... loading ...
زریں اختر
خاتون مجسٹریٹ کاکمر ہ ، ایک نوجوان لڑکی کی ولی کو حوالگی کامعاملہ ،مجسٹریٹ نے ولی کو ہدایت دی کہ وہ ہر پیشی پر لڑکی کو ساتھ لائیں گے۔ لڑکی کرسی پرتھوڑی جھکی بیٹھی تھی، چہرہ کسی پریشانی کیاتردّد کے تاثرات سے بھی عاری،یہ اس کی کم فہمی تھی جو اسے وہاںاپنی موجودگی کی سنگینی کا احساس نہیںدلا رہی تھی ،زندگی اس عمر میں تجربہ گاہ زیادہ لگتی ہے ۔ مجسٹریٹ نے کاراوئی لکھوانے کے بعداس لڑکی کو دیکھا،ان کی نظروں میں ہمدردی اور تاسف تھااور میرے لیے یہ وہ مشاہدہ تھا جس نے کمرئہ عدالت کی قانونی ،ثبوتی اور شہادتی ماحول کو انسانی ماحول میں بدل دیا ۔مجسٹریٹ کی نگاہوں کے تاثر نے مجھے سکون کی سانس لینے کا موقع دیا۔ یہی اس اخلاقی زوال آمدہ معاشرے کی وہ کھونٹیاں ہیں جس پہ اس کا ڈھانچہ ٹکا ہوا ہے ورنہ کبھی کا زمیں بوس ہوچکا ہوتا۔ زمیں بوس ہونے کاکیامطلب ہے ؟ زمیں بوس ہونے کا مطلب ہے وہ لڑائی جو ایوانوں میں سرد و گرم شکلوں میں موجود ہے ، جس کی لپٹیںاعلیٰ عدالتوں میں بھی محسوس کی جاتی رہی ہیں، وہ کب کی آگ بن کر تھانوں ،کچہریوں اور سڑکوں پر پھیل چکی ہوتی، انارکی ہوتی اور شرنارتھی ہوتے ۔
ایک ہی فضا اور ایک ہی ماحول سب کے لیے یکساں نہیں ہوتا۔ گھر کو لے لیں ،ماں باپ کے لیے ذمہ داری کی اور بچوں کے لیے کھلکھلانے کی جگہ ،ایسا نہیں کہ ماں باپ ہنستے نہیںہیں لیکن آپ یقین کریں اس ہنسی میں بھی فرق ہے ۔کیا بچپن اور لڑکپن کی ہنسی اور جوانی کی ہنسی میں فرق نہیں ہوگا؟ تعلیمی ادارے کا ماحول ؛سربراہ کے لیے وہ فضا الگ ، استادکے لیے مختلف او ر طالب علموں کے یہاں بھی پڑھائی کے ساتھ کھیل اور مزے ۔ اسپتال کا ماحول ؛ایک وہ جو ڈاکٹر ہے ،صحت مند ،اپنی ٹانگوں پر کھڑا مریض کا معائنہ کررہاہے ،نرس سے مریض کی کیفیات پوچھ رہا ہے اور ہدایات جاری کررہا ہے ، دوسرا وہ جو مریض ہے،بستر پر کسی بیماری سے نبردآزما ،ایک ہی فضامیں ہر ایک کے لیے اپنی فضا۔
ایسے ہی کچہری بھی ہے ۔ منصفین ، وکلائ،سائلین، پیش کار،کمپیوٹر آپریٹر،صداکار،پولیس ، ملزمان ،قیدی ؛ان سب کے لیے کچہری کا مفہوم اگر مختلف نہ بھی سہی لیکن ماحول سب کے لیے مختلف ہے۔منصفین کے سامنے فائلیں اور قانون ہے ، وکیل دلائل سے کبھی بھرا ہوا کبھی خالی ،دوسرا وکیل کبھی حاضر کبھی غائب کہیں خام کہیں پختہ ،سائلین امید و بیم کی تصویر، کمپیوٹر آپریٹر مشین کا مشینی آدمی ، پولیس جج کے سامنے چوکس ،ملزمان و قیدی عادی ،پیش کار کبھی دل چسپ اکثر مشکوک اور چالو بندہ، اسے قانون کا کتنا پتا ہے ، یہ پتانہیں لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ قاضی جی کے نوکربھی سیانے ، تو یہ وہی سیاناہے، کہاجاتاہے کہ قاضی جی کی آنکھیں اور کان یہی ہے۔ انسان پیچیدہ ترین مشینری ہے۔ان کرداروں میں کہاں کتنی مماثلتیں ہیں اور کہاں کتنے افتراقات یہ فرد پر منحصرہے ،یا تو وہ کھونٹی ہے یا ٹکٹکی ۔
جس طرح اسپتال میں مریض کبھی اپنی تکلیف بھول جاتاہے اسی طرح کچہری میںسائل کبھی اپنا مقدمہ ۔طلاق اور خلع کے مقدمے کا اپنا دکھ ہے خاص طور پر تب جب بچے بھی ساتھ ہوں۔ وہ مقام ایسا ہے جہاں کوئی اجنبی کیسے اور کس حیثیت سے کسی کے انتہائی ذاتی معاملے میں جو عدالت پہنچ گیاہو مداخلت کرسکتاہے۔
ایک خلع کے مقدمے کا مشاہداتی بیان سنیں۔اس میں بچے نہیں تھے ۔میاں بیوی خود ہی ابھی بچے تھے مطلب ان کے بڑوںکی نظرمیں ۔ بیوی اپنی ماں اور دو بھائیوں کے ساتھ ،بھائی شریف تو نہیں لگ رہے تھے ، ماں بھی سخت مزاج لگی ،بیوی کا وکیل بھی اپنی جگہ موجود ، جج صاحب نے خاتون کو کٹہرے میں بلایا اور ان سے حلف لیا۔ دیوانی مقدمے اور جرائم پر مبنی مقدمات کے حلف کے الفاظ میںفرق ہے ،اور یہ فرق کتنا فراست پر مبنی ہے۔ جرم کی صورت میں مدعی حلف اٹھاتاہے کہ اگر وہ جھوٹ بولے تو اللہ کا قہر اور عذاب اس پر نازل ہو ۔ دیوانی مقدمے میں حلف کے الفاظ یہ ہیں کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ مجھے معاف کرے اور عذاب سے محفوظ رکھے ۔ خاتون نے حلف اٹھایا، شوہر عدالت میں حزن و ملال کی متحرک تصویر بنا کھڑاہے، خاتون کے بھائیوںکے مقابلے میں شریف اور سیدھا۔جج صاحب( حلف لینے کے بعد خاتون کو مخاطب کرکے) :خلع چاہتی ہو؟ عورت خاموش ۔ادھر شوہر کی نظریں اپنی بیوی پر اور اس نے جیسے دل ہی دل میں دعا مانگتے ہوئے انکارمیں سرہلایا کہ اس کی بیوی کہہ دے کہ وہ خلع نہیں چاہتی ،اس حزن و ملال کی متحرک تصویر کی آنکھوں سے اب ٹپ ٹپ آنسو بہنا شروع ہوگئے تھے اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ اگر عورت نے جج صاحب کے سوال کے جواب میں ہاں کہہ دیا تو یہ یہی چیخ مار کر ڈھے جائے گااور سنبھالے گا کون کہ وہ تھا بھی اکیلا،نہ ماں نہ باپ نہ بھائی نہ بہن نہ دوست،میں نے تو اس کے ساتھ کسی کو نہیں دیکھا،نہ تسلی دیتے ہوئے ،نہ مشورہ دیتے ہوئے اورنہ چڑھاتے ہوئے ،سب نے جیسے اس کو اس معاملے میں تنہا چھوڑ دیاتھا۔ عورت کا وکیل اپنے روسٹرم پر ہونٹوں پر انگلیاں اور ٹھوڈی پر انگوٹھاجمائے اپنی موکلہ کو دیکھ رہاہے ،جج صاحب عورت کو شش و پنج میں مبتلا دیکھ کردوسرا سوال پوچھتے ہیں،شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہو؟ اب عورت نے ہلکاسا ہاں میں سر ہلایا۔ جج صاحب نے کہا منہ سے بولیں ، کیا آپ جانا چاہتی ہیں؟ عورت نے سر اٹھا کرجج صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ہاں میںجانا چاہتی ہوں۔ جج صاحب نے سرزنش و مسکراہٹ کے ملے جلے انداز میںعورت کے وکیل کی جانب دیکھا اور کہا :وکیل صاحب یہ آپ کیا کروا رہے ہیں؟ (مطلب وکیل کا کردار ایسا ہے کہ وہ کروا بھی سکتاہے اور رکوا بھی سکتاہے ،لیکن مدعی تویہاں پہنچ کر ہی رکتا، شاید اسی لیے جج صاحب مسکرائے بھی)عورت کٹہرے سے اتر کر آئی ،اس کا شوہر جو اب باقاعدہ زارو قطار رونے لگاتھا بیوی کا ہاتھ پکڑ کر وہیں کرسی پر بیٹھ گیا ۔ عدالت نے ان کو باہر جاکر بات کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل اس مقدمے کی ایک سماعت میں جج صاحب نے شوہر سے استفسار کیاتھاکہ کیا مسئلہ ہے؟ شوہر نے جواب میں کہا تھاکہ ان کے گھر والے ہمارے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ بعد میں وہ میاں بیوی کمرئہ عدالت کی پچھلی نشستوںپر آکر بیٹھے ،وہ لڑکا لڑکی کا ہاتھ پکڑے آواز کے ساتھ روئے جارہا تھااور اس کو منا رہاتھا ۔ وہ لڑکی اپنی ماں کو اپنے فیصلے پر منا رہی تھی لیکن اس کی ماں سخت چہرہ بنائے فاصلے پربیٹھی لڑکی کی بات نہیں سن رہی تھی اور نہ نہ کر رہی تھی ۔ ماں کا یہ رویہ میاں بیوی کے معاملے میں مداخلت کا عملی مظاہرہ اور کافی ثبوت تھا۔ یہ رویہ لڑکی کو امتحان میں اور ان میاں بیوی کے تعلق کو آزمائش میں ڈال رہا تھا۔ایسے رویے، تعلق اور زندگی کو کتنا آسان اور کتنا کٹھن بنا سکتے ہیں، یہ منظر اس خیال کی تصویر کشی کررہاتھا۔
اس دوران لڑکی کے وکیل ایک کرسی پر بیٹھے ساتھی وکیل کے ساتھ دھیمی آواز میں منہ پر ہاتھ رکھے گپوں اور مسکراہٹوں کے تبادلے میں مصروف تھے ۔ دل سے دعا اس جوڑے اور جج صاحب کے لیے ۔