وجود

... loading ...

وجود

١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

هفته 06 اپریل 2024 ١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

زریں اختر

(گزشتہ سے پیوستہ)
مندرجہ بالا عنوان کے تحت کالموں کا سلسلہ شروع کیاتھالیکن اس کے نتیجے میں وہ خبریں رہ جاتی تھیںجن پر میں لکھنا چاہ رہی ہوتی تھی۔ تب میںنے اس سلسلے کو ہفتہ وار پر منتقل کردیا ۔ اس مرتبہ یہ وقفہ دو ہفتوں پر کھنچ گیا،آئندہ اس قاعدے پرحتی المقدورعمل کرنے کی کوشش رہے گی ۔ اب اس کو آگے بڑھانے بیٹھی ہوں تو دیکھا کہ کہاں تک لکھاتھا اور اب کہاں سے بات شروع کی جائے ؟ اس کتاب میں بعض اشخاص کے انٹرویو ایسے ہیں کہ دل چاہتاہے کہ ان سے باربار ملا جائے اور اس کے لیے اوریانا کے انٹرویو کو بار بار پڑھا جائے کہ اب یہ شخصیات تاریخ کے اوراق میں زندہ ہی نہیں بلکہ تابندہ بھی ہیں ۔ تاریخ پر ان مٹ نقوش ثبت کرنے والا ہر کردار تابندہ کردارکہلوانے کا سزاوار نہیں کہ اگر ہوتا تو انسانی تاریخ ہی المناک ہونے کے بجائے تابناک ہوتی۔
یہ گفتگو اسرائیل فلسطین مسئلے کو سمجھنے کے لیے ماضی کی وہ کڑی ہے جسے جانتے بوجھتے گم کردیا گیا کہ اگر یہ کڑی مل جائے اور جڑجائے تویہ مسئلہ کے حل کی جانب وہ پیش قدمی ہوگی کہ جس کی دھمک چہار سو سنی جاسکے گی،لیکن وہ جو کڑی گم کرنے کے ذمہ دار ہیں ، جن کے اپنے کھودے ہوئے عزائم اور اس کی قیمت عوام کے کھوئے ہوئے خواب ہیں وہ چہار سو بم دھماکوں کی آواز ہی سنوا سکتے ہیں۔ آئیے دوبارہ گولڈا میئر سے ملنے چلتے ہیں جہاں اوریانا فلاشی ان سے گفتگومیں مصروف ہے۔(مندرجہ ذیل جواب کا بس ایک مختصر حصہ جو چند سطروں پر مشتمل ہے ،پہلے بیان کیا جا چکا ہے جب خط کشیدہ سطور لکھ رہی تھی)۔
اوریانا: مسز میئر، کتنی دیر سے ہم مفاہمت ،معاہدے اور صلح نامے جیسے موضوعات پر بات چیت کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ 1967کی جنگ بندی کی وجہ سے مڈل ایسٹ کی جنگ ایک نئی شکل اختیار کرچکی ہے، دہشت گردی کی شکل ۔آپ کی اس جنگ او ر اسے لڑنے والے لوگو ں کے متعلق کیا رائے ہے ؟ مثلاََ یاسر عرفات کے متعلق ،ہاباش کے متعلق اور بلیک ستمبر کے رہنمائوں کے بارے میں آپ کیاسوچ رکھتی ہیں؟
گولڈا: میں سیدھے سیدھے یہ سوچتی ہوں کہ وہ آدمی نہیں ہیں۔ بلکہ میں تو انہیں انسان بھی نہیں مانتی ہوں اور ایک آدمی کے بارے میں سب سے گھٹیا بات یہ ہے کہ آپ کہہ دیں کہ وہ انسان نہیںہے۔ ایسا کہنا اس بات کے مترادف ہے کہ وہ ایک جانور ہے ،کیا ایسا نہیں ہے؟ لیکن تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں و ہ ایک ” جنگ” ہے ؟ کیا تمہیں یاد نہیں ہاباش نے اس وقت کیا کہاتھاجب اس نے اسرائیلی بچوں سے بھری ہوئی ایک بس کو دھماکے سے اڑادیاتھا؟ ”کسی اسرائیلی کو تب ہی ماردینا بہتر ہے جب وہ ایک بچہ ہو۔ ”چھوڑو بھی جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے ایک جنگ نہیں کہاجاسکتا۔ حتیٰ کہ یہ ایک انقلابی تنظیم بھی نہیں ہے کیونکہ جس تنظیم کا واحد مقصد قتل کرنا ہو اسے انقلابی کہنا جائز نہیں ہے ۔
دیکھو ،اس صدی کی شروعات میں،روس میں ایک انقلابی تنظیم کاظہور ہواجو کہ شہنشاہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے،ان میں ایک گروہ تھا جو دہشت کا استعمال صرف جدوجہد کے نام پر کرتے تھے ۔ ایک دن اس گروہ میں سے ایک شخص خود کش بمبار کے طور پر ایک گلی میں روانہ کیاگیاجدھر سے شہنشاہ کے ایک بڑے عہدے دار کا گزر متوقع تھا۔ اس عہدے دار کی سواری امید کیے گئے وقت پر ہی وہاں سے گزری ۔ مگر وہ عہدے دار اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ہمراہ اس کی بیوی اور بچے بھی تھے ۔ اس حالت میں وہ سچا انقلابی شخص کیاکرتا ؟ اس نے بم نہیں پھینکا۔ اس نے بم کو اپنے ہی ہاتھوں میں چلنے دیا جس سے وہ خود ہی چیتھڑوں میں اڑ گیا۔ دیکھو ، ہمارے پاس بھی جنگ کے دوران ہمارے دہشت گرد موجود تھے :The Irgun The Stem۔ اورمیں نے ان کی مخالفت کی تھی ،میں نے ہمیشہ ان کی مخالفت کی تھی ۔لیکن انہوں نے پھر بھی اتنی رسوائی اپنے نام نہ لی جس قدر دہشت گردی عربوں نے ہم پر مسلط کی ۔نہ ہی انہوں نے بازاروں میں بم لگائے اور نہ ہی اسکول بسوں کو ڈائنا مائیٹ لگا کر اڑایا، اور نہ ہی انہوں نے ایسے المیوں کو جنم دیا جیسے Munichاور Lodائیر پورٹ کے تھے !
اوریانا: اور کس طریق کوئی اس طرح کی دہشت گردی سے مقابلہ کرسکتاہے مسز میئر؟ کیا آپ کو واقعی لگتاہے کہ لبنان کے دیہاتوں میں بم گرانے سے کوئی فائدہ ہوگا؟
گولڈا: ایک مخصوص حد تک ”ہاں ہوگا”۔ کیونکہ ان دیہاتوں میں فدائین مقیم ہیں۔ لبنانی خود کہتے ہیں کہ کچھ علاقے الفتح کی ملکیت ہیں۔ اس لیے وہ مخصوص علاقے صاف کرنا ضروری ہیں۔ لبنانیوں کو خود چاہیے تھا کہ وہ ان علاقو ں کی صفائی کرتے لیکن لبنانی کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کچھ بھی کرنے سے لاچار ہیں۔ہنھ! حسین بھی یہی بات کہنے کا عادی تھاجس دور میں فدائین نے اردن میں ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔حتیٰ کہ ہمارے امریکی دوست بھی یہی کہتے تھے کہ :”یہ حسین نہیں ہے جو ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنا چاہتا! بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اتنی طاقت نہیں رکھتاہے۔ ” لیکن جب ستمبر 1970میں عمان خطرے میں گھرا، اور اس کا محل خطرے میں تھابلکہ اسے خود اپنا آپ خطرے میں محسو س ہوا کہ وہ کچھ کرنے کی طاقت رکھتاہے اور اس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ اگر لبنانی مسلسل کچھ کرسکنے کے لیے لاچاری کا اظہار کرتے ہیں تو ہم انہیں جواباََ کہیں گے کہ ”بہت اچھے ”: ہم آپ کی مشکلات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے مگر ہم کرسکتے ہیںاور صرف تم کو دکھانے کے لیے ہم ان علاقوں کو بم سے اڑائیں گے جہاں فدائین نے پناہ لے رکھی ہے۔
شاید کسی بھی دوسری عرب ریاست کے مقابلے میں لبنان دہشت گردوں کی زیادہ مہمان نوازی کررہاہے ۔ وہ جاپانی جو Lodائیر پورٹ کی تباہی کاباعث بنا تھا وہ لبنان سے آیاتھا۔ وہ لڑکیاں جنہوں نے Tel Avivمیں ہوائی جہاز کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی ،ان کی تربیت بھی لبنان میں ہوئی تھی ۔ کیا ہم یہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور بس دعائیں اور سرگوشیاں ہی کرتے رہیں، اس امید پر کہ کچھ نہیں ہوتا؟ دعائیں کام نہیں کرتیں، کام کرتا ہے آپ کا جوابی حملہ ۔ جوابی حملہ تمام ممکنہ طریقوں سے ، حتیٰ کہ ایسے طریقوں سے بھی جنہیں ہم پسند نہ کرتے ہوں ۔ یقینا ہم ان سے کھلے میدانوں میں بھی جنگ لڑیں گے لیکن ابھی یہ ممکن نہیں ہے ۔
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
_________________________________________________________________________________


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر