام نہ ہو کیونکہ علامہ اقبال نے کل بارہ ہزاراشعارکہے ہیں جن میں سے سات ہزارفارسی میں ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای خود کو حضرت اقبال کا مرید مانتے ہیں اور ان سے عشق کا یہ عالم ہے کہ حضرت اقبال کے دو ہزار سے زائد اشعار ان کو زبانی یاد ہیں۔ سید علی خامنہ ای نقلاب ایران سے پہلے حضرت اقبال پر کتاب لکھ چکے تھے۔ اسی طرح شہید مطہری جیسی دانشور شخصیت بھی حضرت اقبال سے بہت متاثر تھی۔
نقلاب ایران کے اہم راہنما ڈاکٹر علی شریعتی جنہوں نے ایرانی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا علامہ کے افکار سے بے حد متاثر تھے کیونکہ وہ یورپ سے تعلیم حاصل کر کے آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ایرانی قوم کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا تھا جن کا سامنا علامہ اقبال اور پاکستانی قوم نے کیا۔ ایرانی مغربی یلغار کے سامنے اپنا تشخص کھو چکے تھے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کا احیاء فکر دینی کا تصور اور خودی کا تصور فکر اقبال سے ہی ماخوذ ہیں۔ انہوں نے اپنے ادارے حسینیہ ارشاد میں علامہ اقبال کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں سب سے اہم مقالہ ان کا اپنا تھا۔ علامہ اقبال پر ان کی دو تصانیف ماوا اقبال اور اقبال معمار تجدید بنائی تفکر اسلامی منظر عام پر آچکی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے فارسی مجموعہ کلام میں انقلاب ایران کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
می رسد مردے کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام ازدوزن دیوار زندان شما
یعنی میں نے زندان کے سلاخوں کے پیچھے سے دیکھ رہاہوں کہ ایک مرد آرہا ہے جو تمہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرائے گا۔ایرانی اس شعر کو حضرت اقبال کی حضرت امام خمینی کی آمد اور انقلاب اسلامی ایران کی پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس لئے بھی ایرانی قوم حضرت اقبال کو بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔محترم وحید الزمان طارق نے بتایا کہ جب علامہ اقبال کی عزت و شہرت عروج پر تھی اور جب برصغیر کے گوشہ و کنار میں اور دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں انہیں ایک عظیم مفکر، فلسفی، دانشور، انسان شناس اور ماہر عمرانیات کے طور پر یاد کیا جاتا تھا، ایران میں ایک ایسی سیاست نافذ تھی کہ ایران آنے کی دعوت نہ دی گئی اور ان کے ایران آنے کے امکانات فراہم نہ کئے گئے۔ سالہا سال تک ان کی کتابیں ایران میں شائع نہ ہوئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب اس ملک میں ایرانی اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غیر ملکی ادب و ثقافت کا تباہ کن سیلاب رواں تھا۔ اقبال کا کوئی شعر اور کوئی تصنیف مجالس و محافل میں عوام کے سامنے نہ لائی گئی۔