... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کی آڑ میں درجنوں عام شہریوں کو قتل کردیا۔حال ہی میں ریاست چھتیس گڑھ کے علاقے بیجاپور میں ڈسٹرکٹ ریزرو گارڈ، اسپیشل ٹاسک فورس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) اور کمانڈو بٹالین فار ریزولوٹ ایکشن (کوبرا) نے نیکسل باغیوں کے خلاف آپریشن کیا۔گھنے جنگل میں صبح 6 بجے سے شروع میں ہونے والے سیکیورٹی آپریشن 8 گھنٹے تک جاری رہا جس میں 3 خواتین سمیت 13 افراد ہلاک کردیا گیا، سیکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والے تمام افراد علیحدگی پسند ماؤنواز تھے، نیکسل باغیوں کے خلاف یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور ایسی کارروائیاں آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ 27 مارچ کو بھی پولیس سے مقابلے میں 6 عسکریت پسند ماؤنواز نیکسل باغیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس طرح ایک ہفتے میں یہ تعداد 19 اور رواں برس اب تک 43 ہوچکی ہے۔
بھارت میں دوسری کئی علیحدگی پسندیا آزادی کی تحریکوں کی طرح ماؤ پرستوں کی تحریک بھی پرانی باغیانہ تحریکوں میں سے ایک ہے۔ یہ تحریک بھارت میں کئی دہائیوں سے جاری ہے۔بھارت میں مختلف ریاستوں میں اقلیتوں اور دوسری قومی شناختوں کے حامل باغی یا علیحدگی پسند گروپ موجود ہیں۔ جن کو دبانے کے لیے بھارت نے لاکھوں کی تعداد میں فوجی و نیم فوجی دستے تعینات کر رکھے ہیں۔انہی میں ماؤ نظریات کے حامل بھارتی ہیں۔جو” ریڈ کوریڈور” میں پھیلے ہوئے ہیں۔رواں ہفتے بھی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں 29 ماؤ باغی ہلاک ہوئے۔تمام 29 باغیوں کی موت ریاستی دارالحکومت رائے پور کے جنوب میں واقع ضلع کنکر میں ہوئی ۔ باغیوں کو وسطی ریاست چھتیس گڑھ کے دور دراز حصے میں مارا گیا، جہاں اس سال ماؤ فورسز پر کئی مہلک حملے ہو چکے ہیں۔یہ سب کچھ انتخابات میں کامیابی کیلئے کیا جا رہا ہے۔ جمعہ سے شروع ہونے والے چھ ہفتے کے عام انتخابات سے قبل چھتیس گڑھ میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔باغی، جو نکسلائٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ دیہی غریبوں کے لیے لڑ رہے ہیں، 1967 سے گوریلا حملے کر رہے ہیں۔
بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں طویل عرصے سے کشیدگی جاری ہے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہونے والی ہلاکتیں ریاست میں ہونے والے خون ریز کارروائیوں میں سے ایک ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان جھڑپ ریاست چھتیس گڑھ کے مضافات میں ہوئی جہاں رواں برس ماؤ جنگجوؤں کے ساتھ متعدد خون ریز کارروائیاں ہوئی ہیں۔بھارت کی ریاستوں میں ایک ریاست ہے۔ یہ وسط بھارت میں واقع ہے۔ حال ہی میں ریاست مدھیہ پردیش کو تقسیم کرکے چھتیس گڑھ ریاست قائم کی گئی۔ اس کا دار الحکومت رائے پور ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ایک ایسا علاقہ ہے جہاں چھتیس قلعے واقع ہوں لیکن مشہور برطانوی مورخ جے بی بیگلرکی تحقیق کے مطابق یہ نام ”چھتیس گڑھ” نہیں بلکہ ” چھتیس گھر” ہے جو اس علاقے میں بسنے والے نچلی ذات کے چھتیس ”دلت” خاندانوں کی نسبت سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس تحقیق کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اس علاقے میں چھتیس قلعوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تاہم یہ نام زیادہ قدیم نہیں ہے۔ قدیم زمانے میں یہ علاقہ ”ڈکشن کوسلا” کہلاتا تھا۔ جب کہ مشہور تاریخ دان ہری اٹھاکر کے مطابق موجودہ ”جبلپور اور چھتیس گڑھ” کے درمیانی علاقے کو ماضی میں ”مہا کو سلا” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مغلوں کے عہد میں اس علاقے کو رتن پور کہا جانے لگا جب کہ اس علاقے کو چھتیس گڑھ مراہٹوں کے دور میں 1795ء کی دستایزات میں لکھا گیا ہے۔
یکم نومبر 2000ء کو بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے بطن سے پیدا ہونے والی چھبیسویں ریاست چھتیس گڑھ میں بھارت کی آبادی کے لحاظ سے شیڈولڈ کاسٹ اور قبائلی گروہوں کا تناسب سب سے زیادہ زیادہ ہے اور ریاست کی پوری آبادی کا چوالیس اعشاریہ سات فی صد مختلف قبائلی گروہوں اور شیڈولڈ کاسٹ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ قبائل جو خود کو فرزند زمین کہتے ہیں ان کو بہ وجود پس ماندہ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں ہمیشہ بغاوت کا علم لہراتا رہا ہے، جس کی اولین مثال1774ء میں برطانوی تاجروں کے خلاف کی جانے والی بغاوت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف قبائلی ثقافتوں اور رسم و رواج کے باوجود ریاست میں ہندو مت کا بھرپور عمل دخل ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریاست کے 95 فی صد ہندو جن کا تعلق نچلی ذات کی ہندو برادریوں سے ہے وہ ملک کی باقی ماندہ ہندو کمیونٹی سے ذات پات کے گورکھ دھندے کے باعث بالکل کٹے ہوئے ہیں، جس کے باعث ریاست میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے ایک لاکھ پینتس ہزار ایک سو تینتیس مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط چھتیس گڑھ کے شمال میں بہار اور اترپردیش اور شمال مشرق میں جھارکھنڈ واقع ہیں۔ جن کے جنوب میں آندھرا پردیش مشرق میں اڑیسہ اور مغرب میں مہاراشٹر اور شمال مغربی سمت پر مدھیہ پردیش واقع ہے۔ ریاست کی آبادی 20795956 نفوس پر مشتمل ہے، جس میں تعلیم کا تناسب 65 فی صد ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں بولی جانے والی زبانوں میں چھتیس گڑھی، جو ہندی ہی کی ایک شکل ہے، کے علاوہ ہندی، مراٹھی، اوریائی اور قبائلی زبنیں بولی جاتی ہیں۔چھتیس گڑھ میں کافی اقسام کی معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔ جن میں لوہا کوئلہ، ایلومینم، جست سونا، چونا، کیلشیم، ہیرے اور کواٹز وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ اس علاقے میں فولاد ایلومینم سمینٹ اور کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کی صنعتیں کام کر رہی ہیں۔ ریاست میں چاول، گنا، گندم، دالوں اور کیلے کی کاشت کاری بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔
ریاست چھتیس گڑھ میں کئی سیاسی جماعتوں کا اثر رسوخ ہے۔ بھارتیہ جنتہ پارٹی کو ریاستی قانون ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ ”ڈاکٹر رامن سنگھ ” کا تعلق بھی بھارتیہ جنتہ پارٹی سے ہے۔ جو نومبر 2003 میں وزیر اعلیٰٰ منتخب ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انڈین نیشنل کانگریس بھی ریاست کے سیاسی میدان میں اہمیت کی حامل ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کو موجودہ بر سر اقتدار جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی سے قبل اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل تھی۔ ان دو نمایاں جماعتوں کے علاوہ ”بہوجن سماج پارٹی” گونڈوانا پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (کمیونسسٹ، لیننسٹ) اور انڈین پیپلز فرنٹ کا بھی اپنے مخصوص علاقوں میں خاصا سیاسی اثر ورسوخ ہے۔ جب کہ ریاست میں کئی عسکریت پسند باغی گروہ سرگرم ہیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کو نیکسلائٹ باغی کہا جاتا ہے۔