... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت اسرائیلی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے لگا اور اسی بنا پر اس نے کشمیریوں کے خلاف آپریشن ،گرفتاریاں تیز کر دی ہیں۔ کشمیریوں کی تحریک حق ارادیت کو بدنام کرنے کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔ بھارت کا جابرانہ قبضہ دھوکہ دہی اور سازشوں سے عبارت ہے۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤں نے کشمیریوں سے کہا ہے کہ وہ بی جے پی اور بھارتی ایجنسیوں کی مذموم سازشوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ بھارت نے سیکورٹی کے نام پر مقبوضہ کشمیر میں اضافی فورسز تعینات کر دی ہیں اور اپنی ظالمانہ کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ بھارت اسرائیلی طرز پر غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں بسا رہا ہے۔ انہیں ملازمتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو ”دوسرا فلسطین” بنانے کے لئے اسرائیلی طرز پر پنڈتوں کے لئے علیحدہ بستیاں قائم کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور اس سلسلہ میں25برس قبل 1990ء کو مقبوضہ وادی سے فرار ہوکر بھارت میں مقیم ہونیوالے لاکھوں ہندو پنڈتوں کو واپس لاکرآباد کرنے کے لئے 500کنال اراضی کی فراہمی کے لئے کٹھ پتلی ریاستی حکومت کو ٹاسک دیدیا گیا ہے۔یاد رہے اسرائیل بھی یہودی آباد کاروں کے لئے فلسطین میں بستیاں تعمیر کرکے آج فلسطینیوں کو اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کر چکا ہے۔ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے انتہا پسند ہندو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بھی مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کی ہیئت تبدیل کرنے کی خاطر اس گھناؤنی سازش پر عملدآمد شروع کر دیا ہے۔
مودی حکومت منظم اور مربوط طریقے سے دنیا کی آنکھوں میںدھول جھونکتے ہوئے کشمیر کی ڈیموگرافی کی تبدیلی پرکمربستہ ہے۔ نیو یارک میں کشمیری پنڈتوں اور بھارتی باشندوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل نے اعتراف کیا کہ نریندر مودی انتظامیہ کشمیر میں ہندو آبادی کو نوآبادیاتی یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کی طرز پر قائم کردہ قبضہ بستیوں کی تعمیرکرے گی۔ اگراسرائیل فلسطینی علاقوں میں اپنے لوگوں کوآبادکرسکتا ہے تو ہم بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے کشمیر میںہندوؤںکو بسا سکتے ہیں۔اس اعتراف سے حریت قیادت کے موقف کی تصدیق ہوگئی کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اورکشمیریوںکو اپنے وطن میں بے گھرکرنے کے لیے اسرائیلی ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ بھارتی سرکار کا منصوبہ یہ ہے کہ سرکاری فرنٹ مین وہ زمین خریدیں گے ۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ” انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ”نے جھوٹے مقدمے میں نظر بند معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کی ضلع بڈگام میں چھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی قبضے میں لے لی۔ بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری برائے کشمیر رام مدھو نے کہاتھا کہ ان کی پارٹی دو سے تین لاکھ ہندوپنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے لئے پر عزم ہے۔اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے محفوظ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کو بحال کرے گی۔
مقبوضہ کشمیر کی حریت پسند قیادت نے کہا ہے کہ الگ بستی کا قیام پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی سازش ہے۔مسلم لیگ، لبریشن فرنٹ(آر)، ماس موومنٹ،پیپلز فریڈم لیگ، مفتی اعظم، تحریک المجاہدین اورآرٹی مومنٹ نے شدید ردعمل کااظہار کرتے ہوئے اسے فسطائی پالیسی قراردیا ہے۔ مسلم لیگ کے چیئرمین مسرت عالم بٹ نے کہا ہے کہ بھارت کا ہمیشہ سے یہی منصوبہ رہا ہے کہ وہ ریاست جموں وکشمیر پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کیلئے نت نئے حربے آزمارہا ہے۔ادھر لبریشن فرنٹ (آر)کے چیئرمین فاروق احمد ڈار نے کہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی واپسی کا ہر مرتبہ خیرمقدم کیا ہے تاہم ان کو الگ کالونیوں میں بسانا اور دیوار کھڑی کرنا کشمیری قوم کو کسی صورت تسلیم نہیں ہوگا۔
ماس مومنٹ کی سربراہ فریدہ بہن جی نے کہا کہ پنڈتوں کی وطن واپسی پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تاہم انہیں الگ بسانے کی کسی بھی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ پیپلز فریڈم لیگ کے ترجمان اعلی نے منصوبہ کوفرقہ وارانہ قراردیتے ہوئے کہاکہ کشمیری سماج کوتقسیم کرنا آر ایس ایس کا ایجنڈاہے ۔مسلم پرسنل لابورڈ کے چیئرمین مفتی اعظم نے کہا کہ بھارتی حکومت ایک غلط تاثر پیدا کرکے الگ ہوم لینڈ بنانا چاہتی ہے اور وہ زیادہ خطر ناک صورت اختیار کرے گی۔متحدہ جہاد کونسل کے سیکرٹری جنرل اور تحریک المجاہدین کے امیرنے کہا ہے کہ پنڈت برادری کے لئے اسرائیل طرز پر الگ کالونیاں اور زون قائم کرنے کا مقصد ایک سازش ہے۔ آج پھر پنڈتوں کو مہرے کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر شیخ غلام رسول کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد فرقہ وارانہ سوچ میں اضافہ اور کشمیریت کو مجروح کرنا ہے۔ الگ بستی کا قیام پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے جو ریاست کی سالمیت کے لئے خطرناک ہے۔ ہائی کورٹ بار کے جنرل سیکریٹری نے بھی کہا ہے کہ یہ منصوبہ کشمیری عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی سازش ہے جسے مسترد کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔