وجود

... loading ...

وجود

جناح کا مقدمہ

اتوار 07 اپریل 2024 جناح کا مقدمہ

عماد بزدار

(دوسری قسط)
میاں فضل حسین نے دلائل اور اعداد و شمار کے ساتھ بڑی مدلل جوابی تقریر کی۔” فرقہ وارانہ پالیسی”پر بات کرتے ہوئے میاں
فضل حسین نے کہا
”حقیقت یہ ہے کہ فرقہ وارانہ پالیسی یا فرقہ وارانہ نیابت ایک ایسا لفظ ہے جس کا کوئی صاف ، واضح، غیر مشتبہ اور دوٹوک مفہوم اب تک متعین نہیں کیا جاسکا ۔ اگر اس لفظ سے برے معنی لئے جائیں تو فرقہ واری کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسی پالیسی جو مذہبی تعصب اور مذہبی جنون پر قائم ہو۔اور جس کا مقصد یہ ہو کہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے ہم مذہب افراد کو ترقی دی جائے اور انہی پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی رہے اگر قرارداد کے محرک کے ذہن میں فرقہ واری کا یہ مفہوم ہے اور ان کا مدعا یہ ہے کہ میں نے حکومت کے نظم و نسق کے کسی شعبہ میں اس قسم کی پالیسی پر عمل کیا ہے یا عمل کرنے کی کوشش کی ہے تو میں اس کو سراسر غلط ، بے بنیاد اور پادر ہوا بہتان قرار دے کر قطعاً قابل پذیرائی یا درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔
اس کے برعکس اگر فرقہ وارانہ نیابت یا فرقہ وارانہ پالیسی سے یہ مطلب لیا جائے کہ کسی شخص کی قابلیت کا جائزہ لیتے وقت جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی تعلیمی کیفیت کس درجہ کی ہے ۔ اس کا تجربہ کس پائے کا ہے ۔ اس کا خاندان کس حیثیت کا ہے ۔ اس نے حکومت وقت کی کہاں تک خدمت کی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان امور کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا روا ہے کہ آخر وہ شخص کس مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہے ۔
اگر فرقہ وارانہ پالیسی اور فرقہ وارانہ نیابت کی یہی تعریف ہے جو میں نے ابھی عرض کی ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھ کو اس چیز کا بانی یا موجد قرار دینے کی راجہ صاحب کے پاس کیا وجوہ ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ میں نے اس پالیسی عمل کیا ہے یا اس پر عمل کرنے سے گریز کیا ہے ۔ ایک بات میں پورے وثوق اور کامل ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں ہر گز اس پالیسی کا موجد یا بانی نہیں ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے وزیر بننے سے بہت پہلے سے یہ پالیسی ہندوستان کے دیگر حصوں ہی میں نہیں ، پنجاب میں بھی رائج تھی۔ اس لئے یہ کہنا کہ میں فرقہ وارانہ پالیسی کا بانی ہوں یا میں نے ا س پالیسی پر عمل کرکے ہندو مسلم نفاق پیدا کیا ہے ، میری ذات پر ایک قبیح اتہام ہے جس کے جواز کی کوئی وجہ میرے مخالفین کے پاس نہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کا اہل ہوسکتا ہے کہ اس کی کوششوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتفاق قائم ہوا تو لاریب وہ شخص میں ہوں۔
قرارداد کے محرک کو سب سے بڑا رنج یہ ہے کہ پنجاب کے وزیرتعلیمات نے صرف اپنے صوبے ہی میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میںہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پیدا کردی ہے ۔ اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے میں چند ضروری امور کی طرف آپ کومتوجہ کرنا چاہتا ہوں ۔
پہلا امر یہ ہے کہ اس ہندو مسلم کشیدگی کی وجہ کیا ہے ؟ ہم میں سے ہر شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ 1916 سے پہلے یہ کشیدگی ہمارے ہاں موجود تھی۔ پھر مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کشیدگی کے اسباب کیا تھے ؟ اگر کوئی غیر جانبدار شخص ہمارے ملک کی تاریخ کے اس افسوسناک باب کا مطالعہ کرے تو اس پر یہ حقیقت فوراً منکشف ہوجائے گی کہ اس کشیدگی کا اولین سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے ملک کی روزمرہ معاشرت میں اس مذہبی نفرت و عداوت کو دخیل کر رکھا ہے جو آج ہمارے رگ و ریشہ میں سرایت کرچکی ہے ۔ یہ صحیح کہ موجوہ دور کے اکثر سیاسی کارکن اس نفرت و عداوت کا قلع قمع کرتے رہے ہیں لیکن نفرت و عداوت کا یہ جذبہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی اختلاف کی عمارت کا بنیادی پتھر بن گیا ہے میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اس عمارت کو منزل بہ منزل اور اونچا کرتے جائیں گے یا اسے منہدم کرکے پیوند زمین کردینا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں فریق مخالف کے پاس ہے ۔
” نفرت عداوت کا یہ جذبہ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ، کئی صورتوں میں نمودار ہوتا ہے ۔ ایک صورت چھوت چھات بھی ہے ۔
ہندو صرف مسلمانوں ہی سے چھوت چھات نہیں کرتے بلکہ خود ہندو دھرم کے اندر ایک طبقہ دوسرے طبقے کو نجس خیال کرتا ہے ۔ مثلاً
برہمن غیر برہمنوں سے چھو جانا گناہ سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر صوبہ مدراس کو لیجئے ۔ وہاں جس باہمی نفاق نے آگ لگا رکھی ہے ،
کیا اس کا ذمہ دار بھی میں ہوں؟
”حکومت مدراس کے وزراء نے ایک قانون بنادیا ہے جس کی رو سے کوئی برہمن غیر برہمنوں پر تشدد نہیں کرسکتا۔ اس قانون کے مطابق
یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ موجودہ وزارت کے عہد میں کسی برہمن کو سرکاری ملازمت نہیں دی جائے گی ، نہ صرف یہ بلکہ کسی سرکاری ملازم کو جو برہمن ہے اس وقت تک ترقی نہیں مل سکے گی جب تک کہ حکومت کے تمام محکموں میں غیر برہمنوں کو ان کا جائز حصہ عطا نہیں ہوجاتا۔میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس تمام تفرقے کا ذمہ دار بھی میں ہوں؟ یقین فرمایئے کہ اس کا ذمہدار میں نہیں ہوں بلکہ وہ قوم ذمہدار ہے جس کی
نمائندگی راجہ نرندر ناتھ صاحب کررہے ہیں۔
”رہا فرقہ وارانہ نیابت کا مسئلہ۔ قطع نظر اس سے کہ میں اس قسم کی نیابت کو اچھا سمجھتا ہوں یا برا ۔ سوال صرف یہ ہے کہ بحالات
موجودہ فرقہ وارانہ نیابت کی ضرورت ہے یا نہیں؟
جناب والا ! میری ذاتی رائے ہے کہ ایشیا ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے تمام حصوں میں مذہب انسانی زندگی کا ایک ایسا زبردست عنصر ہے جس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ کسی شخص کے لئے یہ بڑ ہانک دینا آسان ہے کہ وہ مذہب کی پرواہ نہیں کرتا۔۔ لیکن اس قول پر عمل کرنا بے حد مشکل ہے ۔ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ بڑی شدومد سے اپنے آپ کو مذہبی تعصبات سے بے نیاز ظاہر کرتے ہیں وہی سب سے زیادہ تنگ نظر بھی نکلتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ مذہب کی اہمیت کے قائل ہیں وہ نسبتاً زیادہ فراخ دل اور وسیع النظر ہوتے ہیں۔میں نے 1916 میں انہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور آج بھی انہی عقائد کا پابند ہوں۔
”لیکن اگر کوئی شخص میرے خلاف یہ الزام عائد کرتا ہے کہ میں نے( ا) کو محض اس لئے نقصان پہنچایا کہ وہ ہندو تھا اور (ب ) کو خالصتا ًاس لئے اونچا درجہ دیا کہ وہ مسلمان تھا یا اگر راجہ صاحب میرے خلاف فرد قرارداد جرم مرتب کرتے وقت یہ فرمائیں کہ میںنے نااہل مسلمانوں کو ملازمت دے کر کر حکومت کے نظم و نسق کا معیار پست کردیا ہے تو یقین کیجئے کہ میں قسم کے الزام کو بے بنیاد ہی نہیں سمجھتا بلکہ اس کو اس منصب وزارت سے جس پر میں آج فائز ہوں ، غداری کے مترادف قراردیتا ہوں۔
جناب والا! مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر کسی خاص مذہب و ملت کے افراد کو ملازمت میں جگہ دینے سے نظم و نسق کے معیار کے پست ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسے آدمیوں کو ہر گز جگہ نہ دیجیے ۔ بلکہ میں تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ اگر انگریزوں کی بجائے ہندوستانیوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے سے حکومت کے نظم و نسق کو ضعف پہنچنے کا اندیشہ ہے تو یہ عہدے ہر گز ہندوستانیوں کو نہیں ملنے چاہئیں۔
”آیئے اب اس بات پر بھی کچھ عرض کردوں کہ گورنمنٹ کالج کے داخلے میں فرقہ وارانہ نیابت کو کیوں رائج کیا گیا ہے ۔(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر