... loading ...
ریاض احمدچودھری
آر ایس ایس بھارت کی بدنامِِ زمانہ دہشت گرد تنظیم ہے جو راشٹریہ سیوک سنگھ کا مخفف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اسے باضابطہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اس تسلیم شدہ امر میں بھی یہ امر نہایت قابلِ غور اور معنی خیز ہے کہ امریکہ ہو یا کوئی یورپی ملک، کسی نے بھی آج تک اِسے دہشت گردی کے عالمی قوانین کے تحت دہشت گرد تنظیموں کی اْس فہرست میں شامل نہیں کیاجو اقوام متحدہ کے چارٹر اور امریکہ کی نافذ العمل پالیسی کے تحت مرتب کی گئی ہے۔
آر ایس ایس ایک بنیاد پرست ہندو تنظیم ہے جو دنیا میں ہندو ازم کے فروغ کیلئے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کا پہلا ماٹو بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔ مختلف ذرائع او ر طریقے اختیار کر کے یہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ہندو ازم کی طرف لا رہے ہیں۔ مودی سرکار نے آر ایس ایس کے ذریعے مقبوضہ وادی میں ہندوئوں کو بسانے کی سعی بھی شروع کر دی ہے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے اقلیت میں بدل سکیں۔ بھارتی کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے ریاست کیرالہ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو انگریزوں سے اس لئے آزادی نہیں ملی کہ وہ سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کی کالونی بنے۔ بی جے پی اوراس کے وزیراعظم کو صرف ایک ملک ایک زبان اور ایک قائد دکھائی دیتا ہے جو ہمارے ملک کے حوالے سے بنیادی غلط فہمی ہے۔ بھارت پھولوں کے گلدستہ کی طرح ہے۔ ہر ایک پھول کا احترام کرنا چاہئے کیونکہ وہ سارے گلدستے کی خوبصورتی بڑھاتا ہے۔کسی مخصوص زبان کو اوپر سے تھوپا نہیں جاسکتا،یہ کسی شخص کے دل کے اندر سے نکلتی ہے۔ کیرالا کے کسی شخص سے یہ کہنا کہ تمہاری زبان ہندی سے کم تر ہے، کیرالا کے عوام کی توہین ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت پر اس کے سارے عوام کی حکمرانی ہو۔
سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے گذشتہ ہفتے بہار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ہنگامی حالت میں بڑی تعداد میں فوج کھڑی کرنی ہو تو بھارتی فوج کو اس میں کافی وقت لگے گا لیکن آر ایس ایس محض تین دن کے اندر لاکھوں کی فوج کھڑی کر سکتی ہے۔یہ تو پتہ نہیں کہ وہ اپنے اس بیان سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ بھارتی فوج موبلائزیشن میں ان سے کہیں پیچھے ہے یا پھر یہ کہ آر ایس ایس محض ایک آواز پر فوج کھڑی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس میں نظم وضبط ہے اور یہ ہندو ثقافت اور مذہبی تصورات کو فروغ دینے کے علاوہ ملک میں ایک ہندو راشٹر کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔ ہندو قوم پرستی اس کے نظریے کا محور ہے۔یہ تنظیم ابتدا سے ہی ہندوتوا کی جانب مائل جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہی ہے۔ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، بن واسی کلیان سمیتی، اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد جیسی متعدد تنظیمیں اس کی محاذی شاخیں ہیں جو الگ الگ علاقوں میں الگ الگ طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی تنظیموں کا نصب العین ہندوتوا کا فروغ ہے۔ان میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں اب اپنے ارکان کو لڑائی اور مسلح ٹکراؤ کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی نوعیت ملیشیا جیسی ہے جن کا کردار انتخابات میں سماجی ٹکراؤ اور سیاسی مفاد کے حصول کے لیے دنگے فساد میں اکثر نظر آتا ہے۔
ان میں سے بعض تنظیموں نے اب خود کو سینا یعنی فوج کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں کے حکمراں جماعت بی جے پی سے گہرے تعلقات ہیں۔ گائے کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ‘گؤ رکشا’ سمیتیوں اور ‘اینٹی رومیو’ سکواڈ جیسے پرتشدد گروپوں میں انھی ملیشیا کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔جب سے بی جے پی بر سر اقتدار آئی ہے۔ہر روز فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے والے بیانات کا سلسلہ لگا ہوا ہے،ہر شدت پسند جری و بہادر ہو گیا ہے۔ ہندوستان میں ہندو دہشت گردوں کے مسلمانوں پر مظالم ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ مودی سرکار پورے ہندوستان سے مسلمانوں کا تشخص مٹانے کے لئے بھرپور توانائیاں صرف کر رہی ہے۔
وشوا ہندو پریشاد نے گائے راکشا (گائے کی حفاظت)، عیسائی چرچ، اسلامی دہشت گردی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کے دین کو تبدیل کر کے ہندو بنانے جیسے نعرے لگائے ہیں۔ 1992ء میں بین الاقوامی ہندو کونسل سے وابستہ ایک گروہ نے بھارتیا جنتا پارٹی اور دیگر انتہاپسند ہندو گروہوں کے تعاون سے مشہور بابری مسجد مسمار کر ڈالی تھی۔ یہ مسجد سولہویں صدی عیسوی میں معروف مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے تعمیر کروائی تھی۔ قوم پرست ہندووں کا کہنا تھا کہ ظہیرالدین بابر نے ایک مندر گرا کر اس کی جگہ یہ مسجد تعمیر کی تھی اور یہ مندر ہندووں کے دیوتا لارڈ راما کی جائے پیدائش تھا۔
بی جے پی کے دور حکومت میں ہندوستان کے سیکولرزم اور اس کی جمہوری شناخت کو ختم کرنے اور خصوصاً ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ان کے شعائر میں دخل اندازی کی کوشش تیز تر ہوتی جاری ہے۔ مسلم پرسنل بورڈ نے دارالعلوم حیدرآباد میں”دین بچاؤ، دستور بچاؤتحریک” شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اجلاس میں یوگا، بندے ماترم اور سوریہ نمسکار جیسے متنازع فیصلوں پر قانونی لڑائی لڑنے کابھی عندیہ دیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں کے دستور میں مذہبی آزادی حاصل ہے۔ یہاں کے ہر شہری اور باسی کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ اس لئے مسلمان اپنے دین وایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔