... loading ...
جاوید محمود
چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں جب کہ اسرائیل بلا وقفہ مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ غزہ شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے ۔ابھی تک تقریبا 34000فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ،خواتین اور بچوں کی تعداد ان میں سب سے زیادہ ہے اور غزہ کا محاصرہ بھی ہے ۔نہ غزہ میں کوئی اندر آ سکتا ہے نہ غزہ سے باہر جا سکتا ہے اور زمین آسمان سے ان کے اوپر صبح شام بمباری ہو رہی ہے۔ یہ بہت ہی اہم موضوع اس پہلو سے ہے کہ چھ مہینے کے اندر جتنی بمباری ہوئی ہے، یوں سمجھیں کہ ایک چھوٹے سے شہر کے اندر غزہ لاہور کا ایک محلہ ہے لاہور جتنا شہر نہیں ہے چھوٹا سا ہے لاہور کے ایک محلہ کے برابر ہے اور دن رات اس کے اوپر بمباری ہو رہی ہے۔ آبادی بھی زیادہ ہے اس کی چونکہ زمین کم ہے آبادی زیادہ ہے ۔لہٰذا وہاں اپارٹمنٹ والی بلڈنگیں ہیں ۔ یعنی ایک کئی منزلہ بلڈنگوں میں لوگ رہتے ہیں۔ تو جب ایک بلڈنگ گرتی ہے تو اس کے کئی طبقات ہیں اور اس میں کثیر آبادی ہے جو شہادت نوش کرتے ہیں۔ ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق 13000سے زیادہ بچے شہید ہوئے ہیں۔ اور اتنی ہی تعداد میں خواتین شہید ہوئی ہیں۔ اور اسی طرح ہسپتالوں پر بمباری ہوئی ہے جس میں بیمار زخمی وہ شہید ہوئے ہیں ڈاکٹر ہوئے ہیں ہر طبقہ بلکہ اب تو تصاویر ایسی ہیں کہ صحافی رپورٹنگ کرتے ہوئے مائیک پہ بول رہا ہے کیمرہ سامنے ہیں اور اسی وقت بم لگتا ہے اور وہ صحافی بھی وہاں پر شہید ہو جاتا ہے۔ کئی ٹی وی چینلز نے ابھی تک جو بتایا گیا ہے کہ تقریبا 100سے زیادہ صحافی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے کئی زیادہ تعداد میں اقوام متحدہ کے کارکن ہیں جو مارے جا چکے ہیں۔ اس بمباری کا یہ ایک پہلو ہے کہ اسرائیل وحشیوں کی طرح نہتے عوام کو ماررہا ہے۔ نسل کشی کر رہا ہے اور اس پر پوری دنیا خاموش ہے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔
چھ مہینے کے بعد عالم اسلام کے مرکز ہیڈ کوارٹر سے شاہی فرمان صادر ہوتا ہے کہ غزہ کے لیے چندہ جمع کریں۔ او آئی سی کے سربراہ اسلامی ممالک تنظیم کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے اس کی سرپرستی سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے ۔ بیالیس ممالک کی فوج اسلامی ممالک کی فوج کا ہیڈ کوارٹر جدہ میں ہے ، غزہ کی یہ حالت ہوئی ہے اور تمام عرب ممالک دیکھ رہے ہیں۔اسرائیل نے ابھی تک اس جنگ کے اندر حماس کا مقابلہ نہیں کیا۔ غزہ کی شہری آبادی کو تباہ کر رہا ہے ۔ حماس سے جنگ میں اسرائیل شکست کھا چکا ہے ۔یہ بات خود اسرائیلیوں نے مان لی ہے۔ اسرائیلی کمانڈروں نے مان لی ہے۔ اسرائیل کے اندر ان کے میڈیا نے مان مان لی ہے اور اسرائیل کے باہر ان کے حامیوں نے مان لی ہے کہ اس جنگ میں اسرائیل شکست کھا چکا ہے ۔ابھی چند دن پہلے امریکی کالم نگارنے جو اسرائیل کا حامی ہے اس نے اسرائیل کی حمایت میں کالم لکھا ہے اس نے کہا کہ اس وقت جو جنگ جاری ہے یہ چھ محاذوں پر جاری ہے۔ اس جنگ کے چھ محاذ ہیں اور اس امریکی کا یہ تجزیہ ہے اسرائیل ہر چھ محاذ پہ شکست کھا چکا ہے اور یہ بہت اہم ہے جو اس نے محاذ گنوائے ہیں۔ کون کون سے محاذ پہ جنگ ہو رہی ہے اور کس کس محاذ پہ پسپا ہو چکا ہے ۔ صرف ایک محاذ ساتواں محاذ ہے جس میں وہ کامیاب اپنے آپ کو سمجھ رہا ہے اور وہ سویلین آبادی پر تباہی اور بمباری ہے ۔ باقی چھ محاذ پہ اسرائیل مکمل شکست کھا چکا ہے ۔ اور اس نے ثبوت بھی دیے ہیں۔ اس نے اس کے اندر باقاعدہ پروف دیے ہیں کہ یہ میرے پاس دلیل ہے ۔ اور اس کے تجزیہ کے مطابق کہ اس شکست سے اسرائیل کبھی بھی سنبھل نہیں پائے گا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے ۔ جب ریڑھ کی ہڈی پہ چوٹ لگ جائے پھر زندہ بھی رہے کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کا تجزیہ ہے کہ اب ایسی ضرب چوٹ لگا دی ہے اب یہ کبھی بھی سیدھا نہیں ہو پائے گا ۔ یہ جو بوکھلاہٹ ہے تشدد ہے جنون ہے شہری آبادی کو تباہ کرنا یہ عاجزی کے تحت کر رہا ہے نا توانائی کے تحت کر رہا ہے کیونکہ جنگ کے قابل نہیں ہیں۔ جنگ جنگجو کے ساتھ ہوتی ہے جنگ فوج کے ساتھ ہوتی ہے جنگ سپاہیوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔وہ سپاہی غزہ میں موجود ہیں ۔وہ حماس کے جنگجو جو اسرائیل کے اندر داخل ہوئے وہ اپنی کاروائیاں کر کے سارے غزہ واپس آگئے ہیں۔ اب اسرائیل کو غزہ میں داخل ہونا ہے کوشش کرتا ہے داخل ہونے کی جس دن کوشش کرتا ہے اسی دن ذلت کے ساتھ واپس آ جاتا ہے۔ مزید بندے مروا کے آ جاتا ہے ۔جنگ کے قابل نہیں ہیں اور یہ بات درست ہے۔ یہ بات ظاہراًدو ہزار چھ میں سید مقاومت نے یہ جملہ کہا تھا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے کی طرح ہے مکڑی کے گھر کی طرح تارِ عنکبوت ہے۔ یہ بات اس وقت دنیا کو سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ حماس نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ مکڑی کا جالا ہے اور مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے جس طرح قرآن کا فرمانا ہے جو مکڑی کا جالا ہے یہ اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ یہ اسرائیل کا جو اس نے بھرم بنایا ہوا تھا دنیا میں ناقابل شکست فوج ایک گروہ چند سو مجاہدوں نے ایسی ذلت آمیز شکست دی اس کو کہ جس کی خفت کو مٹانے کا راستہ نہیں مل رہا۔ جیسے کسی گھر میں بہت بڑی تباہی آجائے پھر دور دراز سے لوگ آتے ہیں آ کے ان کو گلے لگاتے ہیں ،دلاسہ دیتے ہیں تسلیاں دیتے ہیں ،بائیڈن آتا ہے آ کے نیتن یہوکو گلے لگاتا ہے۔ دوسرا آتا ہے آ کے گلے لگاتا ہے۔ برطانوی وزیر آتا ہے ابھی پھر امریکہ کا وزیر خارجہ آج اسرائیل آیا ہے۔ یہ کیوں بار بار آ کے ان کو گلے لگاتے ہیں ۔کیا ہوا ہے ؟یہ تو فوج ہے بڑی طاقتور ہے ۔آپ باہر فون پر ہی بات کر لیں لیکن آنا ضروری ہے۔ تسلی تعزیت سے وہ سہارا دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ڈٹے رہو ، ہم سنبھال لیں گے ۔ حماس نے اسرائیل کی جنگ میں حالت غیر کر دی ہے، وہ مکمل شکست کھا چکا ہے ۔