... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارتی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیونگ سنگھ(آر ایس ایس) نے کشمیری مسلمان بچوں کو ہندو مذہب سکھانے کیلئے 1250 اسکول قائم کر دیے ہیں۔ یہ ا سکول وادی کے 10 اضلاع کے 480 دیہات میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم سیوا بھارتی نے قائم کیے ہیں۔ ان اسکولوں کو چلانے کیلئے سیوا بھارتی نے بھارت سے 129 کروڑ روپے اور بھارتی تارکین وطن سے 44 کروڑ روپے کے عطیات اکٹھے کیے ہیں۔
سیوا بھارتی کے مطابق وادی کشمیر میں 1250 سکولوں میں بچوں کو حب الوطنی اور بھارتیت کی اہمیت سکھائی جا رہی ہے۔ ان ا سکولوں میں95 فیصد بچے مسلمان ہیں۔ شمالی کشمیر کے بارہمولا ضلع میں180 ایسے اسکول بھی ان میں شامل ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم و جبر کا سلسلہ جاری ہے ہی، اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتہا پسند حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی مسلمان طالبات کو ہندو مذہب کی رسومات ادا کرنے پر مجبور کردیا ہے۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ جس میں برقع پہنی کئی طالبات کو ”گنیش آرتی” گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔مذکورہ ویڈیو مبینہ طور پر مقبوضہ کشمیر کے جنوب میں واقع پہلگام قصبے کے سالار گرلز ہائیر سیکنڈری اسکول کی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے ایک طالبہ پوڈیم پر کھڑے ہوکر دوسری طالبات کی رہنمائی کر رہی ہے، جو ایک کھلی جگہ پر بیٹھ کر ”گنیش وندنا” کے شلوک پڑھ رہی ہیں۔گنیش وندنا ختم ہونے کے بعد اساتذہ دوسرے بچوں کو گنیش وندنا پڑھانے والی طالبہ سے پوچھتے ہیں کہ وہ اونچی آواز میں کہے کہ انہوں نے ابھی کیا پڑھا ہے اور بھگوان گنیش کی اہمیت کی وضاحت کریں کہ کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے اس کی تعظیم کیوں کی جاتی ہے۔ایک ٹیچر کی مدد سے طالبہ نے سمجھایا کہ چونکہ بھگوان گنیش کو حتمی دیوتا مانا جاتا ہے۔ اس لیے ہم گنیش وندنا پڑھتے ہیں اور کوئی بھی کام شروع کرنے یا کسی دوسرے دیوی دیوتا کو پوجنے سے پہلے گنیش کی مورتی پر چندن (صندل) کا پیسٹ لگاتے ہیں۔
ہندو افسانوں کے مطابق گنیش برائی پر اچھائی کی علامت ہے۔ جس نے کئی راکشسوں کو تباہ کیا اور دنیا میں امن بحال کیا جس کی وجہ سے ہندو مذہب میں کوئی بھی نیا کام شروع کرنے سے پہلے یا کسی بھی مبارک تقریب یا موقع کے آغاز پر بھگوان گنیش کو پکارا جاتا ہے۔ہندو مت میں بھگوان گنیش کی پوجا تقریباً ہر کام کے آغاز سے پہلے کی جاتی ہے۔بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت اسی نظریے کی حامل دیگر تنظیموں اور افراد نے یہاں ‘اردو’ زبان کو ہٹا کر ‘ہندی’ زبان کو مسلط کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔زائد از 130 برس تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والی ‘اردو’ کے خلاف باضابطہ طور پر عدالتی و میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا ہے نیز سخت گیر ہندو تنظیموں بشمول بی جے پی نے اردو کو ‘ویلن’ کے طور پر پیش کرنے کی ‘پروپیگنڈا مہم’ تیز کردی ہے۔
کشمیر ہائی کورٹ میں گذشتہ ہفتے ماگھو کوہلی نامی شخص، جنہیں مبینہ طور پر بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں کی پشت پناہی حاصل ہے، نے ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے جس میں انہوں نے ‘ہندی’ کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ہائی کورٹ نے اس عرضی کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں اس سے معاملے پر جواب مانگا گیا ہے۔ عرضی گزار کا استدلال ہے کہ جموں میں ڈوگری اور ہندی زبانیں استعمال ہوتی ہیں اور اردو زبان سے نابلد ہونے کی وجہ سے یہاں (جموں) کے لوگ نا انصافی کا شکار ہیں۔
ماگھو کوہلی کی جانب سے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرنے کے ساتھ ہی کچھ بھارتی ٹی وی چینلز بالخصوص ‘ٹائمز ناؤ’ اور بی جے پی سمیت کئی ایک ہندو تنظیموں نے کشمیر میں ‘اردو’ کی جگہ ‘ہندی’ کو بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کے مطالبے پر شور مچانا شروع کردیا ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ آج جو مہم کشمیر سے ‘اردو’ کو ہٹانے کے لیے جاری ہے ایسی ہی ایک مہم 2014 میں اس متنازع خطے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خلاف شروع کی گئی تھی جو پانچ اگست 2019 کے فیصلوں پر منتج ہوئی۔بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے نائب صدر یدویر سیٹھی کا الزام ہے کہ اردو کا جال بن کر ہماری (ہندوؤں کی) زمین اور نوکریاں ہڑپ لی گئی ہیں۔خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد اب اگر ہندی کشمیر کی سرکاری زبان بنتی ہے تو یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ آنے والے وقت میں سرکاری کاغذات ہندی میں لکھے جائیں گے اور نوکریوں کے امتحانات ہندی میں لیے جائیں گے۔ اس طرح سے ہندی نافذ ہونے سے ہمیں نا انصافی سے نجات ملے گی۔ڈوگرہ برہمن پرتیندھی سبھا نامی تنظیم نے سرکاری خط و کتابت کے لیے ‘ہندی’ کو استعمال کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا ہے: ‘چونکہ جموں و کشمیر اب ایک ریاست سے ایک یونین ٹریٹری بن چکی ہے اس لیے ہماری لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو سے اپیل ہے کہ تمام سرکاری فرامین ہندی میں جاری کیے جانے چاہئیں۔’
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے 20 میں سے 15 اضلاع میں لوگوں کی اکثریت اردو پڑھنے، لکھنے اور بولنے والوں کی ہے۔ اب جو پانچ ہندو اکثریتی اضلاع جیسے کٹھوعہ، جموں، سانبہ، ادھمپور اور ریاسی ہیں ان میں بھی 40 سے 50 فیصد آبادی ‘اردو’ جاننے والوں کی ہے۔