... loading ...
حمیداللہ بھٹی
تاریخ میں فرعون ایک ایسا کردار ہے جواپنے غرور وتکبر کی وجہ سے نہ صرف ایمان کی دولت حاصل کرنے سے محروم رہا بلکہ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے قیامت تک اہل ایمان کی لعنتوں کا حقدار قرار پا چکا ہے اہل ایمان پر ظلم وستم ڈھانے والا یہ کردار اب نہ بول سکتا ہے نہ سن سکتا ہے نہ چل سکتا ہے بلکہ حنوط کی صورت میں موجود ہے تاکہ متکبر عبرت حاصل کر سکیں مگر وطنِ عزیز کے سرکاری دفاتر میں فرعونیت و رعونت جیسے کرداروں سے خلقِ خداکو عام واسطہ پڑتا رہتاہے جو حرام خوری یعنی رشوت لینے کے حوالے سے تو بدنام ہیں ہی، بداخلاقی اور بدزبانی اورغروروتکبر کی بدولت بھی ہر خاص و عام کی نفرت سمیٹتے ہیں گجرات میں ملک ابراربھی فرائض کے حوالے سے تو ایک ناکارہ کردار ہے مگر لوٹ مارمیں نت نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے جو میونسپل کارپوریشن کے ساتھ بیک وقت ضلع کونسل کا بھی چیف آفیسر ہے لیکن دونوں عہدے ہونے کے باوجود مسائل حل کرنے کی بجائے بات کرنے والے سائلین کوگالیاں دینا پسند ہے اورپھر جواب میں خود بھی گالیاں کھاتاہے۔ جانے اِس ناہنجار کے پاس کون سی تگڑی سفارش ہے جس کی وجہ سے اہل گجرات پر عذاب کی شکل میں موجود ہے حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ نہ صرف دیدہ دلیری سے بدعنوانی میں مصروف ہے بلکہ سرِ عام اِس کا اعتراف بھی کرتا ہے راقم سے ایک بار بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ دواِداروںکا سربراہ ہونے کے ناطے کمائی کرنا میرا حق ہے اِس کے باوجود انسدادِ رشوت ستانی ہو یا کوئی اور محتسب اِدارہ،لگتاہے سبھی لمبی تان کر سو چکے ہیںاسی لیے کوئی بھی پوچھ تاچھ نہیں کررہا حکومتِ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ وہ انصاف پسند ،ایماندار،اہل اور باصلاحیت سرکاری آفیسرزکوآگے لاکر عوامی مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن گجرات میں دعوئوں کے برعکس ہو رہا ہے یہاں میونسپل کارپوریشن سے لیکر ضلع کونسل میں بدعنوانی کا راج ہے دونوں اِداروں کی سربراہی ایک کرپٹ آفیسر کے سپرد کررکھی ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بدعنوان کی حوصلہ افزائی اور اُسے داد دینا۔
تعلیم نہ صرف اہلیت و صلاحیت میں اضافے کا باعث بنتی ہے بلکہ ایک تعلیم یافتہ فرد اخلاق و تمیز میں بھی ناخواندہ اور جاہل فردسے بہت بہتر ہوتا ہے لیکن ملک ابرار سے ملنے اور بات کرنے سے یقین ہو جاتا ہے کہ اِس شخص کاتعلیم بھی کچھ نہیں بگاڑ سکی بلکہ ایک اُجڈ فرد کی طرح یہ جب منہ کھولتا ہے تولگتاہے دماغ کا کنکشن کٹ جاتا ہے اور پھر بغیر سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے یہ اُگل دیتا ہے ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن دونوں اِداروںمیں اِس بدعنوان نے کمیشن کا باقاعدہ ریٹ مقرر کر رکھا ہے کمیشن کے بغیر جائز کام ہونا بھی کسی طورممکن نہیں ملک ابرار نہ صرف ٹھیکے بیچنے جیسے عمل کی قیادت کررہا ہے بلکہ ٹھیکداروں کو بل دیتے ہوئے بھی چارفیصد کمیشن بٹوررہاہے ۔بات یہاں تک ہی محدودنہیں بلکہ دونوں اِداروں میں ایسے بدعنوان لوگوں کواپنے ساتھ تعینات کرارکھا ہے جو خود بھی مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں بلکہ اپنے چیف آفیسر کی بھی بڑے پیمانے پر دیہاڑیاں لگوارہے ہیں، یہ نہیں کہ پوشیدہ طریقے سے بدعنوانی کی جارہی ہے بلکہ یہ سب کچھ دن دیہاڑے ہورہا ہے مگر حکمران ایسے خاموش ہیں جیسے سب اچھا ہو ضرورت اِس امر کی ہے کہ بدعنوان اور بداخلاق آفیسرز کو عہدوں سے ہٹاکر ایسے لوگوں کو آگے لایا جائے جو نہ صرف بااخلاق ہوں بلکہ کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اور اہل و ایماندار بھی ہوں۔
ٹھیکے فروخت ہونے کی بات اب ماضی کا قصہ معلوم ہوتی ہے بلکہ ضلع کونسل گجرات اور میونسپل کارپوریشن گجرات میں ایسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے یہاں آفیسر بھی برائے فروخت دستیاب ہیں صرف بولی مناسب ہونی چاہیے پیٹرول کی مد میں لاکھوں روپیہ خردبرد کیا جارہا ہے زرائع کے مطابق میونسپل کارپوریشن سے ہرماہ تیس لاکھ روپیہ صرف پیٹرول کے حساب سے ملک ابرار کی جیب میں جا رہا ہے خراب گاڑیوں کی مرمت کے نام پر الگ پیسے ہڑپ کیے جارہے ہیں مرمت وغیرہ کی کوٹیشن لگاکر دونوں اِداروں کی جمع پونجی ختم کی جارہی ہے واقفانِ حال کے مطابق صفائی کے شعبے کی منتھلی بھی پندرہ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جس کی وجہ سے گجرات شہر میں ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگ چکے ہیں اور اگر کوئی اعتراض کرے یا چیف آفیسر کی توجہ مبذول کرائی جائے تو ملک ابرار کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم نے کمائی نہیں کرتی تو کیا خالی سرکاری کام کرنے کے لیے اِدھر بیٹھے ہیںبدعنوانی کی وجہ سے دونوں اِداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابررہ گئی ہے اب بھی اگر ایسے بدعنوانوں کو عہدوںسے ہٹاکر احتساب کے عمل سے نہیں گزارہ جاتا تو نہ صرف مزکورہ دونوں اِداے دیوالیہ تو ہوہی جائیں گے بلکہ بدعنوان سے چشم پوشی کا عمل دراصل بدعنوانی کی حکومتی سرپرستی کے مترادف ہو گا۔
پنجاب حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اِداروں پر عوامی اعتماد بحال کیا جائے مگر یہ منزل تبھی حاصل ہو سکتی ہے جب بدعنوانوں کو کھلی چھٹی دینے کی بجائے اُن کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور کٹہرے میں لایا جائے لیکن گجرات میں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ انتظامیہ سمیت ہر شعبہ بے لگام ہے جس آفیسر کا جو دل چاہتا ہے ہڑپ کررہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرکاری وسائل کی ایسی لوٹ مار کی نظیر شاید ہی صوبہ کے کسی اور ضلع سے ملے۔ یہاں گلیوں و نالیوں کے ٹینڈر لگائے جاتے ہیں اور آدھا ادھورا کام کرنے کے بعد منصوبہ مکمل کرنے کے لیے یاتو علاقہ مکینوں سے پیسے لے لیے جاتے ہیں اور اگر کوئی رکاوٹ بننے کی کوشش کرے تو منصوبہ نامکمل چھوڑ کر ٹھیکدار رفوچکر ہوجاتاہے کیونکہ دونوں اِداروں سے پیسے کمیشن دیکر وصول کرنا زیادہ سہل ہے۔ یہ سب کچھ ملک ابرار جیسے بدعنوان آفیسرز کی مرضی و منشا سے ہورہا ہے وگرنہ کون ایسی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ گجرات میں بدعنوانی کی رفتار دیکھتے ہوئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومتی بے توجہی جلد ختم نہ ہوئی اور بدعنوان آفیسرزکو لگام نہ دی گئی توریٹائر منٹ کے قریب ملک ابرار چند ماہ میں ہی میونسپل کارپوریشن اور ضلع گجرات کو دیوالیہ کردے گا اور پھراِن دونوں اِداروں کی استعداد بحال کرنے اور دوبارہ کارآمد بنانے کے لیے حکومت کوبھاری مالی معاونت کرناپڑے گی۔ کیا یہ تعجب والی بات نہیں کہ میونسپل کارپوریشن میں کئی ایماندار اور اہل آفیسرز ہیںمگر ملک ابرار کا چہیتا گریڈ گیارہ کا ملازم صرف عاطف گوندل ہے جو گریڈ سترہ کی پوسٹ پر کام کررہا ہے کسی نے نقشہ پاس کرانا ہے یابغیر نقشہ تعمیراتی کام کرنا ہے تو ملک ابرار یا عاطف گوندل سے مُک مکا کر نا لازمی ہے میونسپل کارپوریشن گجرات میں ملک ابرار سے کام لینے کی چابی صرف عاطف گوندل کے پاس ہے کسی نے تبادلہ کرانا ہے تو عاطف گوندل سے معاملات طے کرنا ہوں گے تیل کے بل کی ادائیگی عاطف گوندل کی رضا مندی کے بغیر چیف آفیسر ملک ابرارنہیں کرتاحالات اِتنے خراب ہو چکے ہیں کہ کالرہ کے پیٹرول پمپ کا مالک طیب بٹ وصولی کے لیے نہ صرف ملک ابرارکوبھاری رقم دے رہا ہے بلکہ چند ایک سیاسی کارکنوں کوبھی نذرانے پہنچانے پر مجبورہے آج کل تو ایسا لگتا ہے کہ شاہدرہ کا ملک ابرار گجرات کے دونوں اِداروں کو مکمل طورپریرغمال بناچکا ہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس سے قبل کہ بدعنوان ملک ابرار دونوں اِداروں کودیوالیہ اور تباہ کردے حکومت کو چاہیے کہ کسی ایسے ا یماندار آفیسر کو تعینات کرے جو معاملات کوتہہ میں جاکردیکھے جس کی روشنی میں کارروائی کی جائے اورپھرلٹیروں سے لوٹا مال واپس لیکر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔