... loading ...
زریں اختر
(گزشتہ سے پیوستہ)
مندرجہ بالا عنوان کے تحت کالموں کا سلسلہ شروع کیاتھالیکن اس کے نتیجے میں وہ خبریں رہ جاتی تھیںجن پر میں لکھنا چاہ رہی ہوتی تھی۔ تب میںنے اس سلسلے کو ہفتہ وار پر منتقل کردیا ۔ اس مرتبہ یہ وقفہ دو ہفتوں پر کھنچ گیا،آئندہ اس قاعدے پرحتی المقدورعمل کرنے کی کوشش رہے گی ۔ اب اس کو آگے بڑھانے بیٹھی ہوں تو دیکھا کہ کہاں تک لکھاتھا اور اب کہاں سے بات شروع کی جائے ؟ اس کتاب میں بعض اشخاص کے انٹرویو ایسے ہیں کہ دل چاہتاہے کہ ان سے باربار ملا جائے اور اس کے لیے اوریانا کے انٹرویو کو بار بار پڑھا جائے کہ اب یہ شخصیات تاریخ کے اوراق میں زندہ ہی نہیں بلکہ تابندہ بھی ہیں ۔ تاریخ پر ان مٹ نقوش ثبت کرنے والا ہر کردار تابندہ کردارکہلوانے کا سزاوار نہیں کہ اگر ہوتا تو انسانی تاریخ ہی المناک ہونے کے بجائے تابناک ہوتی۔
یہ گفتگو اسرائیل فلسطین مسئلے کو سمجھنے کے لیے ماضی کی وہ کڑی ہے جسے جانتے بوجھتے گم کردیا گیا کہ اگر یہ کڑی مل جائے اور جڑجائے تویہ مسئلہ کے حل کی جانب وہ پیش قدمی ہوگی کہ جس کی دھمک چہار سو سنی جاسکے گی،لیکن وہ جو کڑی گم کرنے کے ذمہ دار ہیں ، جن کے اپنے کھودے ہوئے عزائم اور اس کی قیمت عوام کے کھوئے ہوئے خواب ہیں وہ چہار سو بم دھماکوں کی آواز ہی سنوا سکتے ہیں۔ آئیے دوبارہ گولڈا میئر سے ملنے چلتے ہیں جہاں اوریانا فلاشی ان سے گفتگومیں مصروف ہے۔(مندرجہ ذیل جواب کا بس ایک مختصر حصہ جو چند سطروں پر مشتمل ہے ،پہلے بیان کیا جا چکا ہے جب خط کشیدہ سطور لکھ رہی تھی)۔
اوریانا: مسز میئر، کتنی دیر سے ہم مفاہمت ،معاہدے اور صلح نامے جیسے موضوعات پر بات چیت کررہے ہیں۔ لیکن چونکہ 1967کی جنگ بندی کی وجہ سے مڈل ایسٹ کی جنگ ایک نئی شکل اختیار کرچکی ہے، دہشت گردی کی شکل ۔آپ کی اس جنگ او ر اسے لڑنے والے لوگو ں کے متعلق کیا رائے ہے ؟ مثلاََ یاسر عرفات کے متعلق ،ہاباش کے متعلق اور بلیک ستمبر کے رہنمائوں کے بارے میں آپ کیاسوچ رکھتی ہیں؟
گولڈا: میں سیدھے سیدھے یہ سوچتی ہوں کہ وہ آدمی نہیں ہیں۔ بلکہ میں تو انہیں انسان بھی نہیں مانتی ہوں اور ایک آدمی کے بارے میں سب سے گھٹیا بات یہ ہے کہ آپ کہہ دیں کہ وہ انسان نہیںہے۔ ایسا کہنا اس بات کے مترادف ہے کہ وہ ایک جانور ہے ،کیا ایسا نہیں ہے؟ لیکن تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں و ہ ایک ” جنگ” ہے ؟ کیا تمہیں یاد نہیں ہاباش نے اس وقت کیا کہاتھاجب اس نے اسرائیلی بچوں سے بھری ہوئی ایک بس کو دھماکے سے اڑادیاتھا؟ ”کسی اسرائیلی کو تب ہی ماردینا بہتر ہے جب وہ ایک بچہ ہو۔ ”چھوڑو بھی جو کچھ وہ کر رہے ہیں اسے ایک جنگ نہیں کہاجاسکتا۔ حتیٰ کہ یہ ایک انقلابی تنظیم بھی نہیں ہے کیونکہ جس تنظیم کا واحد مقصد قتل کرنا ہو اسے انقلابی کہنا جائز نہیں ہے ۔
دیکھو ،اس صدی کی شروعات میں،روس میں ایک انقلابی تنظیم کاظہور ہواجو کہ شہنشاہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے،ان میں ایک گروہ تھا جو دہشت کا استعمال صرف جدوجہد کے نام پر کرتے تھے ۔ ایک دن اس گروہ میں سے ایک شخص خود کش بمبار کے طور پر ایک گلی میں روانہ کیاگیاجدھر سے شہنشاہ کے ایک بڑے عہدے دار کا گزر متوقع تھا۔ اس عہدے دار کی سواری امید کیے گئے وقت پر ہی وہاں سے گزری ۔ مگر وہ عہدے دار اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے ہمراہ اس کی بیوی اور بچے بھی تھے ۔ اس حالت میں وہ سچا انقلابی شخص کیاکرتا ؟ اس نے بم نہیں پھینکا۔ اس نے بم کو اپنے ہی ہاتھوں میں چلنے دیا جس سے وہ خود ہی چیتھڑوں میں اڑ گیا۔ دیکھو ، ہمارے پاس بھی جنگ کے دوران ہمارے دہشت گرد موجود تھے :The Irgun The Stem۔ اورمیں نے ان کی مخالفت کی تھی ،میں نے ہمیشہ ان کی مخالفت کی تھی ۔لیکن انہوں نے پھر بھی اتنی رسوائی اپنے نام نہ لی جس قدر دہشت گردی عربوں نے ہم پر مسلط کی ۔نہ ہی انہوں نے بازاروں میں بم لگائے اور نہ ہی اسکول بسوں کو ڈائنا مائیٹ لگا کر اڑایا، اور نہ ہی انہوں نے ایسے المیوں کو جنم دیا جیسے Munichاور Lodائیر پورٹ کے تھے !
اوریانا: اور کس طریق کوئی اس طرح کی دہشت گردی سے مقابلہ کرسکتاہے مسز میئر؟ کیا آپ کو واقعی لگتاہے کہ لبنان کے دیہاتوں میں بم گرانے سے کوئی فائدہ ہوگا؟
گولڈا: ایک مخصوص حد تک ”ہاں ہوگا”۔ کیونکہ ان دیہاتوں میں فدائین مقیم ہیں۔ لبنانی خود کہتے ہیں کہ کچھ علاقے الفتح کی ملکیت ہیں۔ اس لیے وہ مخصوص علاقے صاف کرنا ضروری ہیں۔ لبنانیوں کو خود چاہیے تھا کہ وہ ان علاقو ں کی صفائی کرتے لیکن لبنانی کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کچھ بھی کرنے سے لاچار ہیں۔ہنھ! حسین بھی یہی بات کہنے کا عادی تھاجس دور میں فدائین نے اردن میں ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔حتیٰ کہ ہمارے امریکی دوست بھی یہی کہتے تھے کہ :”یہ حسین نہیں ہے جو ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنا چاہتا! بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اتنی طاقت نہیں رکھتاہے۔ ” لیکن جب ستمبر 1970میں عمان خطرے میں گھرا، اور اس کا محل خطرے میں تھابلکہ اسے خود اپنا آپ خطرے میں محسو س ہوا کہ وہ کچھ کرنے کی طاقت رکھتاہے اور اس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ اگر لبنانی مسلسل کچھ کرسکنے کے لیے لاچاری کا اظہار کرتے ہیں تو ہم انہیں جواباََ کہیں گے کہ ”بہت اچھے ”: ہم آپ کی مشکلات کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے مگر ہم کرسکتے ہیںاور صرف تم کو دکھانے کے لیے ہم ان علاقوں کو بم سے اڑائیں گے جہاں فدائین نے پناہ لے رکھی ہے۔
شاید کسی بھی دوسری عرب ریاست کے مقابلے میں لبنان دہشت گردوں کی زیادہ مہمان نوازی کررہاہے ۔ وہ جاپانی جو Lodائیر پورٹ کی تباہی کاباعث بنا تھا وہ لبنان سے آیاتھا۔ وہ لڑکیاں جنہوں نے Tel Avivمیں ہوائی جہاز کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی ،ان کی تربیت بھی لبنان میں ہوئی تھی ۔ کیا ہم یہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور بس دعائیں اور سرگوشیاں ہی کرتے رہیں، اس امید پر کہ کچھ نہیں ہوتا؟ دعائیں کام نہیں کرتیں، کام کرتا ہے آپ کا جوابی حملہ ۔ جوابی حملہ تمام ممکنہ طریقوں سے ، حتیٰ کہ ایسے طریقوں سے بھی جنہیں ہم پسند نہ کرتے ہوں ۔ یقینا ہم ان سے کھلے میدانوں میں بھی جنگ لڑیں گے لیکن ابھی یہ ممکن نہیں ہے ۔
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
_________________________________________________________________________________